مقابلۂ روشن خیالی

ڈاکٹر یونس حسنی  بدھ 29 مارچ 2017

پاکستان آج کل شدید نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہے۔ عرصے سے ہمارے سیاستدان فکر بیاں کے تضاد میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے اسلامی تشخص کی چیخ پکار ہے تو دوسری طرف روشن خیالی وسیع النظری اور رواداری کے نام پر اسلام سے ہر انحراف جائز و برحق تصورکیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں پنجاب کی ایک رکن اسمبلی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ان کے جی میں نہ جانے کیا سمائی کہ انھوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی کہ ’’یہ ایوان حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہے کہ پنجاب کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طالبات کو حجاب پہننے کا پابند کیا جائے اور یہ کہ حجاب پہننے والی طالبات کو اضافی نمبر دیے جائیں۔‘‘

یہ حجاب یورپ میں گالی بن چکا ہے۔ اسلامی انتہا پسندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سربازار بعض ممالک میں مسلم لڑکیوں کے چہروں سے کھینچ لیا جاتا ہے، حجاب والی لڑکیوں کو بعض یورپی ممالک تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیتے اور یوں ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔

یورپ جیسے ترقی یافتہ براعظم میں سارے ہی ممالک حجاب دشمن ہوں تو بی بی نبیلہ حاکم علی کو کیا اللہ نے شرمایا تھا کہ وہ یہ قرارداد پیش کر بیٹھیں۔ مگر فوراً ہی انھیں اپنی فکری کج روی کا احساس ہوا اور دوسرے ہی دن انھوں نے ایک دوسری قرارداد پیش کی کہ ’’یہ ایوان حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہے کہ پنجاب کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طالبات کو حجاب پہننے کا پابند کیا جائے اور نہ ہی حجاب پہننے والی بچیوں کو اضافی نمبروں کا لالچ دیا جائے۔‘‘ پوچھا گیا کہ محترمہ! کل تو آپ نے وہ فرمایا تھا اور آج یہ فرمایا ہے تو سخن طراز ہوئیں کہ دراصل اصل قرارداد آخرالذکر ہی تھی پہلے کتابت کی غلطی سے ’’نہ‘‘ رہ گیا تھا۔

مگر دونوں عبارتوں کا مطالعہ کر لیجیے معاملہ ’’نہ‘‘ کی عدم کتابت کا نہیں بلکہ شدید غلطی کے احساس کا ہے۔

مسئلہ محض نبیلہ حاکم علی کا نہیں۔ ہمارے محسن سرسید یہ روایت ڈال گئے ہیں کہ اللہ نے جب دو آنکھیں دی ہیں تو دونوں سے الگ الگ کام لیے جائیں۔ چنانچہ سرسید جب کسی علمی، سائنسی یا سماجی مسئلے پر اظہار خیال فرماتے تو ان کی ایک آنکھ اسلام پر ہوتی اور دوسری انگریز پر اور وہ پوچھ لیتے تھے کہ کیا فرماتی ہے سرکار دولت مدار اس مسئلہ خاص میں اور پھر انگریزی نکتہ نظر کو اسلامی جامہ پہنانے میں لگ جاتے۔

اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں، سماجی رہنماؤں، دانشوروں پر آزمائش آئی ہوئی ہے، مگر وہ بھی سرسید کے بتائے ہوئے راستے کو نجات کا راستہ سمجھتے ہیں۔ ایک آنکھ سے وہ اسلامی تقاضوں کو دیکھتے ہیں اور دوسری آنکھ سے ان تقاضوں کے بارے میں یورپ کے نکتہ نظرکو۔ فرق یہ ہے کہ سرسید انگریزی نکتہ نظرکو اسلامی جامہ پہنانے کی سعی ناکام کرتے رہتے تھے مگر اس دور کے دانشور اس کھگڑ میں نہیں پڑتے وہ یورپی طرز فکر پر ہی آمنا و صدقنا کہنا شروع کر دیتے تھے۔

اب بھلا اس حجاب کے مسئلے کو ہی لے لیجیے۔ یورپ کی نظروں میں رسوا یہ طرز زندگی پاکستان میں نافذ کرنے کی سعی نامشکور! بھلا کیا تک بن سکتی تھی اور بے چاری نبیلہ حاکم علی نے جو یہ ’’کتابت کی غلطی‘‘ تراشی ہے۔ یہ محض تراش خراش ہے ورنہ ان کی جماعت کی طرف سے بھی دباؤ پڑا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ تحریک انصاف بھی ملائیت کا الزام اپنے سر لینے اور اہل مغرب کی نظروں میں قدامت پسند قرار پانے کو پسند نہیں کرتی۔

ایک زمانے میں ادب میں ’’ترقی پسند‘‘ تحریک نے بڑا زور پکڑا تھا۔ بھلا تنزل پسند ہونا کون پسند کرتا اس لیے جسے دیکھیے ترقی پسند ہوا جاتا تھا۔ ہم نے بڑے بڑے مذہبی جغادریوں کو ترقی پسند ہوتے دیکھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ترقی پسندی بالآخر مذہب کی بیخ کنی پر منتج ہوتی ہے۔

یہی حال آج کل روشن خیالی اور رواداری کا ہے۔ اب روشن خیالی کے نام پر شراب نوشی، رقص و سرودکی محفلوں ویلنٹائن ڈے کی خرمستیوں یہاں تک کہ موسمی تبدیلیوں پر منائے جانے والے تہواروں مثلاً بسنت اور ہولی وغیرہ کو مشرف بہ اسلام کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام کے نزدیک موسموں کی یہ تبدیلی دنوں کے الٹ پھیرکا نام ہے، دیوتاؤں کی کارگزاری نہیں۔

اور یہ صرف تحریک انصاف کا معاملہ نہیں ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے مسلم لیگی بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ورنہ مسلم لیگی اسپیکر دونوں قراردادوں کو بیک وقت اسمبلی میں پیش کر کے لطف کا سامان تو ضرور فراہم کر دیتے۔

مگر مسلم لیگی، تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی سبھی اپنی روشن خیالی کو زیادہ سے زیادہ واضح کر کے مغربی اقوام سے سند غلامی حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ زرداری صاحب نے اس قرارداد پر جو تبصرہ کیا وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ حکمراں جماعت کے وزرا اور خود وزیراعظم آج کل روشن خیالی کے ایسے مدح خواں بنے ہوئے ہیں کہ روشن خیالی اور بے لگامی کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

بے چاری جماعت اسلامی عجب مخمصے میں ہو گی۔ اس کی حلیف جماعت خود روشن خیالی کی جدید ترین تعریف کے مطابق روشن خیال بھی ہوئی ہے اور جماعت اسلامی رواداری کی روایتی ریت سے وابستہ پریشان ہے کہ دو متضاد اور متصادم تصورات میں اتصال کے پہلو کیسے نکالے اور روشن خیالوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے استقامت کا کیا پہلو اختیار کرے۔

سیدھی بات یہ ہے کہ ہم اپنی بصارت رکھتے ہوں بصیرت کھو چکے ہیں ہمارا فکری قبلہ اب مغرب ہو چکا ہے اور وہی درست ہے جسے اہل مغرب درست کہیں۔ جب تک ہم اپنی فکرکے اس قبلے کو درست نہیں کر لیتے ہماری ژولیدہ سری دور نہیں ہو سکتی۔ ہماری لیڈر شپ خود تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور اپنے ساتھ قوم کو بھی کسی نادیدہ گڑھے کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہی ہے کہ ہم:

پورے کافر بھی نہیں پورے مسلماں بھی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔