کرپشن اورالیکشن

جاوید قاضی  بدھ 29 مارچ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یہ ہمارے مسلسل تیسرے جنرل الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ایک ایسی روایت جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ جمہوریت اپنی ارتقاء کی مسافتوں کی طرف گامزن ہے، مگرکرپشن ہے کہ جس کی جڑیں دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے شبِ خوں مارنے والوں نے اپنے ہدف کو پانے کے لیے کرپشن کو بہانہ بنایا۔ ہم بھی کرپشن پر چپ رہے کہ کہیں جمہوریت کے خلاف ہم استعمال نہ ہوجائیں58 2 -B کیا تھی؟اقرباء پروری اورکرپشن کو بہانا بنا کر عوام سے اْن کی چْنی ہوئی حکومت چھین لی، مگرکرپشن کو بہانا بنا کر شبِ خوں مارا نہیں جا سکتا۔ کہ یہ ہوں یا وہ ہوں یہ آگ دونوں طرف برابر ہے لگی ہوئی۔

ہم نے کبھی سوچا ہے ہمارے مجموعی ٹیکسز مشکل سے 10 % فیصد ہوں گے ہماری مجموعی پیداوارکے مقابلے میں جس کو Tax  to GDP Rate کہا جاتا ہے، دنیا کے چند بد ترین ممالک میں اِس حوالے سے ہمارا شمار ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ ہماری بلیک اکانومی بہت گہری اور وسیع ہے۔ وہ اتنا بڑا ادارہ بن چکی ہے کہ ہر طرف مافیا اور Cartel کام کررہے ہیں۔امیروں پر ٹیکس کوئی نہیں ہے اورغریبوں پر ٹیکس در ٹیکس ہیں۔ ملک کے سترفیصد لوگ صاف وصحت مند پانی کی نعمت سے محروم ہیں۔ ان کے بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، حفاظتی ٹیکے نہ غذا میسر ہے۔ بھلا کیا وجہ ہے کہ ’’سپریم کورٹ کو سندھ میں کرپشن نظر آتی ہے اور باقی جگہ نظر نہیںآتی‘‘ یہ بات اکثر پپلز پارٹی دہراتی ہے۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ سندھ میں چالیس سال سے لوگ پیپلزپارٹی کو جتواتے رہے ہیں، یہ حقیقت کا ایک پہلو ہے۔

اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سندھ میں 1947ء سے لے کر اب تک صرف وڈیرے ہی جیتتے آئے ہیں، آپ اِن کو وڈیرا نہ کہیے زمیندار شرفاء کہیے۔ پنجاب بدل گیا،خیبرپختونخوا بدل گیا وہاں اب چوہدری اورخان کا راج نہیں ہے، وہ اگرگیا نہیں ہے تو زوال پذیر ضرور ہے۔ سندھ میں ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ غیور بھٹوز اسی زمیندار شرفاء سے تھے جو سْولی چڑھ گئے۔ لوگوں کی آنکھوں میں اب بھی اشک بن کر رہتے ہیں۔ انھوں نے زمینداروں اور عام لوگوں کے سنگم کو چلایا۔لوگوں کی حالتِ زار تو نہ بدلی مگر جمہوریت جڑ پکڑگئی۔ یہ ان کا لہو ہے جمہوریت کی فصل لہلہاتی ہوئی ہری بھری ہرطرف اور ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ سندھ میں بنیادی طور پر وڈیروں کی جمہوریت ہے۔

یہ بِر لاء اور ٹاٹا والی جمہوریت نہیں ہے۔ نہ بِل گیٹس والی جمہوریت ہے۔ یہ ایک کلاس کی ، ایک سوچ کی،ایک طبقے کی جمہوریت ہے۔ بھٹوزکی وفات کے بعد یہ جمہوریت اور بے رحم ہے اور بے معنی اورفرسودہ ہے۔اس میں جمہوریت کا قصورنہیں،کلاس بدلے تو جمہوریت بدلے۔ ایک اسِی کلاس جس کا ترقی سے لوگوں کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ لوگوں کوکچھ بھی نہ دیں، تب بھی یہ لوگ اِنھیں کو ووٹ دیں گے۔ یہ دہقانوں کا سندھ ہے اِسے اگر اور بھی سلیس زبان میں کہا جائے تو یہ غلاموں کا سندھ ہے۔ وڈیرہ شاہی ٹوٹی پھوٹی نہیں اور جدید ہوگئی ہے۔

کل لاہور میں سردارآصف زرداری (جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے میں نے پشت درپشت زرداریوں میں کوئی سردار نہیں سْنا تھا۔) نے کہا پنجاب میں میاں صاحب Returning Officers کے بل بوتے پر دھاندلی کر کے جیتے تھے۔ تو میری ایک عرض ہے کیا سندھ کا وڈیرہ بغیر SHO کی طاقت کے سندھ کا الیکشن جیت سکتا ہے؟کچھ دن پہلے اے ڈی خواجہ اِسی بات کا تو رونا رو رہے تھے، وہ اگر Returning Officer کے بَل بوتے پر دھاوا بولتے ہیں تو یہ SHO کے بَل بوتے پر۔

دھاندلی کے کوئی سینگ نہیں ہوتے۔ یہ مسلسل اور تسلسل کے ساتھ ہے، جس کی کڑیاں پاکستان کی تاریخ میں موجود ہیں اور دیہی سندھ میں اتنی گہری اور شدید ہیں کہ برصغیر میں کوئی خِطہ نہ ہو گا جواس کا ثانی ہو۔

آج سندھ میں پانچ کروڑ سندھی آباد ہیں۔اس میں سے ایک کروڑ ہیپاٹائٹس کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک کمیشن بنایا تو پتہ چلا ایک بھی ایسا شہر نہیں جہاں پانی کو صاف کرنے کا کام ہوتا ہوا یعنی  Functional System ہو۔گٹروں کا گندا پانی دریا میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یوں کہیے کہ دنیا میں water born diseases کی سب سے بڑی آماجگاہ اگر پاکستان ہے تو پاکستان میں اس کی سب سے بڑی آماجگاہ سندھ ہے۔

ذرا لوٹ کھسوٹ کی اِس نئی واردات کو دیکھیے، انھوں نے ایک اسپیشل انیشیٹیو ڈپارٹمنٹ بنایا جس کو SID کہا جاتا ہے۔

105 ارب روپے اس ڈپارٹمنٹ کو دے دیے ترقیاتی کاموں کے لیے اوراس کو Rules of Business سے مستثنٰی قرار دے دیا۔ جس سے چاہے نوکری لیں، جتنے چاہیں پیسے نِکالیں جہاں چاہیں خرچ کریں۔

مطلب یہ ہے کہ شفافیت کی دھجیاں بکھیردیں۔ایسا ڈپارٹمنٹ نہ پنجاب میں بنایا گیا نہ خیبر پختونخوا میں نہ بلوچستان میں۔ یہ ان کی چوری کسی اور نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے پکڑی۔SID تحلیل ہوا،کراچی شہر وغیرہ کا کچرا اٹھانے کے لیے SSWB کا ڈیپارٹمنٹ بنایا گیااور ایک NSUSCکا ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا ۔ جوکام میونسپل نے کرنا تھا وہ کام سندھ حکومت نے اپنے سر لے لیا۔ لگ بھگ چالیس ہزار فی ٹرک کچرا وغیرہ اٹھانے کا ٹھیکہ چائنا کی ایک فرم کو دے دیا اور اْتنے ہی پیسے ٹاؤن کمیٹی، میونسپل وارڈ وغیرہ کو بھی دینے تھے کیونکہ وہاں انھوں نے کچرا اْٹھانے کے لیے عملہ بھرتی کیا تھا اور وہ فارغ بیٹھے رہے۔ یوں کہیے کہ اَسی ہزارفی ٹرک کچرا اٹھانے کا خرچہ تھا۔کراچی کی ہر سمت رستے اکھڑے ہوئے ہیں،گٹروں سے پانی اْبل رہا ہے،گندگی کے ڈھیرلگے ہوئے ہیں اور یہ ہیں کہ ’’جئے بھٹوجئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جیسے کہ ان کو فری لائسنس ملا ہوا ہو۔ہر چیز پر وہ بینظیر کا فوٹو لگا دیتے ہیں ایمبولینس ہو۔ شہر ہو یا یونیورسٹی ہو۔

یہ داستان اتنی لمبی ہے کہ اس ایک کالم میں سمائی نہیں جا سکتی آپ بھی یہیں میں بھی یہیں اگر اِن انتخابات میں نہ سہی پیپلز پارٹی کی یہ کارکردگی اگلے انتخابات تک ان کوماضی بنا دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔