چھٹی ٹیم آزاد کشمیر!

ایاز خان  بدھ 29 مارچ 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پانامہ کیس کا فیصلہ آتا رہے گا۔ اس کا سب سے زیادہ انتظار عمران خان کو ہے۔ کپتان نے فی الوقت اپنی تمام سرگرمیاں اس ممکنہ فیصلے سے مشروط کر رکھی ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری البتہ غیر علانیہ انتخابی مہم پر نکل چکے ہیں۔ پنجاب کے ’’شیر ‘‘ کا فوکس سندھ پر ہے جب کہ سندھ کا ’’جیالا‘‘پنجاب کو مرکز نگاہ بنائے ہوئے ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا حلقہ چکری اس کا اگلا ٹارگٹ ہے۔

نثار نے ویلکم کیا ہے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی ہے کہ اس کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔ کپتان طے کر چکا ہے کہ اب جو بھی کرنا ہے سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد کرنا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم بھی سیاست کے میدان سے فی الحال کرکٹ کے گراؤنڈ کا رخ کریں۔ قومی کرکٹ ٹیم ان دنوں دورہ ویسٹ انڈیز پر ہے۔

پہلا ٹی ٹوئنٹی ہو چکا اور اس میں گرین شرٹس نے عالمی چیمپئن کو آسانی کے ساتھ ہرا دیا۔ اس جیت کا سہرا بلا شبہ شاداب خان کے سر ہے جنہوں نے اپنے  انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی کیریئر کا شاندار آغاز کیا۔ ساڑھے 18 سال کی عمر کے اس نوجوان نے اپنی لیگ بریک اور گگلی بولنگ سے ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ لائن تباہ کر کے رکھ دی۔ چار اوور کے سپیل میں صرف 7رنز دیے اور تین کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ چوتھی وکٹ کامران اکمل کی ’’مہربانی‘‘ سے ضایع ہو گئی۔ کامران وکٹوں کے پیچھے تو کیچ چھوڑنے میں ’’ماہر ‘‘ ہیں بطور فیلڈر بھی انھوں نے اپنی اس ’’مہارت‘‘کا خوب اظہار کیا۔

عمران خان کے آبائی شہر میانوالی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان بلا شبہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی دریافت ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے کھیلنے والا شاداب خان نیازی کرکٹ کے افق پر چمکنے والا وہ ستارہ ہے جو کافی عرصے تک جگمگ کرتا رہے گا۔ پاکستان سپر لیگ کے ابھی صرف دو ایڈیشن ہوئے ہیں اور ہمیں ٹیلنٹ ملنا شروع ہو گیا ہے۔ حسان خان، اسامہ میر، فخر زمان سمیت کئی نوجوان کرکٹرز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یوں لگتا تھا کہ پاکستان سے ٹیلنٹ ہی ختم ہو گیا ہے۔

پی ایس ایل سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اب نیا ٹیلنٹ سامنے آتا رہے گا اور قومی ٹیم مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی۔خطرہ صرف یہ ہے کہ ان میں سے کوئی باصلاحیت سپاٹ یا میچ فکسنگ کا شکار نہ ہو جائے۔محمد عرفان نے یہ قبول کر لیا ہے کہ بکیوں نے ان سے رابطہ کیا تھا اور وہ پی سی بی کو آگاہ نہیں کر سکے۔انھیںاس جرم کی سزا بھی دیدی گئی ہے۔ بھارت نے جب سے انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) ٹورنامنٹ شروع کیا ہے تب سے اس کی ٹیم کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بھارت نمبر ون ہے، ون ڈے میں چوتھے اور ٹی ٹوئنٹی میں دوسری پوزیشن پر ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے نئے ٹیلنٹ کا صحیح استعمال کیا تو جلد یا بدیر ہماری ٹیم بھی تینوں فارمیٹ کی رینکنگ میں اوپر جانا شروع ہو جائے گی۔

پی ایس ایل کے دو ایڈیشن ہو چکے اور اب تک صرف ایک فائنل پاکستان میں ہو سکا ہے۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ہمارے میدان ویران ہیں۔ زمبابوے کی ٹیم کا ایک دورہ اور پھر پی ایس ایل 2017ء کا قذافی اسٹیڈیم لاہور میں فائنل ہی دو ایسے مواقع ہیں جب یہاں رونق لگی۔ سخت ترین سیکیورٹی میں ہونے والے فائنل کے بعد اب امید پیدا ہوئی ہے کہ کرکٹ میں عالمی تنہائی ختم ہونے کا آغاز ہو جائے گا۔ زمبابوے کی ٹیم کے دورہ پاکستان کا امکان نظر آ رہا ہے۔ کسی غیر ملکی ٹیم کا ایک دورہ خیرو عافیت سے گزر گیا تو حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

غیر ملکی ٹیموں کے دورہ پاکستان سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ پی ایس ایل کا تیسرا ایڈیشن پورا کا پورا ملک کے اندر کھیلا جائے۔ ابتدائی طور پر کراچی اور لاہور میں میچ کرائے جا سکتے ہیں۔ ایک بار یہ ہو گیا تو پھر دیگر شہروں کے میدان بھی آباد ہو سکتے ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑی آنے پر تیار ہو گئے تو پھر دنیا کی کسی ٹیم کو پاکستان میں کھیلنے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ بھارت کا معاملہ البتہ الگ ہے۔ مودی حکومت کی خواہش اور کوشش ہو گی کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کسی صورت بحال نہ ہو۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایک بار پھر باہمی سیریز کا چکر دینے کی کوشش کی ہے لیکن ہنوز دلی دور است۔

پی ایس ایل کا تیسرا ایڈیشن پاکستان میں کرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے اس میں کچھ نیا شامل کیا جائے۔ پہلے دو ٹورنامنٹ 5ٹیموں کے ساتھ کرائے گئے۔ آیندہ ٹورنامنٹ میں چھٹی ٹیم کی شمولیت ضروری ہے۔ چھٹی ٹیم کو شامل کرنے سے میچز میں اضافہ ہو گا جو شائقین کے لیے زیادہ تفریح کا باعث بنے گا۔ اس وقت وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے نام پر ٹیمیں موجود ہیں۔ نئی ٹیم کے لیے آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان بچتے ہیں۔ نئی ٹیم کے لیے مظفر آباد‘ میر پور یا گلگت ٹائیگرز جیسا کوئی نام رکھا جا سکتا ہے۔ اے جے کے ٹائیگرز پر غور ہو سکتا ہے۔ خیر نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اصل کام یہ ہے کہ نئی ٹیم شامل کی جائے۔

یقین کریں پی سی بی نے اس تجویز پر عمل کیا تو یہ ٹیم عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ اس نئی ٹیم کو بیرون ملک بھی بہت پذیرائی ملے گی کیونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یورپ اور امریکا میں موجود ہے۔ ویسے تو ہم سیاست میں کھیل اور کھیل میں سیاست کے قائل ہیں لیکن اس اقدام سے اگر کھیل کے ساتھ ساتھ سیاسی فائدہ بھی ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ ہمارے خیال میں پی سی بی کو وزارت خارجہ کے بابوؤں کے بجائے وزیر اعظم کے سامنے یہ تجویز رکھنی چاہیے۔ ہمارے خیال میں انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ رہی بات عسکری قیادت کی تو اس کی ویسے ہی کشمیر کے ساتھ بڑی کمٹمنٹ ہے۔

نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ بظاہر ابھی اگلے پی ایس ایل میں کافی وقت پڑا ہے لیکن ہوم ورک ابھی سے کرنا ہو گا۔ تو آئیں فیصلہ کریں کہ پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم ہو گی آزاد کشمیر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔