بھٹو کا آخری خط

تنویر قیصر شاہد  پير 3 اپريل 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، کی پھانسی کو 38 واں سال گزر رہا ہے۔ 4 اپریل کا دن آتے ہی اُن سے وابستہ کئی کہانیاں، کئی داستانیں یاد آ کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ سچی بھی ہیں اور کچھ میں محبت و عقیدت نے مبالغہ پیدا کر رکھاہے۔ سچ مگر چھُپ سکتا ہے نہ زیادہ عرصے تک اس میں رنگ آمیزی کرکے اپنے مفادات سمیٹے جا سکتے ہیں۔ زیر نظرکتاب بھی بھٹو صاحب اور اُن کی پیپلز پارٹی کے اوّلین بانیان کے بارے میں کچھ ایسا ہی سچ بولتی محسوس ہوتی ہے۔

اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں جب پاکستان کے وزیرخارجہ زیڈ اے بھٹونے اپنے صدر جنرل ایوب خان سے بغاوت کرکے لاہور میں پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھیں تواُس وقت پاکستان،روس، چین اور امریکہ کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کس کشمکش سے گزر رہی تھی؟اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایوب خان نے بھٹو صاحب کو سیاسی پارٹی نہ بنانے کے عوض میں کیا کیا لالچ دئیے تھے؟ اگر آپ یہ کھوج لگانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی کون کون سی مذہبی شخصیات اور دین کے نام پر سیاست کرنے والی کونسی جماعتیں بھٹو کی کیوں مخالفت کر تی رہی ہیں؟

اگر آپ یہ راز جاننا چاہتے ہیں کہ بھٹو بامِ عروج پر پہنچ کر کیونکر زوال کا شکار اور پھر اقتدار کے ساتھ زندگی سے کیوں محروم ہوُئے؟ اگر آپ اس امر کے متمنی ہیں کہ پاکستان میں کون کون سے روس اور چین نوز دانشور کیوں اور کیسے باہم دست و گریباں ہُوا کرتے تھے اور اُنہیں کونسی عالمی طاقتیں کیوں مالی امداد فراہم کرتی تھیں؟اگر آپ یہ حقائق جاننا چاہتے ہیں کہ عالمِ عرب کے کن دو ممالک نے پاکستان کے خلاف کیا خونی منصوبے بنائے؟اگر آپ جنرل ضیاء کے اندازِ حکمرانی اور اُن کی بھٹو دشمنی کے اصل حقائق سے شناسائی چاہتے ہیں۔

اگر آپ یہ جاننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے کون کون سے لوگ 70ء اور80ء کے عشرے کے دوران برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کر کے کیاکیا کرتے رہے ہیں؟ اگر آج کا طالبعلم یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ بھٹو دَورمیں اسلام آباد کی کونسی یونیورسٹی کیونکر مذہب مخالفوں کا مرکز بن گئی تھی؟ اور اگر آپ پیپلز پارٹی کے قائدین: غلام مصطفیٰ کھر، غلام مصطفیٰ جتوئی، حنیف رامے اور بے نظیر بھٹو کے اصل نظریات سے واقفیت چاہتے ہیں تو آپ کو چھ سو سے زائد صفحات کی حامل یہ دہکتی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ یہ کتاب پاکستان کے کئی صحافیوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔

اِس کتاب کا نام ہے: ’’باہر جنگل، اندرآگ۔‘‘ جناب علی جعفر زیدی اِس کے مصنف ہیں۔ یہ تصنیف اُن کی سیاسی خود نوشت سوانح حیات بھی کہلانے کی مستحق ہے۔ زیدی صاحب آجکل لندن میں رہتے ہیں۔ وہ جنرل ضیاء کی مو ت سے چار سال قبل پاکستان سے نکل کر برطانیہ چلے گئے تھے۔ تب سے اب تک وہیں ہیں۔ اُن کی زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی اور پولینڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

ایک دَور میں پاکستان میں ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے معروف پرچارک جریدے ’’نصرت‘‘ (جس کے بانی مدیر حنیف رامے تھے) کے وہ کئی برس ایڈیٹر بھی رہے۔ اور جب پاکستان پیپلز پارٹی کا اپنا اخبار (مساوات) جاری ہُوا تو اس کے پانچ مالکان (یا بورڈ آف ڈائریکٹرز) میں سے ایک زیدی صاحب بھی تھے۔ علی جعفر زیدی صاحب کی آنکھوں کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھی گئیں اور اُن کے سامنے، بقول اُن کے، بھٹو صاحب ’’اپنے نظریات سے پھِر‘‘ گئے اور غریبوں کے نام پر اختیار و اقتدار حاصل کرنے والے زیڈ اے بھٹو اُن کے سامنے ’’سامراج کے نمائندوں اور جاگیرداروں میں گھِر کر بکھر گئے۔‘‘ یہ سنسناتی کتاب پڑھتے ہُوئے سانسیں بار بار رُکتیں اور دل کی دھڑکنیں بار بار بے ترتیب ہوتی ہیں۔

لندن میں بیٹھے پیپلز پارٹی کے گھر کے بھیدی علی جعفر زیدی کی تصنیف ’’باہر جنگل، اندرآگ‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ: بھٹو صاحب قوم پرست لیڈر اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تو تھے ہی، وہ اپنے خاندان اور اہلِ خانہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے اور اُنہیں ہی سماجی طور پر اوّلین ترجیح دیتے تھے۔ ’’پیپلز پارٹی‘‘ نام کی سیاسی جماعت بنا کر دراصل اُنہوں نے اپنے والدِ گرامی (سر شاہنواز بھٹو) کی سیاسی کوششوں کو امر کر دیا تھا کہ جناب شاہنواز بھٹو بھی پاکستان بننے سے کئی سال قبل ’’پیپلز پارٹی‘‘ کے نام کی اپنی ایک سیاسی جماعت بنا چکے تھے۔

بھٹو صاحب نے اپنی بڑی صاحبزادی کا نام ’’بے نظیر‘‘  بھی اسلئے رکھا تھا کیونکہ اُن کی ایک ہمشیرہ محترمہ کا نام بھی بے نظیر تھا جو دراصل اوائلِ جوانی میں انتقال کر گئی تھیں۔ زیڈ اے بھٹو نے اپنے دونوں صاحبزادگان کے نام بھی اپنے والد صاحب اور دادا جان کے ناموں کی یاد میں رکھے۔ اِس کتاب کے مصنف، علی جعفر زیدی ، ہمیں بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے دادا میر غلام مرتضیٰ بھٹو نے بھی ایک بار کابل میں سیاسی پناہ لی تھی اور برسہا برس بعد اُن کے اپنے دونوں بیٹوں (مرتضیٰ اور شاہنواز) نے بھی کابل ہی میں سیاسی پناہ لی اور کابل میں بیٹھ کر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف مورچہ لگایا۔

اِسی سلسلے میں علی جعفر زیدی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں یوں رقمطراز ہیں:’’بھٹو صاحب نے اپنے آخری خط میں (اپنے بڑے بیٹے) میر مرتضیٰ بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو کابل چلے جانا۔ وہ پاکستان کے قریب بھی ہے اور ( تشکیلِ پاکستان سے قبل) تحریکِ خلافت میں (مولانا) عبیداللہ سندھی (مرحوم) سمیت تحریک کے کئی رہنماؤں نے انگریز کے خلاف کابل میں ہی جلاوطن حکومت قائم کی تھی۔‘‘ (صفحہ 476)  مصنف زیدی صاحب نے اپنی تہلکہ خیز کتاب ’’باہر جنگل، اندر آگ‘‘میں دعویٰ کیا ہے کہ بھٹو کے صاحبزادگان نے کابل میں بیٹھ کر چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے دَور میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا نہیں کیا تھا ’’لیکن جب (مرتضیٰ اور شاہنواز کے قریبی ساتھی) سلام اللہ ٹیپو وغیرہ نے یہ حرکت کر لی تو بھٹو کے بیٹوں کو یہ ذمہ داری قبول کرنا پڑی۔‘‘

علی جعفر زیدی لکھتے ہیں، سلام اللہ ٹیپو اور پاکستان کی قومی ائر لائن کا طیارہ ہائی جیک کرنے والے اُس کے دونوں ساتھی پُراسرار لوگ تھے۔ وہ شک اور تہمت کا اظہار کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ ہائی جیکر ٹیپوکو پاکستانی ایجنسیوں کی اعانت حاصل تھی کہ اس سانحہ کا سہارا لے کر جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی سمیت پاکستان میں بہت سے اپنے مخالف سیاستدانوں کو خوب رگڑا دیا اور ضیاء مخالف اتحاد (ایم آر ڈی) کی کمر بھی توڑ دی۔ زیدی صاحب کے بقول، بے نظیر بھٹو نے طیارہ اغوا کرنے کی واردات کی سخت مخالفت کی تھی۔

اس سلسلے میں علی جعفر زیدی صاحب اور جناب بشیر ریاض ( جو بی بی شہید کے نہایت معتمد ساتھی رہے ہیں) کی یادداشتوں (جو ’’بے نظیر یادیں‘‘ کے زیر عنوان شائع ہو چکی ہیں) میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ زیدی صاحب نے اپنی محولہ بالا کتاب میں ریاض بشیر صاحب کاکئی جگہ اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد کئی لوگ بھٹو کی مظلومیت کے نام پر برطانیہ میں سیاسی پناہ لے کر دراصل  پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کے خلاف کام بھی کر رہے تھے اور اُن کی جاسوسی بھی کرتے تھے۔بعض بڑے ناموں کا تذکرہ تو ہمیں ششدر کر دیتا ہے۔بھٹو کی پھانسی کی یاد میں علی جعفر زیدی کی اِس کتاب کا مطالعہ بہت سے اشکالات رفع کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔