’خودکش مائیکروکیپسولز‘ سے کینسر کا علاج

ویب ڈیسک  پير 3 اپريل 2017
بہت چھوٹے کیپسول کے ذریعے دوا کو اس کی جگہ پہنچایا جاسکے گا۔ فوٹو: فائل

بہت چھوٹے کیپسول کے ذریعے دوا کو اس کی جگہ پہنچایا جاسکے گا۔ فوٹو: فائل

 لندن: سائنسدانوں نے کینسر کی رسولیوں تک پہنچ کر انہیں براہِ راست تباہ کرنے والے باریک کیپسول تیار کیے ہیں جو کینسر ختم کرنے والی دوا کو اس کے مقام تک پہنچا سکیں گے۔

یہ کیپسول کئی تہوں میں لپیٹا جاتا ہے جسے الٹراساؤنڈ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے اور الٹرا ساؤنڈ ہی ان مائیکروکیپسولز کی رہنمائی کرکے انہیں متاثرہ رسولی یا خلیات تک پہنچاتی ہے۔  مستقبل میں اسے کیموتھراپی جیسے تکلیف دہ عمل کی جگہ استعمال کیا جاسکے گا۔

کینسر کےخلاف دوا بھرے اس کیپسول کو یونیورسٹی آف الاباما برمنگھم (یو اے بی) نے تیار کیا ہے جس میں تین ایسی خاصیتیں ہیں جو ایک جگہ لانا ممکن نہیں ۔

اول: یہ ہلکے الٹراساؤنڈ سے آگے بڑھتے ہیں۔

دوم: ان میں ڈوکسوریو بی سن جیسی مشہور دوا رکھی جاسکتی ہے

سوم: اسے الٹراساؤنڈ سے ہی مطلوبہ مقام تک لے جاکر اس سے دوا خارج کی جاسکتی ہے۔

ڈوکسوریو بی سن کیموتھراپی میں استعمال ہونے والی عام دوا ہے جو مختلف الاقسام کینسر کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

کیپسول پر کام کرنے والی ڈاکٹر یوجینیا کرلامپیوا کے مطابق انہوں نے ٹھوس رسولیوں کو ختم کرنے کا ایک قدرے مختلف طریقہ وضع کیا ہے۔ اس میں دوا اپنی منزل تک پہنچتے ہوئے متاثر نہیں ہوتی اور الٹراساؤنڈ سے دوا کو عمل کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ بیرونی طور پر الٹراساؤنڈ کے ذریعے ہی دوا خارج کیا جاسکتا ہے۔

کیپسول کے اندر دوا رکھ کر اسے ٹینِک ایسڈ اور پولی این وینائل پائرول آئیڈون کی کئی تہوں میں بند کیا گیا ہے۔ ان تمام پرتوں کو گھلانے اور دوا خارج کرنے کے لیے الٹراساؤنڈ کی جو مقدار درکار ہوتی ہے وہ ایف ڈی اے کی مروجہ شدت کے اندر اندر ہے۔

یہ کیپسول انسانی خون کے خلیے (سیل) سے بھی چھوٹے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر 8 مختلف پرتیں چڑھائی گئی ہیں۔ اس کے اندر موجود اصل دوا بھرا کیپسول صرف 50 نینومیٹر چوڑا ہے جس میں سرطان ختم کرنے والی دوا بھری ہے۔ اب اگلے مرحلے میں سائنسداں ان کیپسولوں کی خون میں روانی اور دوا ڈالنے کا عملی مظاہرہ کریں گے جس کے بعد اس کی افادیت سامنے آسکے گی۔

اس تحقیق کا لبِ لباب یہ ہے کہ اس سے دوا کو ٹھیک سرطان والی جگہ پہنچایا جاسکے جو اب بھی دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔