روایت اور تہذیب کی علامت ’’کوزہ سازی‘‘

عبدالستار کشف  منگل 28 مارچ 2017
افسوس یہ کہ مٹی کے کھلونے کی جگہ اب پلاسٹک کے کھلونوں اور مٹکے، صراحیوں کی جگہ واٹر ڈسپنسر اور کولر نے لے لی ہے۔ شادی و دیگر تقریبات میں بھی سارے برتن اب اسٹیل اور لوہے کے ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

افسوس یہ کہ مٹی کے کھلونے کی جگہ اب پلاسٹک کے کھلونوں اور مٹکے، صراحیوں کی جگہ واٹر ڈسپنسر اور کولر نے لے لی ہے۔ شادی و دیگر تقریبات میں بھی سارے برتن اب اسٹیل اور لوہے کے ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

مٹی کو نفاست سے گوندھ کر معدوم ہوتی کوزہ سازی کو زندہ رکھنے والے ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا کے کمہاروں نے اپنی انگلیوں کو مٹی میں ملا کر ایک نئی جہت سے دنیا کو متعارف کروایا، یہ اِس جدید دور میں بھی قدیم انداز کی برتن سازی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

روایت اور تہذیب کی علامت یہ صنعت دنیا میں سب سے قدیم صنعت ہے، شاید 8 یا 10 ہزار سال سے بھی پرانی۔ مسلمان برتن ساز اپنے فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ انہوں نے رنگ دار مٹی کا اضافہ کرکے مراکش سے اُندلس، اسپین اور پھر برصغیر تک اِس ہنر کو پہنچا دیا اور پاکستان میں بھی رنگ دار مٹی اور کاشی گری کا آغاز ہوا۔

مٹی کے یہ برتن حفظانِ صحت کے پاسدار بھی ہیں اور ہماری ثقافت کا جزو بھی، لیکن اِن کی تیاری اتنا آسان کام بھی نہیں جتنا نظر آتا ہے۔

مٹی کے یہ برتن استعمال کیلئے پہنچنے سے قبل کئی مراحل سے گزر کر آپ کے ہاتھوں تک پہنچتے ہیں۔ ایک خاص مٹی کو باریک چھان کر پانی کے ذریعے گوندھنے کے بعد، چک کو پاؤں سے گھما کر گندھی ہوئی مٹی کو بغیر کسی سانچے کے انگلیوں کی پور کی مدد سے تھال، پیالے، گلک، گھڑے، دیگچیاں، گل دان، بچوں کے کھلونے جیسے مور، چڑیا، گھوڑے، ہاتھی، بیل گاڑی، دیے، لسی بنانے کی چاٹی، کنالیاں، تندور اور دیگر اشیاء بنانے میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ اُن کے ہنر پر رشک آتا ہے۔ تیار فن پاروں کو آوے (تنور) میں تپا کر مضبوط کیا جاتا ہے اور اِس کے بعد رنگ و روغن کرکے فروخت کیا جاتا ہے۔

آج بھی گرمیوں میں دھاتوں کے مقابلے میں مٹی کے اِن برتنوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سائنس بھی اب تسلیم کرچُکی ہے کہ مٹی کے بنے برتنوں میں کیلشیم، فاسفورس، آئرن، میگنیشم، سلفر اور دیگر نامیاتی مادے کی موجودگی کھانوں میں ذائقہ بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔

آب خورے میں رکھا پانی قدرتی طور پر نہ صرف ٹھنڈا رہتا ہے بلکہ بیکٹیریا سے محفوظ بھی رہتا ہے، جب کہ ہانڈی میں کھانا پکانے سے اِس کی قدرتی افادیت باقی رہتی ہے۔ اسی طرح مٹی کے برتن میں جما ہوا دہی زیادہ ذائقہ دار اور خالص ہوتا ہے۔

انہی خصوصیات کے سبب مٹی کے مٹکے، خوبصورت گلاس اور نفاست سے بنے پیالوں کے قدر دان آج کے جدید دور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کبھی ہر گھر میں مٹی کے برتن ہوتے تھے لیکن اب اِس کی جگہ دھات کے بنے برتنوں نے لے رکھی ہے۔ زمانۂ قدیم میں تو شادی بیاہ کے موقع پر دیگوں کے علاوہ پلیٹیں، صراحیاں، آب خورے، چاٹی، ہانڈی، کونڈے یہ سب مٹی کے ہی استعمال کئے جاتے تھے۔

لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔

مٹی کے کھلونے کی جگہ اب پلاسٹک کے کھلونوں کی بھرمار ہے۔ مٹکے، صراحیوں کی جگہ واٹر ڈسپنسر اور کولر نے لے لی ہے۔ شادی و دیگر تقریبات میں بھی سارے برتن اب اسٹیل اور لوہے کے استعمال کئے جانے لگے ہیں۔

ہاں لیکن تمام تر تبدیلی کے باوجود اگر نہیں بدلے تو ہالا کے یہ کمہار نہیں بدلے۔ ٹیکنالوجی اور ترقی کی دوڑ میں یہ ہنر مند کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ لوگ کسمپرسی میں بھی اپنے خاندانی کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید یہ ’’آہت‘‘ ہی ہے جو مٹی سے عشق اور محبت کے سبب اِن کمہاروں کو صدیوں سے مٹی کی چاہت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مٹی کی سوندھی خوشبو انہیں اپنے سحر سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔

اِن کی یہ حالت دیکھ کر خواہش ہوچلی ہے کہ ہمیں مشکلات کے باوجود اِس ثقافت کو بچانے والے اِن ہنر مندوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی سرپرستی اور اقدامات اُٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔ اِس فن کی پذیرائی مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ جیسے بڑے پیمانے پر نمائش کا انعقاد کرکے، میلوں کے ذریعے اور آگاہی مہم کے ذریعے بھی، اگر ہم نے بروقت کوئی قدم نہیں اُٹھایا تو ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ ثقافت بھی کتابوں میں بند نہ ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
عبدالستار کشف

عبدالستار کشف

بلاگر فوٹوگرافی اور سیر و سیاحت پر خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ فوٹوگرافی مقابلے میں انٹرنیشنل فوٹوگرافک کونسل کی جانب سے گولڈ میڈل حاصل کرچکے ہیں ۔آپ ان سے فیس بک پر www.facebook.com/KashfsPhotographyپر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔