مذہب کی بے حرمتی بھی دہشت گردی ہے

شبیر احمد ارمان  جمعـء 31 مارچ 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیس بک پرگستاخانہ موادکیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں ہوئی۔ سیکریٹری داخلہ نے  عدالت کو بتایاکہ سوشل میڈیا پرگستاخانہ موادکی تشہیر کرنے والے تین ملزمان گرفتارکیے جاچکے ہیں، جب کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ وزیرداخلہ نے27 مسلم ممالک کے سفیروں کے سامنے معاملہ رکھا جس میں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فیس بک پرگستاخانہ موادکی تشہیر سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچی، فیس بک سے 85 فیصدگستاخانہ مواد ہٹادیا گیا ہے اورجو پندرہ  فیصد باقی رہ گیا ہے اسے بھی جلد ختم کردیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اسلامی ممالک کے سفیروں کا اجلاس بلانا خوش آیند ہے لیکن جس ملک میں یہ کام ہوا اس کے سفیر کو بلانے کی کسی میں ہمت نہیں۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیے کہ وہ ادارہ بھی کام کررہا ہے جس پر خوامخواہ سب اعتراض کرتے ہیں ۔آپ  نے لالٹین کا دبائو لینا ہے نہ موم بتی کا،القاعدہ کا ملزم ہو تو وہ واشنگٹن سے آپریٹ کرکے مار دیتے ہیں، اگر پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر جنگ شروع کردیں تو اس وقت کیا کریں گے۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیے کہ تمام ادارے اپنا کام کررہے ہیں،عدالت کارروائی سے مطمئن  ہے، تفتیش میں مداخلت نہیں کریں گے ۔عدالت نے کیس 31 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کی زیرصدارت مسلم ممالک کے سفیروں کا اجلاس  اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں سیکریٹری خارجہ ، سیکریٹری داخلہ اور دیگر اعلیٰ حکام سمیت 25مسلم ممالک کے سفیروں نے شرکت کی تھی۔ اجلاس کے شرکا ء نے ناموس رسالتﷺ  اوراسلام کی توقیرکی حفاظت پر اتفاق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد سے متعلق مسلم ممالک کے سفیروں کی آراء پر مشتمل لائحہ عمل تیارکیا ہے اورسیکریٹری جنرل عرب لیگ، اوآئی سی کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔اس موقعے پر چوہدری نثارعلی کا یہ کہنا بجا تھا کہ ایک طرف مذہبی بے حرمتی سے بچنے کے لیے قانون سازی ہوتی ہے تودوسری طرف اسلام کی مقدس ہستیوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔

مذہب  اورمقدس ہستیوں کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے، دنیاکا کوئی قانون کسی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور دنیا تسلیم کرے کہ مذہب کی بے حرمتی بھی دہشت گردی ہے، بدقسمتی سے سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکارمسلمان ہی ہیں اورانھیں ہی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے، دنیا کواسلام فوبیا سے نکالنے کے لیے مسلم امہ مل کرکام کرے جب کہ مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں سے متعلق دہرا معیار نہ اپنائے۔اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شایع کرنے والے پیجزکی بندش اور انھیں چلانے والے افراد کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ سارا گستاخانہ مواد وزیراعظم کو بھجوایا جائے اوراسے اعلیٰ سطح پردیکھا جائے، سوشل میڈیا سے توہین آمیزمواد ہٹانے کے لیے وزیراعظم کو بھی بلانا پڑا تو بلائیں گے۔

اس کے بعد کی سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد کے کیس میں قرار دیا کہ آیا سوشل میڈیا کو پاکستان میں بند کرنا ہے یا نہیں ، حکومت کو ریفرنڈم کا حکم دے سکتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو سوشل میڈیا چاہیے یا ناموس رسالت ﷺ ؟، پھر جسے غلط فہمی ہے وہ دور ہوجائے گی ۔  پہلے 9مارچ کو میڈیا میں رپورٹ آئی کہ اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں ایس ایچ او ارشاد ابڑوکی مدعیت میں نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں توہین رسالتﷺ  کی دفعات شامل کی گئی ہے ۔ میڈیا کے مطابق ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے پیجزچلائے جارہے ہیں جن پر رسول اللہ  ﷺ  کی شان میں گستاخی کی گئی اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ۔

23مارچ کی میڈیا رپورٹ کے مطابق گستاخانہ مواد کے خلاف کیس میں ایف آئی اے کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کردہ ایف آئی آر میں حیران کن طور پر فیس بک کے گستاخی میں ملوث 2پیجز  کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ کچھ عرصہ قبل جب بلاگرز گم ہوئے تھے تو 3پیجز کا نام لیا جارہا تھا جن میں ایک کے ساتھ ساتھ باقی 2پیجز پربھی گستاخانہ مواد اپ لوڈ ہونے کا کہا گیا لیکن ایف آئی اے نے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ایک انکوائری کے بعد مقدمے کا اندراج کیا گیا ۔ ایف آئی آر 19مارچ کو درج کی گئی ۔ایف آئی آر میں گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے والوں میں نمایاں طورپر سامنے آنے والے پیجز  کے نام شامل ہیں لیکن بعض پیجز  کو مقدمے میں شامل نہیں کیا گیا۔اس کی وجوہ کے بارے میں علم نہیں ہوسکا۔اب تک گستاخانہ مواد کے تین ملزمان کا ایف آئی اے کو سات روزہ ریمانڈ کی عدالتی منظوری ملی ہے، ملزمان سے برآمد ہونے والے کمپیوٹر فارنسک تجزیے کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔

فیس بک کی ٹرانسپیرینسی رپورٹ  کے مطابق فیس بک کوپاکستانی حکام کی جانب سے 2016ء کے چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ پندرہ اکاونٹس بندکرنے کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 65فیصد پر عمل درآمد کیا گیا جب کہ ٹویٹرکی جاری کردہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق ٹویٹر انتظامیہ کو پاکستان سے 19اکائونٹ بند کرنے کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے کوئی اکاونٹ بند نہیں کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اکائونٹس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے کر ہی اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی شان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسی رفعتیں اورایسی بلندیاں عطا فرمادی ہیں کہ آپ ﷺ کی عظمت کا سورج ہمیشہ کے لیے نصف النہارہوگیا،ان بلندیوں تک پہنچنا تو دورکی بات، ان کی حقیقت کی معرفت بھی انسانی دسترس سے باہر ہے ۔ جہاں آپ کی شان اقدس کو اوج ثریا پر پہنچایا گیا، وہیں اس شان وعظمت کی حفاظت کا ایسا بندوبست فرمایا گیا کہ جس بدبخت نے جب بھی اس کی طرف اپنا ناپاک ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی، قدرت نے اس کوقیامت تک کے لیے رسوائے زمانہ بناکر نشان عبرت بنادیا ۔تاریخ اسلام میں ان بد بختوں کا ذکر تفصیل سے موجود ہے  اور شہدائے  ناموس ﷺ بھی تاریخ اسلام میں زندہ جاوید ہیں ۔

خود نبیﷺ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ایذا پہنچانے والوں سے کیا سلوک کیا، صحابہ کرام نے توہین رسالت پرکیا رویہ اختیار کیا ، تابعین اورآئمہ نے کیا ردعمل ظاہرکیا اورگستاخ رسول سے کیا سلوک کیا، فقہاء نے گستاخوں کے لیے کیا احکامات دیے،اس بارے میں ائمہ سلف کے فتاویٰ بھی پڑھے، پھر فیصلہ فرمائیں کہ ان حالات میں آج  عا لم اسلام کی کیا ذمے داری ہے۔ یہودونصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے ہیں ۔کبھی یہودی عورتوں نے آپ ﷺ کو برا بھلا کہا،کبھی کافر مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ،کبھی آپ ﷺ کی ہجو میں اشعارپڑھے اورکبھی نازیبا کلمات کہے۔

( اس زمانے میں شاعری کا دور دورہ تھا کسی کی ہجو کے لیے قصیدہ کہا جاتا تھا،آج کافروں نے توہین کا انداز بدل دیا ہے اورفلموں وکارٹونوں اورنام نہاد اظہار آزادی  کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ہے )  بہت سے ممالک نے مختلف مذاہب ہی نہیں بہت سے سیاسی واقعات تضحیک کو بھی بہ ذر یعہ قانون شجرممنوعہ قرار دے رکھا ہے، مگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح ہونے سے روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی، الٹا اس طرح کے اقدامات کو ڈنکے کی چوٹ پرانسانی حقوق کے خانے میں ڈالاجاتا ہے اورآزادی اظہار کا راگ الاپا جاتا ہے ، جوعذرگناہ بد ترگنا ہ کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مہذب دنیا بے لگام اظہارآزادی کو لگام دے  اوردنیا تسلیم کرے کہ مذہب کی بے حرمتی بھی دہشت گردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔