ولادی میر پوتن، جدید روس کا معمار

زاہدہ حنا  بدھ 29 مارچ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

’فرینڈشپ ہاؤس‘ جسے اب رشین سینٹر فار سائنس اینڈ کلچر کہا جاتا ہے، میرے لیے کوئی نئی جگہ نہیں۔ یہ ادارہ گزشتہ 30 برس سے میرے لیے گھر آنگن رہا ہے اور ایک بار پھر میں اس میں گئی تو اس کا سبب ڈاکٹر زاہد حسن تھے، جو روس سے گریجویشن کرنے والے پاکستانیوں کی انجمن کے صدر ہیں۔ تقریب بہرملاقات رشین فیڈریشن کے صدر ولادی میر پوتن کی زندگی پر مشتمل کتاب ’مرد آہن‘ کی تقریب اجرا تھی۔ اس کتاب کو روسی زبان سے براہِ راست اردو میں ترجمہ ڈاکٹر نجم السحر بٹ نے کیا اور اس کی اشاعت کا اہتمام فرخ سہیل گویندی نے اپنے ادارے جمہوریت پبلیکیشنز، لاہور سے کیا ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے سوویت یونین اور رشین فیڈریشن کی حالیہ تاریخ نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد پیٹر اعظم کا روس اور لینن کا سوویت یونین زوال اور تھکن کا شکار تھا۔ پیٹر اعظم کے دربار کا جاہ و جلال اور عظیم عالمی طاقت سوویت یونین کا رعب و دبدبہ، سب ہی کچھ برف کی طرح پگھل گیا تھا اور اس وقت رشین فیڈریشن کا شمار دنیا کے کمزور ملکوں میں ہوتا تھا۔ سوویت یونین سے گہری وابستگی رکھنے کے سبب میرے لیے یہ بات صدمے کی تھی کہ وہ ریاست جس نے تیسری دنیا کے کمزور ملکوں کی دست گیری کی تھی اور قوموں کی برادری میں انھیں سر اٹھا کر جینا سکھایا تھا، وہ خود زوال کا شکار تھی۔ حد تو یہ تھی کہ اب چیچن لڑاکے اسے منہ چڑاتے تھے، جب کہ کچھ باغی گروہ ایسے بھی تھے جو داغستان، کاکیشیا، باشکیرستان اور تاتارستان کو بھی رشین فیڈریشن سے کاٹ کر الگ کر دینے کے لیے بے تاب تھے۔ کسی قوی الجثہ، شاندار مگر زخمی شیر کی پنڈلیوں سے گوشت نوچنے کے لیے گیڈر اسی طرح گھات لگا کر بیٹھتے ہیں۔

ایسے میں روسی سیاست کے افق پر ایک شخص نمودار ہوا جو ولادی میر پوتن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس نے رشین فیڈریشن کی حیثیت بحال کرنے میں جان لڑا دی اور اب رشین فیڈریشن ایک بار پھر قوموں کی برادری میں شان سے ابھری ہے۔ وہ ایک شاندار مستقبل کی نوید دے رہی ہے اور اندرونی طور پر ایک مستحکم ریاست بن کر سامنے آئی ہے۔ ولادی میر پوتن کی زندگی کے بارے میں پاکستان سے شایع ہونے والی کتاب ’’مرد آہن‘‘ہم پاکستانیوں کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کے صفحے ہمیں اس عظیم طاقت کے سربراہ کی ذہنی ساخت اور سیاسی تدبر سے آگاہ کرتے ہیں جو ہمارا قریبی ہمسایہ ہے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت کی عظیم عالمی طاقت سوویت یونین نے پاکستانی وزیراعظم کو سرکاری دورے کی دعوت دی تھی لیکن وزارت خارجہ کے کچھ لوگوں نے یہ دعوت مسترد کردی تھی اور پاکستانی وزیراعظم امریکا کے طویل دورے پر چلے گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ 1946ء میں بانی پاکستان محمد علی جناح ہندوستان میں تعینات اس وقت کے امریکی سفیر کو اس بات کا یقین دلا چکے تھے کہ پاکستان، امریکا سے گہرے تعلقات کا متمنی ہوگا اور وجود میں آنے والی مملکت کی دفاعی ضروریات کے بارے میں بھی امریکی سفیر کو آگاہ کردیا گیا تھا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ایک کمزور اور نوزائیدہ مملکت نے پڑوس میں موجود عظیم عالمی طاقت سے ہاتھ ملانے کے بجائے سات ہزار میل دور دوسری عالمی طاقت سے رشتے استوار کرنے کو پاکستان کے مفاد میں جانا۔ آج اس بات کو 70 برس گزر چکے ہیں، ایک بار پھر ہمارے عظیم ہمسائے رشین فیڈریشن نے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ولادی میر پوتن کے بارے میں یہ کتاب اگر ہمارے خارجہ امور کے افسران بالا کی نظر سے گزر جائے تو بہت اچھا ہو۔ یہ ہمیں اس شخص کے ذہن میں جھانکنے کا موقع دیتی ہے جس کے بارے میں ہمیں اس کا ایک دوست بتاتا ہے کہ ’’وہ قوی المزاج شخصیت کا مالک ہے، وہ بل ڈاگ کی طرح اپنی تمام توجہ ہدف پر مرکوز کردیتا ہے اور اسے حاصل کرکے ہی رہتا ہے۔‘‘ صدر پوتن کی اس مستقل مزاجی نے روس کا مقدر بدل دیا۔

وہ مشرقی جرمنی میں کے جی بی کے ایک افسر کے طور پر تعینات تھے، جہاں کے بارے میں وہ اپنی رائے یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’سماج ایک ہی جگہ منجمد تھا۔ خاندان بکھر چکے تھے۔ نصف خاندان دیوار (اشارہ دیوار برلن کی طرف ہے) کے اس طرف اور نصف خاندان دیوار کے اس طرف تھا۔ ہر شہری پر نظر رکھی جاتی۔ یہ صریحاً ایک غیر فطری اور خلافِ معمول عمل تھا۔‘‘

اسی سلسلہ خیال میں وہ اپنے ملک کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’سوویت یونین بیمار تھا اور اس ناقابل علاج اور جان لیوا بیماری کا نام تھا۔ طاقت کا تعطل۔ حکومت کرنے کی طاقت کا تعطل۔‘‘ ولادی میر پوتن دیوار برلن کے گرنے سے کہیں زیادہ یورپ میں سوویت یونین کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کو دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں اور یہ بات دو ٹوک کہتے ہیں کہ دیواریں کھڑی کرنے اور پانی پر لکیریں کھینچنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی پوزیشن دیرپا نہیں ہوسکتی۔

وہ کئی برس کے جی بی جیسے بدنام زمانہ ادارے سے وابستہ رہے، یہی وجہ تھی کہ بہت سے لوگ انھیں ایک سفاک جاسوس قرار دیتے تھے۔ وہ جب سیاسی زندگی میں آئے تو ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج چیچنیا میں جاری فساد انگیزی اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے نجات پانا تھا۔

ہم پاکستانی دو دہائیوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ولادی میر پوتن کے یہ جملے اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ’’ سب سے پہلے ملٹری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شرپسندوں کے بڑے بڑے گروہوں کی سرکوبی۔ بڑے سے مراد دس اور دس سے زائد افراد پر مشتمل گروہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اور انتظامی اداروں کو واپس ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول، اسپتال اور دوسرے سوشل اداروں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کرنے کی اور کاروبارِ زندگی اور کام کاج کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد الیکشن کا انعقاد ہونا چاہیے۔‘‘

پوتن سے سوال کیا گیا کہ چیچنیا ماضی میں بھی ایک قدرے مختلف انداز میں سہی، تعمیرِ نو کے ان مراحل سے گزر چکاہے۔ تاہم شدت پسندوں نے باآسانی چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ اب کیا گارنٹی ہے کہ تاریخ دوبارہ خود کو نہیں دہرائے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے پوتن نے کہا کہ گارنٹی یہی ہے کہ بدمعاشوں کا قلع قمع کردیا جائے۔ جوبھی ہتھیار اٹھائے اس کا سر کچل دیا جائے ، جب کہ باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ چیچنیا کے باسیوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی ری پبلک کا سربراہ چن لیں۔ ہم چیچنیا کے ساتھ معاہدے پر مہر ثبت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم بندوق کی نوک پر ایک بھی شرط قبول نہیں کریں گے۔

’موثر حکومت‘ کے بارے میں مسٹر پوتن کا کہنا ہے کہ:’’عدالتوں ، تحفظِ حقوق کے اداروں اور مصالحتی کمیٹیوں کو اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہنا چاہیے۔ ان اداروں کا کردار تبدیل ہوچکا ہے اور مروجہ قوانین سے مطابقت رکھتا ہے لیکن ہم ابھی تک ماضی کے جمود میں مبتلا ہیں۔ ہم ججوں اور مصالحتی کمیٹیوں کے ملازمین کو ان کے شایان شان مشاہرہ کیوں نہیں ادا کرتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دماغ پر آج بھی سوویت نظریات غالب ہیں۔ ان دنوں ہم عدالت کو ذرا سی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے لیے پارٹی کا مقامی دفتر عدالت سے زیادہ اہم تھا۔ تمام فیصلے وہیں ہوتے تھے۔ عدالتوں کی حیثیت ان کے ماتحت اداروں جیسی تھی۔ جج وہی فیصلہ کرتے تھے جو انھیں کہا جاتا تھا۔ ’اٹارنی ‘ جنرل کے عہدے کو وہ وزیراعظم کے عہدے سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’اٹارنی جنرل کی شخصیت کو اخلاقی اقدار کا پیکر ہونا چاہیے کیوں کہ وہ قانون کا رکھوالا ہوتا ہے اور تمام شہریوں کو ، بشمول صدر اور وزیراعظم کو قانون کی پاسداری کا پابند کرتا ہے۔‘‘

آج صدر پوتن کی قیادت میں رشین فیڈریشن دنیا کی ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی، معاشی اور فوجی طاقت کے روپ میں سامنے آرہی ہے۔ ولادی میر پوتن جدید روس کے معمار ثابت ہوئے ہیں۔

یہ کتاب موجودہ عالمی سیاست کے ایک اہم ترین کردار کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سے ہمارے امور خارجہ کے ماہرین اور سیاستدان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ انھیں رشین فیڈریشن سے قریبی تعلقات کاروباری معاملت اور دونوں ملکوں کے درمیان نئے روابط کے بارے میں غور کرنا چاہیے کہ اسی میں ہمارا فائدہ ہے۔ ایک عالمی طاقت اگر آپ سے چند سو میل کی دوری پر ہو اور دوسری 7 ہزار میل کے فاصلے پر تو ان میں سے کس کے ساتھ قربت ہمارے مفادات کی تکمیل میں زیادہ کارگر ہوسکتی ہے، اس بارے میں ہمیں زیادہ غوروفکر کی ضرورت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔