حصول خوشی اور تصنیفات

نسیم انجم  اتوار 2 اپريل 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ایک خاص خبر نے مجھے خوشی کے حوالے سے کالم لکھنے پر مجبورکیا تھا، دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ کئی کتابیں بھی اسی موضوع پرموصول ہوئی تھیں جن پر میں لکھنا چاہتی تھی۔ ’’خبر‘‘ پر تبصرہ اس اہم کتاب کے تذکرے کے بعد ضرورکروںگی اور ایک کتاب جوکہ زاہد رشید کی ہے زیر بحث لاؤں گی۔

چند ماہ بیتے ہیں جب مجھے ڈاکٹر وزیرآغا کی کتاب ’’مسرت کی تلاش‘‘ ان کے فرمانبردار اور ہونہار صاحبزادے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے ترسیل کی تھی، ڈاکٹر وزیر آغا علم و ادب کی قد آور شخصیت ہیں۔ انھوں نے جتنا بھی ادبی، تحقیقی کام کیا وہ سارا کام گلستان ادب کی آبرو اور شعروسخن اور تخلیق و تنقید کے باغ کی خوبصورتی کی وجہ ڈاکٹر وزیر آغا ہیں، ان کے صاحبزادے سلیم آغا قزلباش کو تحقیقی و تنقیدی بصیرت ورثے میں ملی، وہ خود بھی ادبی و تنقیدی کام اور اپنی صلاحیتوں سے استفادہ کررہے اور ان کی تحریریں اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہیں۔

’’مسرت کی تلاش‘‘ کا پہلا اور دوسرا ایڈیشن 1954ء اور 1956ء میں اکادمی پنجاب لاہور سے شایع ہوا تھا اور تیسرا ایڈیشن جو میرے زیر مطالعہ رہا ہے اس کی تاریخ اشاعت 2012ء ہے۔ وزیر آغا نے سات مضامین مسرت کے حوالے سے تحریرکیے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’مسرت‘‘ مسرت عام زندگی میں، مسرت اور آرٹ، مسرت اور فلسفہ، فلسفہ، فرد سماج اور محبت، پیش لفظ مولانا صلاح الدین احمد اور مقدمہ وجیہہ الدین احمد نے لکھا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ افلاطون کے نظریات اور قدیم تر یونانی فلسفے کا تقابل یہ بات سمجھاتا ہے کہ دو چشمے ہمیشہ سے علم ودانش کے چمن کی آبیاری کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ جہان دیدگی اور زمانہ شناسی ہے، جس کا سبق تاریخ سے، حوادثِ روزگار سے اورکشاکش ہائے ہستی سے حاصل ہوتا ہے، دوسری طرف وہ نظر ہے جسے پانے کے لیے آدمی خود اپنی آگ میں جلتا ہے۔ مسرت کی تلاش میں انسان انھیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا چلا آیا ہے۔

’’فرد، سماج اور مسرت‘‘ کے آخری باب کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا اس طرح رقمطراز ہیں ’’میں نے اس کتاب کے آغاز میں عام زندگی میں مسرت کے امکانات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، لیکن زیادہ تر مقصد مسرت کی توضیح پیش کرنا تھا۔ بعد ازاں میں نے مسرت کے تدریجی ارتقاء کو واضح کرنے کے لیے محبت اور آرٹ اور مشرق و مغرب کے فلسفیانہ نظریات کو زیر بحث لاکر مسرت کی ارتقائی کیفیت کا بھی جائزہ لیا۔

ازبسکہ مسرت نہ صرف عام انسانی زندگی سے شدید طور پر وابستہ ہے بلکہ اس کی بقا کے لیے خون گرم کا درجہ بھی رکھتی ہے‘‘ وہ مذکورہ باب میں خوشی کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں رائے عامہ (Public Opinion) کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے لہٰذا ہم پر اس اقدام سے احترازکرتے ہیں جو رائے عامہ کو ہمارے خلاف کردے، اس کے برعکس ہر وہ کام جس سے ہم اپنے سماج کی خوشنودی حاصل کرسکیں ہمارے لیے باعث مسرت ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے مغربی مفکرین کی آراء کو بھی مد نظر رکھا ہے اور سائنس کے حوالے سے بھی انسانی ذہن بہت سی مشکلات اور انتشار کا شکار ہوا ہے اس اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔

اب آتے ہیں اس خاص جزو کی طرف جس کا میں نے ابتدائی سطور میں ذکر کیا تھا۔

کئی روز پرانی بات ہے کہ جب ہم نے یہ خبر اخبار میں پڑھی تھی۔ سرخی کچھ اس طرح تھی کہ ہیپی نیس فاؤنڈیشن لوگوں کو خوشی بڑھنے کے طریقے بتارہی ہے۔ یہ بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا نام ’’دی وے ٹو ہیپی نیس فاؤنڈیشن‘‘ (The Way To Happiness Foundation) ہے۔ خوشی کو عالمی دن کے طور پر منانے کے لیے محکمہ سماجی بہبود سندھ اور اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر کراچی پریس کلب سے ریلی بھی نکالی گئی۔

اس موقعے پر ماہر تعلیم، فلسفی اور انسان دوست ایل روڈ ہیرڈ کی لکھی ہوئی کتاب ’’خوشی کی راہ تقسیم کی گئی‘‘ صوبائی وزیر سماجی بہبود شمیم ممتاز نے کہاکہ مجھے خوشی ہے ’’دی وے ٹو ہپی نیس فاؤنڈیشن لوگوں کو خوشی بڑھانے کے طریقے بتارہی ہے۔ اگر اﷲ کی آخری کتاب کو پڑھ لیا جائے تو امن اور خوشیوں کا خزانہ سا حاصل ہوجائے۔ بہر حال تین چار سال گزرے ہوںگے جب ہمارے ملک کے ممتاز شاعر فضا اعظمی نے خوشی کی تحریک چلائی تھی۔

اسی حوالے سے ان کی دوکتابیں ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ اور ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ منصۂ شود پر جلوہ گر ہوئی تھیں اور ان کی تحریروں پر کئی قلمکاروں نے خامہ فرسائی کی اور ان کے افکار کی تشہیر کے لیے دلیل کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش بذریعہ تحریر کی تھی، اسی کاوش کے نتیجے میں کئی کتابیں منصۂ شود پر نمایاں ہوئیں۔ ’’نظریات فضا اعظمی‘‘ (افکار فضا اعظمی کا اجمالی جائزہ) یہ کتاب زاہد رشید نے تالیف و تصنیف کی ہے۔

زاہد رشید اس کتاب سے قبل تین کتابیں مزید لکھ چکے ہیں، تاہم عصر اردو افسانہ (انتخاب بہ اشتراک اے خیام) خزینہ اردو، خزینہ اردو، 8 کے عنوانات سے شایع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب زاہد رشید کی شعر و سخن سے محبت انسانی مثبت رویوں، قدر دانی کا پیش خیمہ ہے۔ کتاب7 ابواب اور 316 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ زاہد رشید خوشی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ فرد کی زندگی میں خوشی کی اہمیت وافادیت لا متناہی ہے۔

نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ طویل عرصے تک خوشی سے محروم رہنا ہے جب کہ خوشی فرد کی داخلی کیفیت کا نام ہے جس کا خارجی دنیا سے براہ راست تعلق ہے، اس کیفیت کی پرت در پرت ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ زاہد رشید نے فضا اعظمی کی طویل مقصدی نظموں کی افادیت سے بحث کی ہے جو قابل تحسین ہے۔ جناب فضا اعظمی نے دامے، درمے، سخنے پبلشرز، سیلرز اور قارئین کو خوشی بہم پہنچائی ہے اور وہ یہ نیک کام زبانی وکلامی بھی انجام دے رہے ہیں۔

میں صوبائی وزیر سماجی بہبود شمیم ممتاز سے ایک سوال ضرور کروںگی کہ وہ پاکستان خصوصاً سندھ کے عوام کو سچی خوشیاں دینے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہیں۔ خوشی تو لوگوں کو اسی وقت ملے گی جب وہ دیہات، گاؤں اور پسماندہ علاقوں میں مفت تعلیم اور علاج کا بندوبست کریںگی، سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے ننھے بچوں اور ان کے ماں باپ کے لیے کوئی فلاحی مرکز کا انتظام اور ان بے آسرا لوگوں کے لیے چھت فراہم کریں۔

حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے درس و تدریس کا اہتمام بھی ضروری ہے، تعلیمی فقدان کی وجہ سے آئے دن معمولی جھگڑے طول پکڑ جاتے ہیں اور نوبت قتل و غارت تک آجاتی ہے اس بات سے پوری دنیا واقف ہے کہ تھر کی حالت ابتر ہے، مٹی دھول، غربت، افلاس، تنگ دستی کے سوا وہاں رکھا ہی کیا ہے ویسے بھی شمیم ممتاز صاحبہ صوبائی وزیر اور سماجی شخصیت ہیں۔ اہل روڈ ہیرڈ کی کتاب کی تقسیم ہرگز خوشی فراہم نہ کرسکے گی، خوشی کے حصول کے لیے ذرائع آمدن اور بھوکے شکم کو روٹی کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ امور حکومتوں کے انجام دینے کے ہیں۔

ہمارے جیسے لکھاریوں کو تو احساس کی تپش مسائل کی نشاندہی کرنے پر مجبور کرتی ہے تاکہ حاکم وقت دکھی انسانیت کی خدمت کرسکیں اس کے لیے انھیں فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ ’’نامی کتاب‘‘ بھی پڑھنی چاہیے اور دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کریں انھیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک کے لوگ اسلامی تعلیمات سے دوری اور مفلسی و بے بسی کی وجہ سے خودکشی کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔