توبہ توبہ کتنا جھوٹ بولتا ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 29 مارچ 2017
barq@email.com

[email protected]

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ جو ہر روز اخباروں میں کچھ خاص لوگوں کے بیانات آتے ہیں ان لوگوں کا حشر نشر آخرت میں کیا ہو گا ، سنتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والوں کو زبان سے لٹکایا جائے گا اگر یوں ہو تو جس مقام پر پاکستان کے ان خاص لوگوں کا ایریا ہو گا وہاں تو شاید ہی کوئی بندہ بشر ایسا ملے جو زبان سے لٹکا ہوا نہ ہو، عام لوگ بھی اتنے خوش نہ ہوں اگر جھوٹ سننے والوں کو زبان سے لٹکایا جائے گا تو سننے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کو کم از کم ’’کانوں‘‘ سے لٹکانا تو بنتا ہے اور ان خاص لوگوں کے خاص لوگ جو ان جھوٹ بولنے والوں کے جھوٹ پر نعرے لگاتے ہیں ۔

ان کے بارے میں تو حضرت مولانا فضل الرحمن عرف تحفظات والے سائیں سے پوچھنا پڑے گا کہ ان کو کس طرح سے لٹکایا جائے گا کیونکہ فی زمانہ ایسے باریک مسائل پر وہی ایک واحد اتھارٹی ہیں البتہ ہم میڈیا والوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں کہ ان کو کیسے لٹکایا جائے گا، لیکن بتائیں گے اس لیے نہیں کہ ہم نے بچپن میں ایک دو مرتبہ بھڑوں کے چھتے کو پتھر مارے تھے، ہمارے گاؤں میں دو بھائی تھے۔

ایک بڑا ہی باتونی تھا جب کہ چھوٹا بھائی بہت کم بولتا تھا لیکن سچ بولتا تھا، ایک مرتبہ رمضان سخت گرمیوں کے موسم میں آیا تھا اور پیاس کے بارے میں اکثر لوگ بات کرتے تھے، لوگ سحری کھانے کے بعد زیادہ تر ڈیرے میں آتے تھے تاکہ حقے کا آخری دور چلا سکیں ، وہ دونوں بھائی بھی آتے تھے، ایک روز پیاس کی بات چلی، ہر کوئی اپنی روداد سنا رہا تھا کہ پیاس کا کیا کیا جائے، ان دونوں میں سے بڑا بھائی بولا ، یہ لوگ یونہی پیاس کی شکایت کرتے ہیں کیوں کہ روکھی سوکھی کھاتے ہیں، میں تو سحری میں بھرپور گھی کا استعمال کرتا ہوں، ابھی ابھی میں دیسی گھی میں مکئی کی روٹی چورا چور کر کے کھائی ہے، اب مجال ہے جو مجھے ذرا بھی پیاس ستائے۔ اس کا چھوٹا بھائی دور کونے میں ہمارے ساتھ بیٹھا تھا، اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا ، توبہ توبہ آدمی کم از کم اتنا جھوٹ تو بولے کہ ایک ریل گاڑی اسے اٹھا سکے، ابھی ابھی ہم دونوں نے اکٹھے سحری کھائی ہے بینگن کی ترکاری سے اور یہ یہاں دیسی گھی کے قصے سناتا ہے۔

دیسی گھی کو تو ہماری آنکھیں ترس گئی ہیں، پتہ نہیں کہ ان خاص الخاص جھوٹوں کو چلو کہ عوام کا خوف تو نہیں آتا کہ ان کو ان کی حماقت پر پورا پورا بھروسہ ہے، وہ آخرت میں زبان سے لٹکنے کی بات بھی چھوڑ دیجیے کہ کل کس نے دیکھی ہے لیکن جب اپنے آپ کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو پھر تو کچھ تھوڑی بہت شرم آنی چاہیے لیکن شاید وہ چیز بھی ان کے اندر مکمل طور پر مر چکی ہے جو جھوٹ بولنے پر سرعام نہ سہی تنہائی میں تو انسان کی سرزنش کرتا رہتا ہے، جس کے بارے میں کم از کم ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر بھی جھوٹ بولا جا سکتا ہے لیکن اس کم بخت کے حاضر ناظر ہوتے ہوئے بھی کوئی جھوٹ نہیں بول سکتا جو انسان کے اندر بیٹھا ہوتا ہے، ان حالات میں صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ چیز ان کے پاس ہوتی ہی نہیں یا بچپن ہی میں فوت ہو چکی ہوتی ہے یا ان کے کرتوت سے تنگ آکر کہیں فرارہو چکی ہوتی ہے ، ورنہ توبہ توبہ خدا کی پناہ، اتنا جھوٹ اور ایسا مسلسل اور بے تھکان جھوٹ ۔کم از کم کلے بندے کا کام تو یہ نہیں ہو سکتا ہے۔

ان کو ضرور کوئی غیبی مدد حاصل ہوتی ہے اور جھوٹ میں غیبی مدد صرف ایک ہی ہستی دے سکتی ہے، نام لینے کی ضرورت ہی کیا، جانی مانی ہستی ہے اور ہر کسی کے ساتھ اس کی جان پہچان ہے۔ ایک دن ہمارا ایک دوست کئی سال بعد ملا ، اس کے کاندھے پر بھی ایک بچہ تھا اور انگلی پکڑے ہوئے بھی ایک بچہ تھا، پوچھا بھئی یہ کیا۔ بولا، یہ میرے بچے ہیں ۔

ہم نے یونہی تنگ کرنے کی غرض سے کہا، یہ کام تم اکیلے کے بس کا تو نہیں اس پر وہ اچانک بپھر گیا ، کیا مطلب ہے تمہارا ۔ فوراً وضاحت کی، میرا مطلب ہے کہ اس کام میں ضرور تمہارا کوئی اور مددگار بھی ہے وہ اور بھی سرخ ہو گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گالی دینے پر اتر آئے ہم نے واضح کر دیا کہ ان کی ماں بھی تو تمہارے اس پراجیکٹ میں شامل ہے نا ۔ ان خاص لوگوں پر بھی ہمیں کچھ ایسا ہی شبہ ہے کہ اس روزانہ کے کام میں ان کا مددگار ضرور کوئی ہے اور وہ وہی ہستی ہو سکتی ہے جو اندر کے انسان کو بھگا کر اس کی جگہ پر قبضہ کر لیتی ہے یعنی گھس بیٹھا بن جاتی ہے ورنہ توبہ توبہ اتنا جھوٹ ۔ اور اکیلے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا ۔آخر انسان کو کبھی کبھی اپنے آپ کے ساتھ اکیلا بھی تو ہونا پڑتا ہے لیکن شاید اکیلے میں بھی یہ اکیلے نہیں ہوتے، حکیم مومن خان مومن نے تو کہا تھا کہ

تم مرے پاس ہوئے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

لیکن وہ تو مومن تھے اس لیے اشارہ دوسری طرف تھا اور یہ لوگ ’’خاص‘‘ ہوتے ہیں اس لیے ان کے پاس دوسری ہستی ہوتی ہے جو کسی اور کے نہ ہونے کا تکلف نہیں کرتی اور ھمہ وقت انسان پر سوار ہوتی ہے، آپ اخبارات تو پڑھتے ہوں گے، دل پر ہاتھ رکھ کر خدا لگتی کہئے ، کیا یہ لوگ جو بولتے ہیں وہ سچ ہوتا ہے؟ اور کیا ان کو پتہ نہیں کہ ہم کیا بول رہے ہیں، اور ان دنوں تو لگتا ہے جیسے جھوٹ کا عالمی کپ یا اولمپک چل رہا ہو کہ ہو کیا رہا ہے اور کیا کیا جارہا ہے، قرضے چڑھ رہے ہیں، مسائل بڑھ رہے ہیں اور یہ مسلسل گھڑ رہے ہیں، کہتے ہیں کسی جگہ بچے کھیل کھیل میں جھوٹ کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ایک  صاحب کا ادھر سے گزر ہوا، صاحب نے تھوڑی دیر ٹھہر کر ان لڑکوں کا جھوٹ سنا جو ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ بول رہے تھے، شاید مستقبل میں سب کا لیڈر یا وزیر بننے کا ارادہ تھا جس کی ابھی سے ریہرسل کر رہے تھے۔

صاحب نے پوچھا، پیارے بچو یہ تم کیا کر رہے ہو ۔ لڑکوں نے کہا جھوٹ کا مقابلہ ہے جس نے سب سے بڑا جھوٹ بولا اسے ہم یہ مٹھائی انعام میں دیں گے ۔ صاحب نے کہا بچوں جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں ہے، میں جب تمہاری عمر کا تھا تو جھوٹ بالکل نہیں بولتا تھا اور اب بھی نہیں بولتا ۔  بچوں نے تالیاں بجائیں اور وہ مٹھائی ان صاحب کو پیش کر دی، مبارک باد دی اور اسے اپنا لیڈر بنا لیا، نہایت ’’بے وثوق‘‘ ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کھیل آج بھی جاری ہے لیکن گلی کے بجائے کچھ اور ذرا بڑے میدانوں میں اور مٹھائی کی جگہ وزارت وغیرہ دی جاتی ہے واللہ اعلم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔