Pakistan: A Dream Gone Sour

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 30 مارچ 2017

14 اپریل 1948 کو قائد اعظم نے گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں اعلیٰ سرکاری افسروں سے خطاب کیا اورکہا ’’پہلی بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ پر ناجائزدباؤ چاہے کوئی سیاسی پارٹی ڈالے یا سیاست داں آپ اس کو ہرگز قبول نہ کریں۔ آپ اگر پاکستان کا وقار اور پاکستان کی عظمت قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پاکستان کے عوام، پاکستان کی سیاست کی خدمت بے باکی اور بے خوفی سے کرنا ہوگی۔ سرکاری ملازم مملکت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ وزرائے اعظم اور وزرا آتے جاتے رہتے ہیں لیکن آپ قائم رہتے ہیں۔ اس لیے آپ کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمے داری ہے آپ کو اس سیاسی پارٹی یا اُس سیاسی پارٹی،اس سیاست داں یا اُس سیاستداں کی حمایت یا مخالفت میں فریق بننے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جو حکومت بھی آئین پاکستان کے مطابق قائم ہو اس کی خدمت نہ صرف وفاداری اورایمان داری سے کریں بلکہ غیر جانبداری اور بے باکی سے کریں۔‘‘

دوسری بات جو قائداعظم نے کہی اس کے مخاطب سیاست داں تھے۔ قائد اعظم نے کہا ’’میں اپنے لیڈروں اور سیاستدانوں سے یہ بات زور دے کرکہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ سرکاری اہل کاروں پر ناجائز سیاسی دباؤ ڈالیں گے،ان کے کام میں سیاسی مداخلت کریں گے تو وہ پاکستان کی خدمت نہیں کریں گے بلکہ پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے کیونکہ ناجائزسیاسی دباؤ اورناجائز سیاسی مداخلت کا نتیجہ ہمیشہ بدعنوانی، رشوت ستانی اوراقربا پروری کی شکل میں نکلتا ہے۔‘‘

قائد اعظم کی اس تقریرکا ذکرکرتے ہوئے پاکستان کے ایک سابق اعلیٰ افسر روئیداد خان اپنی یادوں کی کتاب Pakistan: A Dream Gone Sour میں لکھتے ہیں ’’جناح صاحب کے ان فرمودات کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ہے۔ پہلے بھی اور اب بھی ہر حکومت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عوام اس تقریر کے مندرجات سے بے خبر رہیں۔‘‘

روئیداد خان 1949 میں سول سروس آف پاکستان میں شامل ہوئے اور دوران ملازمت متعدد نہایت اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، وہ چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری جنرل وزارت داخلہ، وفاقی وزیر برائے احتساب اور وزیر اعظم کے مشیر رہے، اپنی کتاب میں انھوں نے پاکستان کے چھ صدور کے بارے میں اپنی یادیں اور مشاہدات بیان کیے ہیں۔ ان میں سے پانچ کے ساتھ انھیں کام کرنے کا ذاتی تجربہ ہوا۔

وہ لکھتے ہیں ’’بنیادی طور پر میری یہ کتاب پاکستان کے چھ صدورکی کہانی ہے جو 1958 کے بعد سے ملک میں برسر اقتدار رہے، یعنی فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، غلام اسحاق خاں اور سردار فاروق احمد لغاری۔ ان سب صدورکی اپنی اپنی منفرد شخصیت تھی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا کردار تھا لیکن جو قدر سب میں مشترک تھی وہ یہ تھی کہ ان سب نے پاکستانی قوم کو کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مایوس کیا۔ پاکستان کے خواب کو تعبیر سے دور کیا، عامۃ الناس کو درد وکرب میں مبتلا کیا حتیٰ کہ انھیں یہ لگا جیسے ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے حکمرانوں سے بلکہ اپنے ملک سے اپنے مستقبل سے حتیٰ کہ اپنے آپ سے بد دل اور بیزار ہوگئے۔‘‘

1951 میں روئیداد خان کی خدمات صوبہ سرحد کی حکومت کے سپرد ہوئیں۔ اس وقت خان عبدالقیوم خان صوبے کے حاکم  تھے روئیداد خان نے یہ دیکھا کہ اکثر اعلیٰ سرکاری افسر خان صاحب کی خوشنودی کی خاطر انتخابات میں دھاندلی کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں اس پورے منظرکو نفرت اور بیزاری سے دیکھتا رہتا۔ شاید یہی ابتدا تھی اس عمل کی جس میں سرکاری افسر حکومت وقت کی خوشنودی اور ذاتی منفعت کی خاطر غیر جانبداری اور ایمانداری کی بجائے سیاست میں ملوث ہوتے چلے گئے۔‘‘

اپنی طویل سرکاری ملازمت کے دوران روئیداد خان نے پاکستان کے حکمرانوں کا جو کردار اور عمل دیکھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’ایوب خاں کی فراست اوسط درجہ کی تھی۔ دولت کے حریص تھے لیکن بد دیانت نہیں تھے۔ وہ بنیادی طور پرخوش خلق تھے، رحم دل، شریف النفس تھے۔ اپنے بعد کے آنے والے صدور کے مقابلے میں بلند قامت اوراپنے چھوٹے موٹے نقائص کے باوجود سب سے افضل تھے۔ یحییٰ خان اچھے انسان ضرور تھے، اچھے صدر شائد ہی ہوں۔ ان کی شفافیت ان کے کردار کی نمایاں صفت تھی۔

وہ نقاب پوش نہیں تھے، وہ جو تھے نظر آتے تھے۔ مالی معاملات میں نہایت دیانتدار تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی نمایاں صفت ان کی جرأت تھی۔ وہ ایوان صدر تک پہنچنے والے سب سے زیادہ ذہین، باصلاحیت، قادر الکلام اور رنگین مزاج صدر تھے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا سرچشمہ ایک تھا بلکہ ان کی خوبیاں ہی ان کی خامیاں تھیں۔ جنرل ضیا الحق کی نمایاں خوبی ان کی انکساری اور رحم دلی تھی۔ جرأت اور شرافت کی خوبیاں ایوان صدر میں پہنچنے سے پہلے بھی ان کے کردار کا جزو تھیں۔ غلام اسحاق خان بے حد و حساب محنتی تھے۔ ان کی ایمان داری اور دیانت داری شک و شبے سے پاک تھی۔ غلام اسحاق خان پاکستانی صدور میں سب سے زیادہ خود اعتماد اورآزاد منش صدر تھے۔‘‘

روئیداد خان نے اپنی کتاب میں جو اب سے تقریباً دو دہائیاں پہلے چھپی ہے اس وقت کے سیاسی حالات اور بیورو کریسی کے کردار کا ذکر یوں کیا ہے۔ ’’آج پاکستان اپنے لمحہ حق سے دوچار ہے ۔ لوگوں کا اعتماد ملک کے مستقبل اوراس کے سیاسی اداروں پر سے اٹھ گیا ہے۔ بظاہر ہمارے ہاں نمایندہ جمہوریت ہے، اسمبلیاں ہیں، سیاسی جماعتیں ہیں، آزاد پریس ہے اور جمہوریت کی دیگر علامات ہیں لیکن اصل صورت یہ ہے کہ پارلیمانی رکنیت کا مطلب مادی کامیابی اور لوٹ کھسوٹ کا پاسپورٹ اور لائسنس ہے۔ کیا عجب کہ پارلیمنٹ کبھی انتظامیہ کی مطلق العنانی کو نہیں روک سکی۔ ہم پوری دنیا میں نائیجیریا کے بعد سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہیں۔

دوسرے ممالک میں بعض لوگ اپنے اصولوں کی خاطر اپنی پارٹی بدل لیتے ہیں، بعض دوسرے لوگ پارٹی کی خاطر اپنے اصول بدل لیتے ہیں۔ یہاں سب اپنی پارٹی اور اپنے اصول (اگر کسی کے اصول ہوں) ذاتی منفعت کی خاطر بدلتے ہیں۔ لوگ اسے ’’لوٹا کریسی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا نظریہ معدوم ہوگیا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کسی فرد کے کسی عمل کا احتساب ملک میں کوئی نہیں کرسکتا چاہے وہ عمل کتنا ہی خلاف قانون اور غیر ذمے دارانہ کیوں نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل کم نصیب، کمزور اور بے سہارا لوگوں کو تو سزا دے سکتا ہے، دولت مند، طاقتور اور بااثر لوگوں کو سزا دینا تو درکنار ان سے پوچھ بھی نہیں سکتا۔‘‘

بیوروکریسی کا کیا حال ہے اس کا ذکرکرتے ہوئے روئیداد خان لکھتے ہیں ’’چند کو چھوڑ کر باقی اکثر وبیشتر سرکاری اہلکاروں نے سیاستدانوں سے ملی بھگت کرلی ہے۔ چنانچہ اب سیاستدان اور سرکاری اہلکار دونوں عوام دشمن جرائم میں ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے ہیں اور دونوں مل کر دن دہاڑے نہایت دیدہ دلیری اور بے حیائی سے لوٹ مار مچاتے ہیں۔ انھیں قطعاً اس کا ڈر نہیں کہ ان کا احتساب بھی ہوسکتا ہے۔ ان سے باز پرس بھی ہوسکتی ہے۔ ہر شخص پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کا جنون سوار ہوچکا ہے۔ چاہے دولت جمع کرنے میں کتنے ہی اور کیسے ہی ناجائز اور بددیانت طریقے استعمال کیوں نہ کرنے پڑیں۔ لوگوں کو ان کی اہلیت، قابلیت، دیانت اور امانت پر اعتماد نہیں رہا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔‘‘

بتائیے اب ایسے سیاستدان اور ایسی سرکاری مشینری بانی پاکستان کے خواب کو کیا خاک شرمندہ تعبیر کرے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔