کراچی میں زندگی آزار بن گئی

عبد الباسط  جمعرات 30 مارچ 2017
پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور جو موجود ہے، کی خستہ الت زار بھی شہریوں کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔  فوٹو : فائل

پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور جو موجود ہے، کی خستہ الت زار بھی شہریوں کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ فوٹو : فائل

کراچی میں اس وقت ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کے بیش تر علاقوں کی گلیوں، محلّوں، سڑکوں اور بازاروں میں کوڑا کرکٹ بکھرا پڑا ہے۔

محکمۂ بلدیات اور اس سے منسلک دوسرے ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور کچرا اٹھانے کا کام گزشتہ کئی برسوں سے بالکل ٹھپ ہوگیا ہے۔ اس کچرے کی وجہ سے جو اکثر جگہوں پر جلتا ہوا نظر آرہا ہے، سے فضا میں کثیف دھواں اور بدبُو پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوام اور خاص کر بچے، خواتین اور بزرگ شہری سانس کے مختلف مہلک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ کراچی میں پبلک ٹوائلیٹس جو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، کی حالت بھی دگرگوں ہے۔

پینے کے پانی کی کم یابی اور بعض علاقوں میں نایابی بھی شہریوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صاف اور منرل واٹر کے نام پر جگہ جگہ ناقص اور مضر صحت پانی کی فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔ ٹینکر مافیا بے لگام اور دھڑلے سے معصوم اور مجبور شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہے۔

زیر زمین سے پانی کے حصول کا دھندا بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ زیر زمین پانی کے استعمال سے جو بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں ان کا تذکرہ ذرایع ابلاغ میں اکثر دیکھا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جب کہ عدالت عظمی کا اس مسئلے پر انتہائی سخت ردعمل بھی آچکا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور ناکافی وسائل کی وجہ سے لوگ تنگ و تاریک گھروں میں رہتے ہیں۔ عوام کو بے روزگاری نے ہلکان کیا ہوا ہے۔ سیر و تفریح کے لیے بنائے گئے اکثر پارکس پر یا تو قبضہ کرلیا گیا ہے یا ان کی حالت اس قابل ہی نہیں رہی کہ انہیں سیر و تفریح کا مرکز سمجھا جائے۔ نوجوانوں اور بچوں کے کھیلنے کے میدان لینڈمافیا کی نذر ہوگئے یا انہیں اوباش اور نشئی افراد نے اپنا ٹھکانا بنالیا ہے۔

مسائل ہیں کہ حل ہونے کے بہ جائے روز بہ روز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور حکم ران اور ذمے دار ادارے اس کا الزام ایک دوسرے پر تھوپ کر خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے چکے ہیں۔ صحت کی سہولتیں یک سر ناپید ہیں اور سرکاری اسپتال انتظامیہ کی بے پروائی اور غیر انسانی ماحول کی وجہ سے بہ جائے مرکز شفا بننے کے بیماریوں کے پھیلاؤ کا مرکز بن چکے ہیں۔ ہر طرف ایک افراتفری ہے اور ہر شہری پریشان و ہلکان ہے۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا وہ کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا، ہمیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ہمیں بھی صحت و صفائی کے اصولوں کو اپنانا چاہیے، لیکن جب سوال کیا جائے کہ اس ماحول اور حالات میں جب ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں انتہائی بُری طرح سے ناکام ہوچکے ہوں، یہ سب کیسے ممکن ہے تو چپ سادھ لی جاتی ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہری اپنی ذمے داریاں بھی پوری نہیں کرتے۔ یقینا ہمیں ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے صحت و صفائی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بھی صحت مند افراد کا ملک کہلائے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ شہر میں سیکڑوں مسائل اپنا بھیانک منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والے مختلف مسائل گمبھیر صورت اختیار کرچکے ہیں۔

شہر کے مرکزی علاقے تو ان مسائل کا شکار ہیں ہی لیکن مضافاتی علاقوں کے عوام تو انتہائی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ اب لوگ قدرتی گیس کی کمی کا رونا بھی روتے ہیں، حالاں کہ ملک میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ملکی معیشت اور اقتصادی ترقی پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عوام کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور جو موجود ہے، کی خستہ حالت زار بھی شہریوں کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کے بلند بانگ دعوے حکم ران روز ہی شہریوں کے گوش گزار کرتے رہتے ہیں۔ گرین لائن اور اورنج لائن کے منصوبے کب پایۂ تکمیل کو پہنچیں گے، شہری اس وقت کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر پورا شہر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر سڑک ٹریفک جام کا منظر پیش کرتی اور شہریوں کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔

ملیر پندرہ کا فلائی اوور چار سال سے زیر تعمیر ہے اور اب بھی دور دور تک اس کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ سے ملیر کے عوام کا جینا تو دوبھر ہو ہی گیا ہے، رہی سہی کسر نیشنل ہائی وے پر آنے والی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ٹریفک جام نے پوری کردی ہے ، جو گھنٹوں پھنسی رہتی اور آس پاس کے علاقوں میں فضائی آلودگی اور شور و غل کے ساتھ بدترین حادثات کا سبب بھی ہے۔

اس فلائی اوور کی جلد تکمیل کے لیے ملیر کے عوام نے بارہا مظاہرے کیے ہیں اور اب بھی سیاسی و سماجی تنظیموں کے بینرز آویزاں ہیں کہ اس فلائی اوور کو جلد مکمل کیا جائے۔ عوامی فریاد کب حکم رانوں کے درباروں میں سنی جائے گی اس کے لیے بھی حسب روایت انتظار ہی کیا جاسکتا ہے۔

تعلم جو پہلے ایک مقدس ذمے داری سمجھی جاتی تھی، اب منافع بخش کاروبار میں بدل گئی ہے۔ ہر جگہ چھوٹے چھوٹے مکانوں میں مشروم کی طرح سے اُگ آنے والے نام نہاد تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کی صورت حال سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن ان تعلیمی اداروں میں سب سے تشویش ناک پہلو خواتین اساتذہ کا استحصال ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کی حالت زار انتہائی ناگفتہ بہ اور انتہائی قلیل معاوضے کے ساتھ ان کا استحصال جاری ہے۔ لیکن متعلقہ محکمے خاموش ہیں۔

تجاوزات کا مسئلہ بھی کراچی کا اہم مسئلہ ہے۔ تجاوزات کے خلاف آئے دن آپریشن کا تذکرہ ہم سنتے رہتے ہیں لیکن ’’ مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق یہ تجاوزات ختم ہونے کے بہ جائے بڑھتی ہی رہتی ہیں۔ کوئی ایک مسئلہ ہو تو دہائی دی جائے، یہاں جینا ہی ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔ شہریوں کا ایک مرتبہ پھر انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ تجاوزات کے خاتمے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو مکمل اور جلد فعال کیا جائے۔

شہریوں کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے اور ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں۔ ہمیں بھی اس شہر عظیم کو اپنا شہر سمجھنا چاہیے اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنے محلے اور گلیوں کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گندگی اور بیماریوں سے پاک معاشرہ ہر ایک شہری کا خواب ہے اس کی عملی تعبیر کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری اور ادارہ اپنا کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔