بیس کروڑ لوگوں کی کہانی

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 29 مارچ 2017

ڈیوڈ اومیکے کہتا ہے ’’زندگی کی عظیم ترین جنگیں روزانہ روح کے خاموش نہاں خانوں میں لڑی جاتی ہیں، اگر آپ یہ جنگیں جیت لیں اور اندرونی اختلافات کو طے کر سکیں تو پھر آپ کو اصل سکون حاصل ہوگا اور اپنے بارے میں اصل خو د آگہی پیدا ہوگی اور پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ عوامی فتوحات قدرتی طور پر آپ کے قدم چومیں گی، عوامی فتوحات کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ تعاون کے انداز میں سوچتے ہیں۔ دوسر ے لوگوں کی فلاح اور بھلائی چاہتے ہیں اور ان کی کامیابی پر صحیح معنوں خوش ہوتے ہیں۔‘‘

ہمارے ملک میں عام طور پر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ہماری اکثریت روح کی عظیم ترین جنگیں ہار جاتی ہیں اور ہمارے اندرونی اختلافات طے ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتے ہیں پھر ہم ساری عمر اپنے آپ سے گتھم گتھا رہتے ہیں اور اپنے آپ کو زخمی پہ زخمی کیے جاتے ہیں جب ہم لہولہان ہوجاتے ہیں تو پھر ہم انسان بن کر نہیں بلکہ جانور بن کر سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ شوپنہارکہتا ہے کہ ’’ انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے‘‘ پھر ہم دوسروں کے ساتھ تعاون کے بجائے انھیں تنگ کر نے کے طور طریقے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ان کی فلاح اور بھلائی کے بجائے ان کی بدخواہی میں مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ جنگیں ہارنے کے بعد انسان انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے، محض گوشت کا بے ہنگم ڈھیر صرف اپنے لیے زندہ، کیونکہ جانور سوچ نہیں سکتے، انسان سوچ سکتا ہے۔

تھامس اے ایڈیسن بلب کے علاوہ تقریباً بارہ سو ایجادات کے موجد نے ایک مقام پرکہا تھا ’’بدن کی اہمیت کی بنیادی وجہ صرف اتنی ہے کہ یہ دماغ کو اندر رکھتا ہے‘‘ یعنی زمین پر انسان کا وجود، کامیابیاں، خوشیاں، جذبے، ناکامیاں اورمستقبل بھی صرف دماغ کا محتاج ہے اوروہ ہی ان کا فیصلہ کر تا ہے اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنی تاریخ کے کوڑا دان میں گھس جائیں اور اسے کھنگالنے بیٹھ جائیں تو ہمیں سراغ مل جائے گا کہ ہماری تاریخ کے اہم کرداروں کی اکثریت سب کی سب روح کی جنگیں ہارچکی تھیں۔ اس لیے انھوں نے کبھی بھی انسان بن کر نہ تو فیصلے کیے اور نہ ہی اقدامات۔ بلکہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو جتنا تنگ اور ذلیل وخوارکر سکتے تھے، کرتے رہے جنہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو جاننے، سمجھنے اور پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ انسان ہیں اور بحیثیت انسان ان پر دیگر انسانوں اور انسانیت کی خدمت کرنا فرض ہے اور وہ اسی لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں وہ ساری عمرآئینے توڑتے رہے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو پہچان نہ لیں ان کے اندر بھیڑیوں کے غول کے غول داخل ہوگئے تھے اور انھوں نے ان پر قبضہ کرلیا تھا پھر وہ خود کچھ نہیں کرتے تھے بلکہ بھیڑیے سب کچھ کرتے تھے۔

اسی لیے ہمارے ملک اور قوم کے اہم فیصلے اور اقدامات دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ فیصلے اور اقدامات انسانوں کے کیے ہوئے ہیں کیونکہ انسان تو پلاننگ کرتے ہیں سو چ بچار کرتے ہیں اچھے حال و مستقبل کے لیے اقدامات کرتے ہیں وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے سوچتے ہیں۔ اگر ہمارے ماضی کے کردار انسانوں کی طرح فیصلے اور اقدامات اور سو چ بچار کرتے تو پھر آج اس طرح ملک میں خاک نہیں اڑتی پھر رہی ہوتی مہنگائی، غربت و افلاس اور بیروزگاری عروج پر نہ ہوتی، بجلی، گیس، پانی اور صحت کی سہولیات کے لیے لوگ تڑپتے نہیں پھر رہے ہوتے۔ 20 کروڑ انسان اپنے ہی ملک سے فرار ہونے کے منصوبے نہیں بنارہے ہوتے اپنے ملک کے کرتا دھرتاؤں اور اپنے نصیبوں کو برا بھلا نہ کہہ رہے ہوتے، بے حسی نے آج اس طرح ملک پر قبضہ نہ کیا ہوتا جس کی وجہ سے جیتے جاگتے انسان پتھر اور لکڑی کے بن گئے ہیں۔

جب انسان پتھر اور لکڑی کے بن جاتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے دنیا کے مشہور ترین مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر ڈینیل گول مین کی تین خدائی خدمت گاروں کی سنائی گئی کہانی دوبارہ سنتے ہیں ’’یہ تجربہ ایک مشہور امریکی یونیورسٹی میں کیا گیا۔ سب سے پہلے مثبت رویہ اور رضاکار انہ جذبات رکھنے والے تین بائبل کے پیروکاروں کا انتخاب کیا گیا۔ پھر انھیں بائبل میں خدمت سے متعلق کچھ اچھے اقوال اور مضامین پڑھانے کا کام سو نپا گیا۔ تجربہ کچھ اس طرح سے کیا گیا کہ بائبل میں انسانی قدروں پر اور انسانیت کی خدمت کے لیے کیے گئے موضوع پر بات کرنے کے لیے رضاکار طالبعلم کو کچھ لمحے بیشتر سٹرک پارکر کے دوسری بلڈنگ میں جانے کے لیے کہا جہاں کچھ لوگ ان کی گفت و شنید کے منتظر تھے ۔

تینوں رضاکار باری باری بلڈنگ سے باہر نکلے تو تینوں کو ایک ایسی آزمائش میں ڈالا گیا جس کے بارے میں انھیں کوئی ادراک نہیں تھا۔ تینوں کو یکے بعد دیگر ے سٹرک پر گرا ہوا آدمی یا سیڑھیوں کے پاس بے ہوش ہوتی ہوئی عورت یا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچہ جس نے دودن سے کھانا نہیں کھایا تھا، ملے۔ تاہم حیرت کی بات یہ تھی کہ اس تجربے کے نتائج تینوں شرکاء کے حساب سے ایک ہی رہے۔ تینوں رضاکاروں میں سے کوئی بھی سڑک پر موجود بدحال بچے یا بے ہوش عورت اور مرد کے لیے نہیں رکا۔ سب سے حیران کن امریہ تھا کہ تینوں رضاکار اچھے عیسائی مانے جاتے تھے۔

بائبل میں انسانی اقدار اور خدمت کے بارے میں گفتگوکرنے جا رہے تھے لیکن انھوں نے رستے میں موجود مسائل میں گھرے ہوئے تینوں افراد کا کوئی زیادہ نوٹس نہیں لیا۔ اس تجربے نے اس امریکی یونیورسٹی کے سینئر پروفیسروں اور ماہرین نفسیات کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ وہ کون سی ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان تینوں رضاکاروں میں سے کسی نے بھی سڑک پر موجود پریشان حال عورت، بچے اور مرد کی حالت کا نہ تو نوٹس لیا اور نہ رک کر ان کے لیے کچھ کرنے کی کو شش کی، حالانکہ وہ اسی موضوع پر بات کرنے کے لیے سامعین کے پاس جارہے تھے۔ مزید جان کاری کی گئی تو معلوم ہوا کہ اصل مجرم وقت تھا۔

چونکہ ہر رضاکارکو بہت مختصر وقت دیاگیا تھا جس میں سے اسے ایک بلڈنگ سے نکل کر دوسری تک پہنچنا تھا۔ سو اسے رستے میں موجود تینوں پریشان حال لوگوں میں سے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا۔ ثابت ہوا کہ اگر ہماری اپنی جان پر بنی ہوئی ہو یا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہو تو ہم بہت کچھ سننا یا دیکھنا بھول جاتے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ بائبل میں خدمت کے موضوع کو پڑھنے اور پڑھانے والے تینوں رضاکاروں کو رک کر جاننا چاہتے تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور یہ کہ اس سلسلے میں وہ کیا کرسکتے ہیں؟ تاہم وہ اپنی تقریر کے سلسلے میں ذہنی طورپر اتنے مگن تھے کہ انھیں کچھ دکھائی دیانہ سنائی دیا۔ ’’تجربے کا حاصل یہ تھا‘‘ ڈینیل گول مین نے بتا یا ’’کہ اگر ہم خود کسی بحران کا شکار ہوں تو اکثریت کی پہلی ترجیح اپنی بقاء ہے اور جب ہم اپنے اندر منہمک ہوتے ہیں تو پھر ہمیں آس پاس بہت کچھ دکھائی دینا اور سنائی دینا کم ہوجاتا ہے۔ ‘‘

ہم سب کا حال اسی کہانی کی تینوں رضاکاروں جیسا ہوا ہوا ہے لیکن یہ طے ہے کہ قصوروار ہم نہیں بلکہ وقت ہے اور وہ ہیں جنہوں نے ہمیں اس حال پر پہنچایا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وقت قصور واروں کا کیا انجام کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔