سیٹھی صاحب کا ’’انعام‘‘ تیار

سلیم خالق  بدھ 29 مارچ 2017
ٹیم کمزور حریفوں کو تو ہرا دیتی ہے مگر مشکل سائیڈزکیخلاف کارکردگی صفر ہوتی ہے: فوٹو: فائل

ٹیم کمزور حریفوں کو تو ہرا دیتی ہے مگر مشکل سائیڈزکیخلاف کارکردگی صفر ہوتی ہے: فوٹو: فائل

پی سی بی میں تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کو اب صبر کر کے بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ ’’تبدیلی آئی نہیں اور تبدیلی آ بھی نہیں رہی‘‘ ، نجم سیٹھی دوسری اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہیں ، اگر جلد کوئی ایسی خبر آئے کہ ’’علالت کے سبب شہریارخان نے عہدہ چھوڑ دیا‘‘ تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے، ماضی میں جب نجم سیٹھی کو عدالتی حکم کے سبب چیئرمین کی پوسٹ سے الگ ہونا پڑا تو انھوں نے بڑی خوبصورتی سے ایک گیم کھیلا، شہریارخان کو ’’ڈمی‘‘ چیئرمین بنا کر لایا گیا اور وہ خود ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔

اصل طاقت انہی کے پاس رہی مگر درمیان میں کبھی کبھی شہریارخان نے بھی انھیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور بعض من پسند فیصلے کیے، جیسے حال ہی میں طلعت علی کو منیجر بنائے جانے پر بھی نجم سیٹھی بہت تلملائے، اب وہ ایسا تجربہ دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے لہذا خود چیئرمین بن کر آئیںگے، حالات بھی ان کیلیے سازگار ہیں، گورننگ بورڈ میں تمام لوگ ’’اپنے‘‘ہیں لہذا دکھاوے کے الیکشن جیتنا بھی مشکل نہیں رہا، ہاں البتہ ایک بات یقینی ہے کئی لوگ ان کے چیئرمین بننے پر عدالت ضرور جائیں گے، سنا ہے اس مسئلے سے نمٹنے کیلیے بھی منصوبہ بندی شروع ہو چکی، حکومت بھی نجم سیٹھی سے بہت خوش ہے وجہ پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں انعقاد نہیں بلکہ سیاسی حریف عمران خان کونقصان پہنچانا ہے، اس لیے بطور انعام اب ان کیلیے آئندہ تین برس کیلیے چیئرمین کی پوسٹ تیار ہے۔

شہریار اگر فوری طور پر نہ گئے تو بھی ان کی چیئرمین شپ کے چند ماہ ہی تو باقی ہیں لہذا سیٹھی صاحب کیلیے میدان صاف ہے، اعلیٰ حلقوں میں یہ کوئی نہیں سوچ رہاکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہماری کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا،دوبارہ کورٹ کیسز چلے توہم مزید پیچھے چلے جائیں گے، اس وقت ملکی کرکٹ جس نہج پر پہنچ چکی اس میں بہتر یہ ہو گا کہ کسی نئے چیئرمین کو لایا جائے جس کا کرکٹنگ پس منظر تو ہو تاکہ بہتری کیلیے اقدامات کیے جا سکیں، مگر مجھے نہیں لگتا کہ حکومت ایسا کرے گی، جس طرح حالیہ اسپاٹ فکسنگ کیس پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اس نے شکوک مزید بڑھا دیے ہیں،ایف آئی اے کو تحقیقات سے کیوں روکا گیا یہ ملین ڈالر کا سوال ہے، مگر جواب دینے کو کوئی تیار نہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض آفیشلز کیخلاف ماضی کے معاملات کی جو تحقیقات ہو رہی ہیں اس پر بورڈ کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ مکمل تعاون کیا جا رہا ہے تاکہ وہ لوگ دباؤ کا شکار رہیں اور من مانی سے نہ روکیں،مگر فکسنگ کیس کی انکوائری پر اعتراض ہے۔

حالیہ کیس کے سبب اب ماضی کی فائلز بھی کھلنے لگیں جس سے یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، پی ایس ایل کے سفیر وسیم اکرم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق پر سلیم ملک نے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے، موجودہ جونیئر چیف سلیکٹر باسط علی بھی کھل کر بول رہے ہیں، اب ایسا لگتا ہے کہ ’’ بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی‘‘۔ ہم جیسے لوگ چلاتے رہ گئے کہ مشکوک لوگوں کو دور رکھیں افسوس بورڈ نے چن چن کر ایسے ہی لوگوں کو عہدے سونپے، اب معاملہ خطرناک رخ اختیار کرتا جا رہا ہے مگر حکام خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں، وہ میڈیا سے ناراض ہیں کہ وہ خلاف لکھ رہا ہے،ان کے مطابق سابق کرکٹرز فضول میں شور مچا رہے ہیں، آفیشلز کی کوشش ہے کہ کسی طرح میڈیا کی آواز دبائی جائے، ایک اعلیٰ بورڈ آفیشل کی اہلیہ کے رشتہ دار سوشل میڈیا کا کام سنبھالے ہوئے ہیں،انھیں متواتر ٹورز بھی کرائے جاتے ہیں۔

تنخواہ میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا،اسی کے ساتھ بعض لوگوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ سیکڑوں جعلی ٹویٹر و فیس بک اکاؤنٹس بنا کر انھیں اپنے مقاصد کیلیے استعمال کر رہے ہیں، اس معاملے کی بھی اگر ایف آئی اے سائبر کرائم کے تحت تحقیقات کرے تو کافی کچھ سامنے آ سکتا ہے، میڈیا ڈپارٹمنٹ کتنا اہل ہے اس کا اندازہ نجم سیٹھی کو ہو چکا اور وہ خود معاملات سنبھال چکے ہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کہیں ان کا صحافیوں سے سامنا ہو جائے تو ’’نوکمنٹس‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے مگر پھر اپنے ٹی وی پروگرام میں خود ہی مرضی کے سوال پوچھ کر جواب دیتے ہیں۔ میں نے چند ماہ قبل جب بورڈ آفیشلز کے غیرملکی ٹورز کی رپورٹ دی تو سب ناراض ہو گئے، اب باقی میڈیا بھی چلایا تو خاموش ہیں، گورننگ بورڈ ممبر پروفیسر اعجاز فاروقی کے نام پر جعلی ٹور کی رقم کا اب تک جواب نہیں دیا گیا، حال ہی میں پی ایس ایل کے تمام ملازمین کو 75 سے ڈیڑھ سو فیصد تک بونسز دیے گئے۔

پی سی بی ملازمین کے ہاتھ کچھ نہ آیا،لیگ سے منسلک کئی آفیشلز خصوصاً ٹویٹر پر سوالات کے جواب دینے کے شوقین ایک صاحب کی تنخواہ کہاں سے کہاں پہنچ چکی مگرکوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اب چیئرمین بننے کی خواہش میں پی ایس ایل کمپنی کا معاملہ بھی نجم سیٹھی نے سست روی کا شکار کر دیا ہے،اگر وہ کسی وجہ سے یہ عہدہ نہ سنبھال سکے تو پلان بی کے طور پر کمپنی والا معاملہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے،پی سی بی کے حالات ابھی اچھے نہیں اور ایک گروپ مکمل طور پر حاوی ہو چکا،اس میں شامل بعض نااہل افراد بھی بڑی پوسٹس پر موجود اور تکبر بھرے انداز میں کہتے پھرتے ہیں ’’ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، اگر کرکٹ معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو ہمیں ابھی اندازہ نہیں کہ اس کا کتنا زیادہ نقصان ہو گا، میچ فکسنگ کا پینڈورا باکس تو کھل چکا، غیرملکی ٹیموں کے پاکستان آنے کے دعوے بھی کھوکھلے ثابت ہوئے۔

ٹیم کمزور حریفوں کو تو ہرا دیتی ہے مگر مشکل سائیڈزکیخلاف کارکردگی صفر ہوتی ہے، میں مخالفت برائے مخالفت نہیں کررہا مگر آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی بننے کے اہل ہیں؟ کیا موجودہ بورڈ میں اہل افراد شامل ہیں؟ کیا کرکٹنگ معاملات اچھے انداز میں چلائے جا رہے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا جواب ناں میں ہو گا، مگر افسوس حکمران کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی جاگیر سمجھ کر چلا رہے ہیں، جیسے ماضی میں بادشاہ سلامت خوش ہو کر کہتے تھے ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘ ویسا ہی اب بھی نظام رائج لگتا ہے،اپنوں کو نوازنے سے کرکٹ کا تیا پانچا ہوتا چلا جا رہا ہے اور فوری طور پر کوئی بہتری آتی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔