آپ کی ناک کے نیچے!!!

شیریں حیدر  اتوار 2 اپريل 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

لاہور میں ماڈل ٹاؤن کا علاقہ تھا وہ… اردگرد کے قدیم گھروں کے بیچ وہ ایک گھر، جہاں اس وقت ہم موجود تھے- اسلام آباد سے ہم لاہور ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے، اس شادی کا کارڈ پر جو پتہ درج تھا، وہ یہی تھا- مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ کوئی ہوٹل، شادی ہال یا مارقی نہ تھی، بلکہ وہ قدیم گھر تھا- یہ اور بات ہے کہ وہ گھر باقی گھروں کی نسبت  مختلف نظر آ رہا تھا- اس میں اس وقت کئی طرح کے طوفان برپا تھے، رنگوں کا، خوشبوؤں کا، روشنیوں کا اور ڈھول کی آواز کا، جانے ارد گرد کے لوگوں کو کس طرح رات کو نیند آئے گی!!! شاید اس علاقے میں کوئی رہتا ہی نہ ہو گا یا لوگ عادی ہو گئے ہوں گے۔

ہم لڑکے والوں کی طرف سے تھے، مہندی کی تقریب تھی- ’’کیا یہ گھر لڑکی والوں کا ہے؟ ‘‘ گیٹ سے داخل ہوتے وقت میں نے پھولوں سے سجے گیٹ کے اصل رنگ کو روشنیوں میں دیکھا، جسے زنگ تقریبا چاٹ چکا تھا اور یہ بھی علم نہ ہو رہا تھا کہ اس گیٹ کا کبھی کیا رنگ رہا ہو گا- ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ شادی ہو رہی ہو اور کوئی اپنے گھر کے گیٹ تک کو رنگ نہ کروائے- پرانے ناولوں اور کہانیوں کے مناظر یاد آ گئے جب شادی سے پہلے لڑکی سے زیادہ گھر کو سجایا جاتا تھا- اس گھر کی تزئین اور سجاوٹ تو بہت کی گئی تھی مگر اس کا پھولوں اور روشنیوں سے ڈھکا، گہنایا ہوا حسن کسی کو قابل توجہ نہ لگا تھا-

’’ ارے نہیں… یہ لڑکی والوں کا گھر نہیں ہے،  یہ گھر ماڈل ٹاؤن کے ان گھروں میںسے ایک ہے جو اب رہائش کے قابل نہیں رہے، مالکان کسی اور علاقے میں منتقل ہو چکے ہوں گے لیکن اس گھر سے بھی کچھ نہ کچھ منافع کما لیتے ہیں- اسی نوعیت کے گھر تو ان بوسیدہ اور ناقابل استعمال ہو چکے ہیں مگر ان کے سبزہ زار، ان کے وسیع لان کسی شادی ہال کی طرح لوگ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے کرائے پر حاصل کرتے ہیں!!‘‘

’’ مگر اس مقصد کے لیے تو شہر میںکئی ہال اور ہوٹل موجود ہیں؟ ‘‘ میں نے جواب دینے والے سے اگلا سوال کیا –

’’ ہاں ہیں … مگر وہا ں ایسی آزادی میسر نہیں جیسی یہاں ہے!!‘‘ میں نے حیرت سے سوالیہ نظریں مرکوز کیں، ’’ یہاں نہ وقت پر تقریب کو ختم کرنے کی پابندی ہے نہ ہی ون ڈش کی سختی!!‘‘ بتایا گیا-

’’ کیوں؟؟ ‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا یہ علاقہ ملکی قوانین کی حدود سے باہرہے…  ؟؟‘‘

’’ ایسا تو ہر گز نہیں ہے، کیوں نہیں معلوم ہو گا، ایسی تقریبات میں کئی صاحبان اختیار شرکت بھی کرتے ہیں!!‘‘ جواب ملا، اور دیکھنے سے بھی علم ہو رہا تھا کہ ایسی تقاریب چوری چھپے تو نہیں ہو رہیں، اتنے دھوم دھڑکے سے اور اتنا علی اعلان کوئی چوری تو نہیں کر سکتا،

’’ اصل میں حکومت کا یہ قانون ہے ہی غلط… چلیں وقت کی پابندی کی حد تک تو ٹھیک ہے، مگر ایک ڈش!!‘‘

ان کا نکتہ بالکل درست تھا،  ایک مثال ابھی دی ہے، آپ ہی کے شہر کی، آپ کی ناک کے عین نیچے-

ملکی میڈیا اس وقت کئی منفی موضوعات پر ڈرامے پیش کر رہا ہے، میڈیا کو  پابند کیا جائے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے اسباب کے سد باب کے بارے میں عوام کو تعلیم دی جائے – اہل قلم پر بھی یہی ذمے داری ہے کہ وہ اس پر جامع اور سادہ انداز میں لکھیں، لوگوں کو سیاہ اور سفید کا فرق بتائیں اور طرز معاشرت میں تبدیلی لائیں- معمول میں تو ہماری میز پر ایک نہیں، کم از کم دو ڈشیں ہوتی ہیں خواہ وہ دال اور سبزی ہی کیوں نہ ہو- گوشت کا استعمال بڑھ گیا ہے اور اسی سے بیماریاں بھی کیونکہ اتنی آبادی کو گوشت فراہم کرنا ہے تو ا س میں بکرے اور گدھے کا فرق بھی ختم ہو گیا ہے- غیر فطری حالات میںپروان چڑھنے والی مرغیاں (جو کہ ہمارا قومی پرندہ بن چکی ہیں) جب ہمارا جزو بدن بنتی ہیں تو ان کے گوشت میں موجود ہارمونز کسی نہ کسی صورت ہماری ا صل کیمسٹری کو تبدیل کر دیتے ہیں۔

شادی عموما ہر شخص کی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے، سالگرہ سال میںایک بار، منگنی، عقیقہ یا ایسی ہی دیگر تقریبا ت بھی- آپ ہوٹلوں میں جا کر ان کے روزانہ کے بوفے دیکھ لیں، ان میں ڈشوں کی تعداد شمار ہی نہیں کی جا سکتی- پابندی کا اطلاق ان پر کرنے کی ضرورت ہے، چیکنگ کا سخت نظام بنائیں تا کہ بے جا اصراف کو روکا جاسکے- جہاں لاکھوں افراد اس ملک میں ہر رات بھوکے سوتے ہیں، لاکھوں ناکافی غذا کھاتے ہیں، کروڑوں ملاوٹ شدہ خوراک کھاتے ہیں اور نت نئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، وہاں پابندی صرف اس کھانے پر جو عمر بھر میں شاید ایک یا دو دفعہ کھانا ہوتا ہے-

ایک مثال میں نے دی ہے، ملک کے چپے چپے میں اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اسلام آباد میںبھی کئی مارقی میں اس پابندی کا اطلاق نہیں ہے، بالخصوص ای الیون کے علاقہ میں کھمبیوں کی طرح اگنے والی درجنوں مارقی میں نہ وقت کی پابندی ہے نہ ڈشوں کی تعداد کی- شنید ہے کہ ای الیون کا وہ علاقہ ابھی تک سی ڈی اے کی حدود میں تسلیم نہیں کیا جاتا- ملک میں کوئی بھی قانون ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اطلاق شہری علاقوں میں تو ہو مگر دیہی علاقوں میں نہ ہو، ماڈل ٹاؤن ہو، اسلام آباد یا ای الیون- شادیوں پر کھانے کی ڈشو ں کی تعداد پر پابندی لگانے کی بجائے مختلف ہوٹلوںکے معمول کے بوفے جو کہ ہر روز ہوتے ہیںاور ان میں کتنا ہی کھانا ضایع کیا جاتا ہے، ان پر پابندی لگائیں-

اسلام آباد کے ایک مشہور مال میں جب آپ سب سے اوپر کے فلور پر جائیں تو وہ سار ا فلور کھانے پینے کے اسٹالز کا ہے، وہاں پر ایک بورڈ لگا ہوا ہے جسے دیکھ کر میں ہمیشہ دل سے اس شخص کو داد دیتی ہوں جس کے ذہن میں وہ اچھوتا خیال آیا تھا- اس کی عبارت کا لب لباب یہ ہے کہ ضرورت سے زائد کھانا لینا، اسے نہ کھانا اور ضایع کر دینا جرم ہے، اتنا ہی کھانا آرڈر کریں جتنا آپ کھا سکتے ہیں- یہ ہم سب کے لیے ایک مشعل راہ کی طرح ہونا چاہیے، ہمارے میڈیا کو اس طرح کے پیغامات ہم تک پہنچانے کی ضرورت ہے-  دنیا میں ایسے ہوٹل بھی ہیں جہاں کھانا آرڈر کر کے اگر آپ سارا نہ کھائیں تو آپ کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے-

قانون ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ہوٹل اپنا کھانا کوڑے دانوںمیں نہ پھینکے، لوگوں کو بتایا جانا چاہیے کہ دنیا میں کتنے فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، کتنے لوگ ہیں جنھیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں – کتنے لوگ ہر روز بھوک سے مر جاتے ہیں، ہم تو اس بات کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں اللہ نے سب کچھ اتنا وافر عطا کیا ہے کہ ہم اس میں سے ضایع بھی کرتے پھرتے ہیں-

کوئی بھی قانون جو کہ لوگوں کی خواہشات سے متصادم ہو اسے قبول نہیں کیا جا سکتا،  لوگ شادی میں شرکت کے لیے بیرون ملک سے بھی آتے ہیں، اس کی تقریبات میں رنگ تبھی جمتا ہے جب اچھا کھانا دیا جائے کہ سارے دھندے انسان پیٹ بھرنے کے لیے ہی تو کرتا ہے -میری قطعی ذاتی رائے ہے کہ اس طرح کے قوانین میں ترمیم کی جانی چاہیے، وقت کی پابندی کا قانون بنائیں اور اس کا اطلاق ہر تقریب پر کریں-

ون ڈش کے قانون کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بہت سے حکومتی افراد ایسی شادیوں میں شرکت کرتے ہیں جہاں ون ڈش نہیں ہوتی ہے- قانون صرف عوام کے لیے ہیں، خواص تو اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں بیرون ملک جا کر کرتے ہیں، ان شادیوں میں کئی طرح کے اللے تللے ہوتے ہیں جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے… ٹیکس کے نام پر صرف ہزاروں روپے دینے والے… دبئی میں جا کر مہنگے ترین ہوٹلوں میں اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں- ہزاروں لوگوں کو سمندری جہازمیں عشائیہ دیتے ہیں، ان شادیوں پر آنے والی مالیت کو کوئی چیک نہیں کرتا، کیونکہ ان میں کئی گزشتہ اور کئی حالیہ حکومتی افراد خود شرکت کرتے اور لطف اٹھاتے ہیں- اگر ’’ قانون سب کے لیے ‘‘ ہو تو ہی اس کا کوئی فائدہ ہے مگر ہمارے ہاں قانون وہ جالا ہے جس میں غریب پھنس جاتا ہے اور امیر اسے توڑ کر نکل جاتا ہے-

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔