جنگ، محبت اور میڈیا میں سب جائز ہے؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 3 اپريل 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

بھارتی میڈیا میں ایک گرما گرم خبر چلی اور ایسی چلی کہ تمام بھارتی میڈیا پر چھاگئی۔ خبر تھی کہ گلوکاری کے ایک معروف مقابلے ’انڈین آئیڈول‘ میں بھارتی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ گلوکارہ ناہید آفرین کے خلاف چھیالیس کے قریب علما نے فتویٰ دے دیا ہے۔ فتویٰ اس بات پر دیا گیا ہے کہ وہ آیندہ قبرستان کے قریب منعقد ہونے والے پروگرام میں حصہ نہ لے کیونکہ یہ مذہبی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

یہ خبر ایسی تھی کہ اس پر تو پاکستانی میڈیا بھی چراغ پا ہوجاتا، یہ تو پھر انڈین میڈیا ہے جہاں اونچی ذات کے ہندوؤں کا غلبہ ہے، یہ میڈیا تو اپنے نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتا ہے تو پھر بھلا مسلمان اور وہ بھی مولویوں کو کیسے بخش سکتا تھا۔ چنانچہ پورے بھارت میں ٹی وی چینلز نے طوفان سر پر اٹھا لیا، TIMES NOW نے پہلے موقف اپنایا کہ یہ فتویٰ ISIS مخالف نغمہ کے سبب دیا گیا ہے۔ پھر اسی چینل نے اپنے پروگرام ’’نیو آوور ڈیبیٹ نمبر ون‘‘ میں تسلیمہ نسرین اور اس جیسی دیگر اسلام مخالف نظریات رکھنے والی خواتین کو مدعو کرکے اس فتویٰ پر کہ مساجد اور مقبروں کے قریب گانا درست نہیں، خوب گرما گرم بحث کی اور ساتھ ہی چند اسلامی پس منظر رکھنے والے مولوی حضرات کو شامل کرکے ماحول کو اور بھی گرمانے کی بھرپور کوشش کی اور اسلامی تعلیمات اور نظریات کے خلاف دل کی خوب بھڑاس نکالی۔

ایک اور بھارتی ٹی وی چینل انڈیا ٹوڈے میں تو پورا پورا یہ پروپیگنڈا کردیا کہ اسلام میں تو گانا جائز ہے اور جو لوگ اس کے خلاف ہیں وہ غلط ہیں۔ اسلام میں گانے کے مقام پر ایک بھارتی گلوکار سے فون کال پر بات کی گئی جس نے مزید کہا کہ سنگیت خدا کا دوسرا نام ہے، عبادت میں بھی سنگیت ہوتا ہے۔ اس کال کے دوران چینل اپنی ٹی وی اسکرین پر بار بار یہ لکھا ہوا دے رہا تھا،  India Vs ISIS۔

یہ پروپیگنڈا اس قدر بھرپور تھا کہ ہر کوئی یہ سمجھنے لگا کہ واقعی مولویوں نے کوئی فتویٰ دے دیا ہے اور نہ جانے ان کو کیا ہوگیا ہے کہ ’’ایک سولہ سال کی گلوکارہ بچی کے خلاف محاذ‘‘ کھول دیا گیا ہے۔ فتویٰ دینے والے دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارتی چینلز بھی مختلف لوگوں کے کمنٹس پیش کررہے تھے کہ مولوی حضرات اکیسویں صدی میں نہ جانے کیا کرنے جارہے ہیں، کوئی اسے پاگل پن قرار دے رہا تھا۔ واقعی یہ پاگل پن تو تھا مگر کس کا؟ مفتیوں، مولویوں کا یا میڈیا کا؟ بھلا ہو بی بی سی کا کہ اس نے اس خبر کی خبر لی اور یہ ثبوت پیش کردیا کہ یہ پاگل پن بھارتی میڈیا کا تھا، بھارت کے مفتیوں کا نہیں۔

بی بی سی نے اپنی خبر میں بتایا کہ بھارتی میڈیا جس گلوکارہ لڑکی کے خلاف چھیالیس کے قریب علما کے فتوے کا شور مچا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ لڑکی کو مساجد یا قبرستان کے قریب گلوکاری نہیں کرنی چاہیے، دراصل کسی بھی عالم نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں ہے اور اس سلسلے میں جب لڑکی اور اس کے والدین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بھی ایسے کسی فتوے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی قبرستان میں گانے کا مسئلہ ہوتا تو وہ خود ہی اپنی بیٹی کو منع کردیتے۔ والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں کسی بھی تنظیم کی جانب سے کوئی فون یا اطلا ع نہیں آئی، نہ ہی کسی تنظیم کی جانب سے اس قسم کے فتویٰ کو تسلیم کرنے کا کہاگیا یا دھمکی دی گئی۔

بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ ریاست آسام کے وزیراعلیٰ نے بھی فتوے کے خلاف بیان دے ڈالا، جب کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ گویا بی بی سی نے اپنی خبر میں کی گئی تحقیق میں اس بات کو واضح کیا کہ کسی عالم نے کوئی فتویٰ نہیں دیا تھا نہ ہی کسی فتویٰ کا لڑکی یا اس کے گھر والوں کو علم تھا۔ بعض افراد کے مطابق فتویٰ تو کوئی جاری نہیں ہوا، البتہ ایک ایسا پمفلٹ ضرور جاری ہوا جس میں ایسے غیر اسلامی کاموں سے اجتناب کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ گویا بھارتی میڈیا جس فتویٰ کا ذکر کرکے شور مچا رہا تھا اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ایسا کوئی فتویٰ مذکورہ لڑکی یا اس کے والدین نے دیکھا تھا۔

کچھ ایسا ہی ایک معاملہ پاکستان میں میڈیا پر دیکھنے میں آیا۔ ایک ایسی خبر پاکستانی میڈیا پر بھی چلی جس میں اصل بات کچھ اور تھی مگر بحث و مباحثہ کچھ اور ہی رنگ میں ہورہا تھا اور تاثر یوں مل رہا تھا کہ گویا اسلام پسند اور لبرل عناصر میں کوئی جنگ چھڑ گئی ہو۔ یہ معاملہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے حجاب کو فروغ دینے سے متعلق تھا، مگر میڈیا کی جانب سے اس کو کچھ اور رنگ دے کر دھواں دھار مباحثوں کا آغاز کردیا گیا۔ میڈیا کے ٹاک شو گویا میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگے۔

ان پروگراموں سے معلوم ہوتا تھا کہ پنجاب حکومت نے طالبات کے لیے حجاب لازمی کردیا ہے اور حجاب کرنے والی طالبات کو اضافی نمبر امتحانات میں دیے جائیں گے۔ کافی غور وخوض کے بعد حقیقت کھلی تو پتہ چلا معاملہ تو کچھ اور ہی ہے۔ ایک معروف کالم نگار نے اس صورتحال پر اپنے 16 مارچ کے کالم میں لکھا کہ ’’ٹی وی چینلز میں بیٹھے اینکرز کے دل و دماغ میں جو آیا بولتے رہے، کسی نے کہا کہ حجاب کی پابندی لازم قرار دی جارہی ہے تو کسی نے کہا کہ حجاب کرنے والی طالبات کو امتحانات میں اضافی نمبر دیے جائیں گے، حالانکہ بات کچھ اور ہی نکلی۔

ٹی وی چینلز نے تو کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ دیا کہ تجویز دراصل ہے کیا، کیوں کہ ہر کوئی نئی نئی بات کر رہا تھا۔ اخبارات پڑھ کر پتا چلا کہ تجویز یہ تھی کہ حجاب کرنے والی طالبات کی اگر 65 فیصد سے کم حاضری ہوگی تو انھیں پانچ فیصد اضافی حاضریوں کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ یہ بھی تجویز زیر غور تھی کہ کالجز میں صبح کی اسمبلی کا آغاز کیا جائے، جس کا مقصد طلبا و طالبات کی کردار سازی پر خصو صی توجہ دینا ہے۔ لیکن ٹی وی چینلز نے یہ سب کچھ منظوری سے پہلے ہی رد کر دیا۔ حجاب کے خلاف اس مہم جوئی میں چن چن کر ایسے افراد سے انٹرویو لیے گئے جو عورتوں کے حجاب کی مخالفت کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔‘‘

یوں پاکستانی اور بھارتی میڈیا کے مذکورہ بالا واقعات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے (1) دونوں پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ شور مچا دیا، کوا کان لے گیا۔ لیکن کسی نے نہ دیکھا کہ کان کو تو دیکھ لو اپنی جگہ ہے یا نہیں۔ (2) دونوں طرف کے میڈیا اسلام مخالف جذبات میں حقائق کو جاننا بھی گوارا نہیں کرتے، جہاں تک ممکن ہو اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمات کے خلاف رائے سازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں رائی کا پہاڑ بنانے کی کمال مہارت رکھتے ہیں اور پہلے ہی سے نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔

یہاں صرف دو تازہ ترین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، ورنہ مثالیں تو بہت ہیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، کیا یہ سب کچھ اسلام مخالف جنگ ہے؟ اور اس میں سب کچھ جائز ہے، یا پھر اب نیا محاورہ کچھ یوں ہے کہ

’جنگ، محبت اور میڈیا میں سب جائز ہے‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔