جہاں آہیں اگتی ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 31 مارچ 2017

قدیم وینس (اٹلی) میں ایک ڈھکا ہوا پل تھا، جو Dges پیلس کو ریاستی جیل کے ساتھ ملاتا تھا، اسے ’’آہوں کا پل‘‘ کہتے تھے، اس کی وجہ تسمیہ قیدیوں کی وہ آہیں تھیں جو انھیں محل سے جیل میں لے جاتے وقت سنائی دیتی تھیں۔ یہ پل آج بھی موجود ہے لیکن اب وہاں آہیں نہیں بلکہ قہقہے مسکراتے ہیں، جب کہ دوسری طرف آج پورا پاکستان آہوں کی زمین بن چکا ہے، جہاں کچھ بھی بوئیں لیکن اگتی آہیں ہی ہیں۔ آپ چاہیں تو اس زمین کی کسی بھی بستی، قصبے، گاؤں، شہر میں گھوم لیں، کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہوجائیں، آپ کو بس ہر طرف سے آہوں کا شور ہی سننے کو ملے گا۔

وینس میں تو آہوں کا صرف ایک پل تھا، ہمارے ہاں ہر راستہ ہر پل آہوں کا راستہ اور پل ہے، جہاں انسان آہستہ آہستہ گھل اور پگھل رہے ہیں، بغیر چیخے اور چلائے، بغیر روئے اور سسکے، بغیر جرم اور بغیر گناہ کے بس گھلے اور پگھلے جارہے ہیں۔ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ان کا جرم اور قصور کیا ہے؟ انھیں کس بات پر سزا دی جارہی ہے۔

آہوں کی اس زمین پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین کا اور بھی ہے، لیکن اس ٹکڑے میں آہیں نہیں قہقہے گونجتے ہیں، جہاں لوگ بات بے بات پر ہنستے ہیں، جہاں دن رات چراغاں ہوتا ہے، جہاں خوشیاں ہی خو شیاں ہیں، جہاں عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں، اس چھوٹے سے ٹکڑے پر پاکستان کی اشرافیہ رہتی ہے، جو بیس کروڑ گھلتے پگھلتے انسانوں کے مالک ہیں۔ ان بیس کروڑ انسانوں کی مجال تک نہیں ہے کہ وہ زمین پر اس جنت میں جھانک بھی سکیں، کیونکہ وہاں بسنے والوں کی نظر میں یہ بیس کروڑ انسان ہی نہیں ہیں، زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کا جنت میں کیا کام۔ یہ اشرافیہ جتنے روپے پیسے، جاگیریں، ملیں، زمینیں، ہیرے جواہرات، محل جمع کرتی جارہی ہے، اتنی ہی اور گداگر ہوتی جارہی ہے۔ یہ جتنا جمع کرتی ہے اس کی بھوک اتنی اور بڑھ جاتی ہے۔

مورخین نے بیسویں صدی کی نویں دہائی کو ’’لالچ کی دہائی‘‘ قرار دیا تھا، اس دور میں دولت کے ایک پجاری نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’لالچ اچھا ہے‘‘۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جس شخص نے یہ بیان دیا تھا چند ماہ بعد وہ کسی جرم میں عدالت کے کٹہر ے میں کھڑا تھا۔ سوئیڈش ضرب المثل ہے کہ ہم بوڑھے جلد ہوجاتے ہیں، جب کہ ذہین دیر سے ہوتے ہیں۔ لیکن کریں تو کریں کیا، ہماری اشرافیہ بوڑھی ضرور ہورہی ہے لیکن ذہین نہیں ہورہی ہے۔ وہ آج بھی ’’لالچ اچھا ہے‘‘ کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ حالانکہ دنیا بھر کو ٹھوکریں کھا کھا کر عرصہ دراز پہلے ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ خوش ہونا اور کامیاب ہونا دو یکساں باتیں نہیں ہیں۔ کامیابی پیسہ کمانے سے کچھ سوا ہے، پیسے کی اہمیت پر ضرورت سے زیادہ زور دینا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ زندگی کو صرف پیسے کمانے کی چکی بنا لینا دراصل عذاب میں مبتلا ہونے کے برابر ہے۔

دنیا کا نامور ادیب ہال اربن کہتا ہے ’’میں کئی برس تک فلسفہ، تاریخ اورنفسیات کے مطالعے کے بعد اس حقیقت کو سمجھا ہوں کہ زندگی اور کامیابی کو چند ایسے اصولوں میں سمویا جاسکتا ہے، جو ہزاروں سال سے موجود ہیں ’’اچھی زندگی‘‘ کی جستجو میں کئی سال مختلف راستوں پر گامزن رہنے کے بعد میں وہیں پہنچ گیا، جہاں سے روانہ ہوا تھا، میں ان تک پہنچا جنھیں اب میں پرانے سچ، پرانی صداقتیں کہتا ہوں‘‘۔ جیسا کہ ایڈورڈ ایبلی اپنے ڈرامے The Zoo Story میں کہتا ہے ’’بعض اوقات تھوڑا سا درست فاصلہ طے کرنے کے لیے اصل راستے سے کافی دور جانا پڑتا ہے‘‘۔ جب آپ دراصل راستے سے کافی دور چلے جاتے ہیں تو پھر دو باتیں ممکن ہوسکتی ہیں، یا تو ساری زندگی بھٹکتے پھرتے رہتے ہیں، مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور اصل راستہ آپ کو کبھی مل ہی نہیں پاتا، دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کافی دور جاکر واپس اصل راستے کی جانب آجاتے ہیں۔

وارنر ارہرڈ نے کہا تھا ’’سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کردیں گی لیکن پہلے یہ آپ کو جی بھرکر تڑپائیں گی‘‘۔ اگر ہماری اشرافیہ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ کیسی بے مصرف، بے معنی، بے مقصد اور بے کیف زندگی گزار رہے ہیں تو وہ زر و زیورات، ہیرے جواہرات کے انبار اٹھا کر گلی میں پھینک دیں۔ لیکن مشکل تو یہی ہے کہ ان کا احساس بھی سلب ہوچکا ہے، ان کے نصیب میں لکھا جاچکا ہے کہ وہ سونے کی گٹھری اٹھائے اٹھائے پھرتے رہیں، خواہ اس کے بوجھ تلے ان کے کندھے شکستہ ہوجائیں، وہ اسے اٹھائے تھک کر نڈھال ہوجائیں، ہانپتے کانپتے پھر اٹھ کر کھڑے ہوں اور اسی سونے کی گٹھری سے چمٹے رہیں کہ یہ ہی ان کا مقدر ہے اور پھر آخر میں وہ ہی ایک اجڑی اور تاریک قبر ان کا مقدر ہوجاتی ہے۔

انھیں اس عذاب میں مبتلا رہنے دیں، آپ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ عذاب کو ختم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ خدا کے اختیار میں ہے، اس لیے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ آئیں ہم اپنی بات کرتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کسی کار کے بمپر پر چسپاں وہ اسٹیکر دیکھا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’’زندگی کٹھن ہے اور پھر تم مرجاتے ہو‘‘۔ یہ ہی زندگی کا عظیم ترین سچ ہے اور حقیقت بھی یہ ہی ہے۔ دنیا کے اولین باشندوں سے لے کر آج تک زندگی کٹھن ہے، یہ ہمیشہ کٹھن رہی ہے اور ہمیشہ کٹھن رہے گی۔ جب ہم اس سچ کو جان لیتے ہیں، اسے قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہم موثر انداز میں جی سکتے ہیں۔ اپنے مسائل پر گریہ وزاری کرنے ، پگھلنے اور گھلنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔

جزیرہ جرس پر سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی چٹان پر ایک ٹوٹا پھوٹا بینچ آج بھی موجود ہے۔ آج سے کوئی سو برس پہلے جب عظیم مفکر وکٹر ہیوگو کو اپنی شدید علالت کے زمانے میں حالات کی نامساعدی کے باعث اپنے وطن فرانس کو خیر باد کہنا پڑا تو وہ ہر شام غروب آفتاب کے نظارے کی خاطر تھکا ماندہ چٹان پر رینگ رینگ کر خاموشی سے اس بینچ پر آکر بیٹھ جاتا اور اپنا بوڑھا سر جھکائے گہری سوچ بچار میں ڈوب جاتا، پھر دفعتاً کھانستا ہوا ایک سنگریزہ اٹھا کر اسے بڑے غور سے دیکھتا اور یکبارگی اسے بڑے پر اعتماد انداز میں نیچے سمندر میں پھینک دیتا۔ اکثر آس پاس کھیلتے ہوئے بچے اس کی بظاہر بے معنی حرکت بڑی تعجب کی نظروں سے دیکھتے۔ آخر ایک دن ایک بچی سے نہ رہا گیا، وہ ہانپتی کانپتی وکٹر ہیوگو کے نزدیک پہنچی اور کہا ’’آپ روزانہ سمندر میں پتھر کیوں پھینکتے ہیں؟‘‘ اس شکستہ حال دانشور نے خاموش نظروں سے اس گڑیا کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرا کر کھانستے ہوئے جواب دیا ’’میری بچی پتھر نہیں، میں تو صرف اپنے احساس مظلومیت کو سمندر میں پھینکنے آتا ہوں‘‘۔

میرے ہم وطنو، یاد رکھو نہ تو تم بے بس ہو اور نہ اپاہج اور نہ ہی مفلوج، تم نے اپنا یہ حال خود بنایا ہوا ہے، اس حال کے قصوروار تم خود ہو، دوسروں کو قصور وار اور مجرم قرار دینے کے ڈھونگ ختم کرو، خود پرستی پر لعنت بھیجو۔ آؤ عظیم مفکر وکٹرہیوگو کی طرح اپنے سارے دکھ، درد، اپاہج پن اور احساس مظلومیت کو یکجا کرکے اور انھیں ایک سنگریزے میں سمو کر اپنی ساری قوت بروئے کار لاکر اسے اپنے سے دور، بہت دور پھینک دو۔ پھر دیکھنا یہ عذاب میں مبتلا اشرافیہ کس طرح اپنی جان کی بخشش تم سے مانگتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔