روشن پاکستان کیلئے اپنا کردار نبھائیے!

روما رضوی  پير 3 اپريل 2017
اِن نونہالوں کے حالات سدھارنے کے لئے انہیں اپنا بچہ، اپنا مستقبل سمجھنا پڑے گا۔ اگر ایک بار ایسا ہوجائے تو پھر یقین کیجئے روشن پاکستان ہماری نظروں کے سامنے ہوگا۔

اِن نونہالوں کے حالات سدھارنے کے لئے انہیں اپنا بچہ، اپنا مستقبل سمجھنا پڑے گا۔ اگر ایک بار ایسا ہوجائے تو پھر یقین کیجئے روشن پاکستان ہماری نظروں کے سامنے ہوگا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال یہ شعر حقیقاً مجسم ہوکر کبھی آنکھوں کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں، اُن میں ایسے معصوم محنت کش بھی شامل ہیں، جن کے ننھے ہاتھ اُن کی مشقت و حلال کی کمائی گئی روزی کے گواہ ہوتے ہیں۔
وہ کس قدر محنت سے خود کو منوا رہے ہیں، میری نگاہیں عقیدت و محبت سے جُھک جاتی ہیں، زیرِ لب دعاؤں میں تیزی آجاتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ اُن کے دھوپ میں جلتے سروں پر سایہ بن جاؤں۔ کل جب اسکول کا نتیجہ نکلا تو مائیں بھی موجود تھیں، عُمر کی ماں جو خود بھی تیس سال سے زائد نہ ہوگی فخر سے کہنے لگی،
’’باجی یہ تو اول آجاتا لیکن کچھ میں بھی کام میں مصروف رہتی ہوں اور یہ اسکول کی چھٹی کے بعد مزدوری پر جاتا ہے، اِس لئے جماعت کے سب بچوں میں دوسرے نمبر پر رہا‘‘
عمر کا تعلق ایسے ہی طبقے سے ہے جس کا ہر فرد مزدور ہے۔ ماں باپ، بھائی بہن سب کسی نا کسی کام پر معمور ہیں۔ صبح کی نکلی ماں شام تک گھر آتی ہے، ایسے میں یہ بچے بھی صُبح ماں کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں، باقی اِن کے دیگر اخراجات اور کتابوں اور یونیفارم کا خرچہ اِنہی کیلئے قائم کردہ اسکول یعنی ’’ڈور آف اووئیرنس سینٹر‘‘ نمبر چار کوٹ لکھپت نے بانٹ لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ 15 مزید اسکول ایسے ہی بچوں کیلئے قائم کر دئیے جہاں پروفیسرز، وکلاء اور ملازمت سے ریٹائرڈ افراد کے علاوہ نوجوان بھی رضا کارانہ طور پر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
 بچے ہر اتوار صبح سے شام تک مزدوری کرتے ہیں، اتوار بازار میں جب منڈیوں سے سامان لایا جاتا ہے، اُس سے پہلے ہی یہ سروں پر چھابے اٹھائے قطاروں کی صورت میں پُکارے جانے کے منتظر ہوتے ہیں۔
باری آنے پر اپنے سے بھاری سامان کو سنبھالتے اسٹالوں تک پہنچاتے ہیں پھر شام تک جتنے بھی خریدار آتے ہیں اُن کے ساتھ سروں پر سامان اٹھائے اُن کی گاڑیوں تک انہیں رخصت کرتے ہیں۔ مہذب طریقے سے سلام چہرے پر معصوم مسکراہٹ ہر صاحبِ دل کو اُن کا گرویدہ کردیتی ہے، اور اگر کبھی کوئی سخت مزاج گاہک ٹکرا جائے تو اُن کا خود پر قابو رکھنا قابلِ تعریف ہوتا ہے۔
عمر کے والد بھی مزدور ہیں، شاید چھ افراد کے اِس خاندان کی تنہا ضروریات پوری کرنا اِن کے بس میں نہ تھا، یہ اب تک صرف پاکستان میں ہی رواج ہے کہ ایک کمائے اور سب بیٹھ کر تنگی ترشی پر تنقید کریں۔ ہم میں کچھ بہتر گھرانوں میں رویہ کچھ یوں ہے کہ اِن غریب اور نظر انداز کئے جانے والے علاقے کے بچوں کو جھڑک کر یا کچھ روپے دے کر اپنی ذمہ داری سے فراغت پا جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ گھر کو صاف کیا جائے اور گھر کے باہر غلاظت کے ڈھیر علاقے میں تعفن کے لئے چھوڑ دئیے جائیں۔
اِن بچوں کے لئے کچھ مثبت سرگرمیاں بھی تو پیدا کی جاسکتی ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ بچوں کی مزدوری قانونی طور پر جرم ہے، بعض اوقات عام مزدور کی نسبت لوگ اِن کو مزدوری کی شکل میں کم رقم دیتے ہیں لیکن اِن کے حوصلے اور ضروریات ایسی ہیں کہ اِن کو مزدوری اور انعام بھی دینے کو دل چاہتا ہے۔
یہ بچے صبح سے شام تک ایک ہزار روپے کما لیتے ہیں، روشن آنکھیں صاف ستھرے مسکراتے چہرے اور مضبوط عزم  و ارادے رکھنے والے ہمارے اسکول کے یہ مزدور طالبعلم اسکول کے اچھے مقرر، اداکار اور فعال افراد ہیں۔ بڑے ہو کر فوج میں جانا چاہتے ہیں اور میری بھی دعا ہے کہ جو خواب وہ دیکھتے ہیں ضرور پورے ہوں۔ عمر اور عمیر کی طرح، جانے کتنے ہی بچے اِس وقت سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ اِن کے والدین کم علمی کے باعث اُن کے مستقبل سدھارنے سے قاصر ہیں لیکن ذرا سوچئے! کیا میں اپنے بچوں کی بیس ہزار فیس دیتے وقت چند سو روپے ایک بچے کی تعلیم و تربیت پر نہیں خرچ کرسکتی؟
 جب خود مجھے اپنی معاشرتی ذمہ داری کا احساس نہیں تو میرا معاشرے کے دوسرے افراد سے شکوہ کرنا ہرگز نہیں بنتا۔ اِن کے ذہن معصوم ہیں لیکن اِن سے عدم توجہی اِن کی محرومی میں اضافے کا سبب بنے گی جس کے سب یہ عین ممکن ہے کہ یہ بچے غلط طریقے سے ضروریات پوری کرنے کی کوشش شروع کردیں۔ ضروریات اور خواہشات تو اِن کی بھی دیگر بچوں جیسی ہی ہیں۔ اِن کے حالات سدھارنے کے لئے انہیں اپنا بچہ، اپنا مستقبل سمجھنا پڑے گا۔ اگر ایک بار ایسا ہوجائے تو پھر یقین کیجئے روشن پاکستان ہماری
نظروں کے سامنے ہوگا۔
کسی فلسفی نے کیا خوب کہا تھا کہ،
کسی پختہ شخصیت کی اصلاح کی دقت سے بہتر ہے کہ معصوم ذہن اور کم عمر بچے کی بہترین تربیت کی جائے۔
 خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات اسی لئے کہا کہ وہ احساس رکھتا ہے، رب کی ہر صفت کا وارث اِس دنیا میں رب کا موجودہ نائب، اتنے القاب و اختیارات کے بعد ہماری ذمہ داری بھی تمام مخلوقات عالم کی نسبت دوہری ہیں، اور جب یہ سوچ بیدار ہوجائے گی، تو ان شاء اللہ وہی دن عمل کا پہلا دن ہوگا۔
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر یہی اختیار کا موسم
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
روما رضوی

روما رضوی

بلاگر ایک این جی او سے وابستہ ہیں، جس کا مقصد محنت کش بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہے ، اسِ کے علاوہ فوٹو گرافی سے رغبت رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔