پاکستان کا خواب پریشان کیسے ہوگیا؟

رفیع الزمان زبیری  پير 14 جنوری 2013

روئیداد خاں اپنی یادوں پر مشتمل کتاب Pakistan A Dream gone sour میں جو 1997 میں چھپی اس بات پر افسوس ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان کو بنے پچاس سال ہوگئے لیکن ابھی تک ایک مستحکم سیاسی نظام کی تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی۔

وہ کہتے ہیں ’’14 اگست 1947 سے لے کر اب تک یہ عدم استحکام کا شکار ہی رہا۔ بار بار عسکری حکومت، پھر افراتفری پھر تقسیم و تفرقے کے پے درپے چکروں میں ہی پھنسا رہا۔ ملک کو جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ایک بدعنوان اور بددیانت حکومت جائے اور اس کی جگہ دوسری بدعنوان اوربد دیانت حکومت آجائے۔ ملک کو محض مصنوعی، جعلی تغیر کی ضرورت نہیں بلکہ ملک کو ایک ایسے مصفا آپریشن کی ضرورت ہے جو ملک کو تمام بدعنوان عناصر اور صاحب جاہ و ثروت لٹیروں سے نجات دلا کر اسے پاک و صاف کردے، پھر ایسی اساسی تبدیلیاں، بنیادی اصلاحات بروئے کار لائے اور ایسے اقدامات کرے جن سے جمہوری اداروں اور قانون کی بالادستی پر لوگوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوجائے۔

اگر یہ نہ ہو تو پاکستان بحران کے بعد بحران میں پے درپے پھنسا رہے گا، نہ اس کی کوئی سمت متعین ہوسکے گی اور نہ اس میں آنے والے بڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا عزم ہوگا اور نہ وسائل۔ ہماری پرآشوب سیاسی تاریخ سے جہاں اور سبق ملتے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے منتخب نمایندوں نے انھیں دھوکا دیا ہے، اس کے ساتھ غداری کی ہے تو پھر وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آتے ہیں اور ہنگامے فرو کرنے کے لیے فوجی جرنیل ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لیے بہ طور ثالث آخر سامنے آجاتے ہیں۔

تاریخ پاکستان میں یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جب بھی ملک میں مارشل لاء لگا ہے، لوگوں نے ہمیشہ کم ازکم شروع میں ضرور مارشل لاء کا خیر مقدم کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی تھی کہ لوگ بدعنوان، نااہل اور نامقبول حکومتوں سے سخت نالاں ہوچکے ہوتے تھے اس لیے ایسی حکومتوں سے نجات، چاہے ان کی جگہ مارشل لاء ہی کیوں نہ آجائے، انھیں بھلی لگتی تھی۔ ہم اپنی تاریخ کو ایک جملے میں بیان کرسکتے ہیں۔ ’’زینے اوپر چڑھتے ہوئے بھاری بھرکم بوٹوں کی آواز اور زینے سے نیچے اترتے ہوئے نرم و نازک ریشمی لباس کی سرسراہٹ۔‘‘

یہ سولہ سال پہلے کی لکھی ہوئی تحریر یوں لگتا ہے جیسے آج لکھی گئی ہے، دیکھیے ’’اگر ملک میں موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام قائم رہا تو اس میں قانون کی بالادستی کبھی قائم نہ ہوگی، آج پاکستان ایک ایسے ملک کا منظر پیش کرتا ہے جو سیاسی، نسلی اور فرقہ وارانہ خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ ملک کے مستقبل میں عوام کا اعتماد شاید ہی اتنا کم کبھی ہوا ہو جتنا کہ آج ہے۔ لوگوں میں بیزاری اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر بس ملک چلے جا رہا ہے بغیر اپنے مستقبل میں خود اعتمادی کے۔

ملک میں کوئی لیڈر اس قابل نظر نہیں آتا جو اسے اکیسویں صدی میں کامیابی اور سرخروئی کے ساتھ داخل ہونے کے لیے تیار کرسکے، جو اس کی رہنمائی کرسکے، بغیر موثر قیادت کے کسی کو نہ معلوم ہے اور نہ پرواہ کہ کدھر جارہا ہے۔ میرا ایک دوست کراچی میں رہتا ہے، اس نے مجھ سے کہا’’ میرا سامنا موت سے دن میں دو بار ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اس وقت جب میں اپنے فلیٹ سے باہر جاتا ہوں، دوسری مرتبہ اس وقت جب میں واپس آتا ہوں۔ بظاہر میں اپنے کاروبار میں مشغول رہتا ہوں۔ اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے۔ چاہے یہ دہشت گرد ہیں یا نہیں میرا تو یہی وطن ہے۔ میرے پاس کوئی فاضل فالتو وطن تو ہے نہیں۔ دل میں ہر وقت خوف وہراس رہتا ہے لیکن زندگی تو گزارنی ہی ہے۔‘‘

روئیداد خاں چالیس سال سے زیادہ عرصہ حکومتی عہدوں پر فائز رہے، بیشتر اعلیٰ عہدوں پر۔ اس زمانے میں ان کو ملک کی مقتدر شخصیتوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کے دوران بڑے نازک مرحلے بھی آئے اور سنگین بحران پیدا ہوئے۔ ان بحرانوں کو انھوں نے قریب سے دیکھا اور کچھ میں تو شریک بھی ہوئے۔ روئیداد کی یاد داشتوں کی کتاب میں ان واقعات کا ذکر ہے جو قومی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں اور جب قومی لیڈر اہم فیصلے کر رہے تھے تو وہ ان کے قریب تھے۔

روئیداد خاں کہتے ہیں کہ انھوں نے ان واقعات اور افراد پر کوئی فیصلہ صادر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ صرف اظہار خیال کیا ہے لیکن وہ ان فیصلوں میں کس حد تک شریک رہے اور ان واقعات پر کس طرح نظرانداز ہوئے، اس کا انھوں نے کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

روئیداد خاں کے بقول بنیادی طور پر ان کی کتاب پاکستان کے چھ سربراہان کی کہانی ہے۔ جن میں ایوب خاں سے لے کر فاروق لغاری تک صدور مملکت شامل ہیں۔ ان میں پانچ کے ساتھ انھوں نے کام بھی کیا۔ ان کی زیادہ قربت غلام اسحاق خاں سے رہی ہے جن کی صلاحیتوں کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ لغاری کے ساتھ انھوں نے کام نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’ان سب صدور کی اپنی اپنی منفرد شخصیت تھی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا کردار تھا، اپنا اپنا انداز تھا، لیکن جو قدر سب میں مشترک تھی وہ یہ تھی کہ ان سب نے پاکستانی قوم کو کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مایوس کیا۔

پاکستان کے خواب کو تعبیر سے دور کیا۔ عوام کو درد وکرب میں مبتلا کیا حتیٰ کہ انھیں لگا جیسے ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہو اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے حکمرانوں سے بلکہ اپنے ملک سے اپنے مستقبل سے یہاں تک کہ خود اپنے آپ سے بددل اور بے زار ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ان چھ صدور نے اپنے اپنے عہد صدارت کے بعد قوم کے لیے کیا ورثہ چھوڑا اور یہ کہ ان کی کارکردگی پر تاریخ کا فیصلہ کیا ہوگا۔ مجھے ونسٹن چرچل کے اس قول سے اتفاق ہے کہ کسی شخص پر تاریخ کے فیصلے کا انحصار اس کی کامیابی اور ناکامی پر نہیں بلکہ کامیابی اور ناکامی کے نتائج پر ہوتا ہے۔ میں نے اپنے ملک کے ماضی کے چند دھندلے گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور بس۔

’’میرے نزدیک بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کا خواب پریشان کیسے ہوگیا؟ ہم راستہ کہاں بھول گئے؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔