غیر ملکی افواج کی شرکت  ’’سپر پاور پاکستان‘‘ کی نئی قرار داد ہے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 3 اپريل 2017
دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’23 مارچ کی پریڈ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’23 مارچ کی پریڈ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

23مارچ 2017ء کو ملک بھر میں 77واں یوم پاکستان انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ اس روز حیران کن بات یہ تھی کہ غیر ملکی مسلح افواج کے دستوں نے بھی پاکستانی افواج کے ساتھ ملکر شاندار پریڈ کا مظاہرہ کیااور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاکر پاکستانی عوام کے دل موہ لیے۔

چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے فوجی دستے نے کسی دوسرے ملک کی قومی تقریب میں حصہ لیا جبکہ ترکی کے سلطنت عثمانیہ کے دور کے ’’مہتر‘‘ ملٹری بینڈنے بہترین پرفارمنس دی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی مسلح افواج کے دستے اور جنوبی افریقہ کی فوج کے سربراہ سمیت دیگر غیر ملکی عسکری و سفارتی وفود نے بھی بھرپور شرکت کی۔ یوم پاکستان کے حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی تقریبات ہوئیں جبکہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر دبئی میں موجود دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج الخلیفہ کو پاکستانی پرچم میں مزین کیا گیا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا بہتر امیج قائم ہوا۔

غیر ملکی افواج کی یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت اور دنیا بھر میں اس حوالے سے ہونے والی تقریبات پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشیں کرنے والوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ’’یوم پاکستان کی پریڈ میں غیر ملکی عسکری سربراہوں اور دستوں کی شرکت‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںدفاعی و سیاسی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ کار)

دشمن نے ہماری نظریاتی سرحدوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ ہمیں عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے نظریہ پاکستان کو دشمن نہیں بلکہ ہم خود تنہا کر رہے ہیں اور ہمارے اپنے ہی لوگ دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ ہمیں اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ ہم مذہب کے نام پر ریاست کی بات کررہے ہیں اور اپنی خواتین کو بے حجاب اور برہنہ بازاروں میں پھرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ یہ پاکستان دشمن سوچ ہے جسے فروغ دیا جارہا ہے۔

23مارچ 1940ء کی قرارداد ایک واضح پیغام تھا کہ نظریہ پاکستان ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی ریاست میں مقید کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دشمن اور دہشت گردوں نے کوشش کرکے دیکھ لی، ہم نے پاکستان کو جغرافیائی صورت دے کر نہ صرف اس نظریے کو عملی جامہ پہنایا بلکہ اب ہم ان نظریاتی سرحدوں پر ہونے والے حملے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہوگیا کہ پاکستان کیوں بنا اور اگر پاکستان نہ بنتا تو ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔ اتر پردیش میں بھی ان کی کامیابی کے بعد سے وہاں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ، اس سے نظریہ پاکستان مزید مضبوط ہوا ہے۔ مودی جس راہ پر چل نکلے ہیں ہمیں اس سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ اس سے بھارت کو تو نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آجائے۔

1971ء کی جنگ کے بعد اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے بنگال میں دو قومی نظریہ دفن کردیا، یہ لوگ دو قومی نظریہ کو نہیں مانتے تھے مگر اپنے اس بیان سے انہوں نے دو قومی نظرے کو تسلیم کیا اور میرے نزدیک اُس دن دو قومی نظریہ ایک بار پھر زندہ ہوا اور اب نریندر مودی نے اپنے اقدامات سے یہ ثابت کردیا کہ دو قومی نظریہ بالکل درست تھا۔ ہمں ڈرنے کی نہیں بلکہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی مگر ہمیں اپنے لوگوں سے خطرہ ہے۔

دنیا پاکستان کو جانتی ہے اور اسکی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ایٹمی دھماکے کے بعد تین سال تک ہم پر پابندیاں لگا دی گئیں مگر پاکستان پھر بھی چلتا رہا۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جوبے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اگر ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں تو دنیا بھوکی مر جائے گی۔ ہم نے سوویت یونین کو روکنے اور خود کو مضبوط کرنے میں اپنی نسلیں گنوا دیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سی پیک کے ذریعے چین، پاکستان پر احسان نہیں کررہا بلکہ پاکستان، چین پر احسان کررہا ہے۔

دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے ، چین، ترکی، سوویت یونین ہمارے پاس آرہے ہیں، جنوبی افریقہ کے چیف یہاں آئے ہیں لہٰذاپاکستان کو اپنی طاقت کا ادراک کر کے وسائل کا صحیح استعمال کرنا ہو گا۔23مارچ کو پاکستانی قوم کی جانب سے یہ واضح پیغام تھا کہ پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیااس کے ساتھ کھڑی ہے ۔ہمیں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان وغیرہ سے باہر نکلنا چاہیے اور میثاق پاکستان ہونا چاہیے۔اس حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت کوپوری قوم کو اعتماد دینا چاہیے۔

سلمان عابد (سیاسی تجزیہ کار)

23مارچ کا دن ہر سال منایا جاتا ہے لیکن رواں برس اس کے دو مختلف پہلو سامنے آئے ہیں۔ ایک پہلو تو ہماری علاقائی اور عالمی سیاست کا ہے جس میں ایک ایسا گروپ ہے جو پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش کررہا ہے۔ اس گروپ میںبھارت، افغانستان، امریکا اور دیگر ممالک شامل ہیں جو سی پیک کے بعد ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ سوچ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے ، دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گیا ہے، یہاں لاقانونیت ہے اور ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔

ایسی صورتحال میں لوگوں کو 23مارچ کے حوالے سے موبلائز کرنابہت اہم ہے کیونکہ اس سوچ کو فروغ دینا بہت ضروری تھا کہ پاکستان ناکام ریاست نہیں ، اگرچہ مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان ان تمام حالات میں جس طرح آگے بڑھ رہا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ جس انداز میں ہم نے دہشت گردی کی جنگ لڑی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور اس کا کریڈٹ سیاسی قیادت اور فوج کو جاتا ہے۔ 23مارچ کے حوالے سے دوسرا پہلو لوگوں کے اندر جذبہ اوریہ سو چ پیدا کرنا تھا کہ ہمیں پاکستان کی بقاء، خود مختاری اور سلامتی کے لیے کھڑا ہونا ہے۔

سرکاری سطح پر تو یہ دن منائے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ سیاسی و فوجی قیادت کے ذہن میں یہ پلان تھا کہ ہم نے 23مارچ کو اس انداز میں منانا ہے کہ قوم کے اندر ایک نئی روح پھونکی جاسکے۔ جس طرح آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ’’رد الفساد‘‘ شروع کیا گیا جسے ختم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، اسی طرح ایسا لگتا ہے کہ 23مارچ کی حالیہ تقریبات کے حوالے سے بھی خاص منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے دستوں اور بینڈ کی پریڈ میں شرکت سے یہاں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے۔جہاں دشمن قوتیں بھارت، افغانستان اور امریکہ پاکستان کوعالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں وہیں 23 مارچ کی پریڈ میں چین، ترکی، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کے فوجی دستوں کی شرکت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تنہا نہیں ہے بلکہ دوست ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ہم تنہا ہوتے تو بیرون ممالک سے لوگ یہاں شرکت نہ کرتے، پاکستان زندہ باد کے نعرے نہ لگاتے اور نہ ہی مختلف دھنوں کے ذریعے پاکستان کا مثبت تاثر قائم کرتے۔

میرے نزدیک اس کا کریڈٹ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت کو بھی جاتا ہے اور اس میں آرمی چیف کی بہترین ملٹری ڈپلومیسی بھی نظر آئی جس سے دنیا میں اتحاد کا پیغام گیا۔ ملک بھر میں یوم پاکستان کی تقریبات سے قوم میں ایک نیاجو ش وولولہ پیدا ہوا ہے۔ 23مارچ تو ہم ہر سال مناتے ہیں مگر میرے نزدیک یہ وقت کی ضرورت تھی کہ اس دن کو انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے اور اس کا کریڈٹ میڈیا کو بھی جاتا ہے۔

23مارچ کے دن جس طرح عوام نے یگانگت، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ قابل دید تھا جبکہ نوجوانوں نے بھی انتہائی جوش و خروش سے یہ دن منایا۔ اس دہشت زدہ ماحول میںعوام کو دوبارہ کھڑا کرنے کیلئے اس طرح کے اقدامات ناگزیر تھے لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ابھی تک ہمارے چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔ بات علاقائی سیاست کی ہو یا داخلی معاملات کی، ہماری سیاسی و عسکری قیادت اور اس ملک کو چیلنجز درپیش ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں اسی موبلائزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پرپالیسی مرتب کرنی چاہیے۔

اگر ہم اپنی قوم کے اس پوٹینشل کو صحیح طریقے سے اپنی سیاسی ، سماجی و معاشی حکمت عملی اور داخلی و خارجی پالیسی میں نہیں جوڑیں گے ہمیں مثبت نتائج حاصل نہیں ہوگے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ محض نعروں اور اس طرح کے دن منانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہ جوش صرف ایک دن تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے مستقل بنیادوں پر لیکر آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں اپنی قوم کو اور خاص کر تعلیمی اداروں میں نواجوان نسل کو تاریخ سے روشناس کرانا چاہیے تاکہ انہیں علم ہو کہ ہماری تاریخ کیا ہے اور ہم کیوں اس طرح کے دن منا رہے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے میں ایک سطح پر بہت زیادہ مایوسی پیدا کرتے ہیں۔

ہمیں امید پیدا کرنے کیلئے نواجون نسل کو سفیر کے طور پر لینا چاہیے لیکن اس کے لیے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا، انہیں آگاہی اور علم دینا ہوگا اور قومی دنوں کے حوالے سے ان کے لیے مختلف سرگرمیوں کے ذریعے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ دشمن جو ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں لوگوں کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنانی چاہیے۔

پہلے ہمیں صرف بھارت سے مسئلہ تھا مگر اب افغانستان بھی ہمارے لیے ایک مسلسل درد سر بن گیا ہے جو دہشت گرد یہاں آتے ہیں ، ان کا کسی نہ کسی طرح افغانستان سے تعلق نکلتا ہے اور افغانستان کے پیچھے بھارت کی سرپرستی نظر آتی ہے۔ ہمیں ان معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا اورا س کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی داخلی سیاست کومستحکم کریں۔ 23مارچ پر تمام سیاستدان ایک ہونے کے دعوے کرتے رہے لیکن 24مارچ کو وہی سیاستدان الزام تراشی اور پرانے طور طریقے اپنائے ہوئے نظر آئے۔

دشمن پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے اسکا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اہل سیاست ذاتی مفاد اور الزام تراشی کے بجائے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کریں اورقوم کو متحد کرنے میں اپنا فعال اور موثر کردار ادا کریں کیونکہ اتفاق رائے سے ہی دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ سارا کام حکومت کا نہیں ہوتا بلکہ اپوزیشن جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔

پاکستانی قوم کو پنجابی، پختون، بلوچ، مہاجر و دیگر چیزوں پر الجھایا جارہا ہے، اس سے کبھی بھی یکجہتی پیدا نہیں ہوگی بلکہ دشمن اس کا فائدہ اٹھائے گا۔ دشمن کی حکمت عملی ہے کہ اس قوم کو مختلف خیالات میں تقسیم کیا جائے کیونکہ قوم جتنی زیادہ تقسیم ہوگی اتنا زیادہ اس کا فائدہ ہوگا۔ اگر قوم میں اتفاق رائے ہوگا تو ہم دشمن کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکیں گے۔

ڈاکٹر امجد مگسی (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ پاکستان سٹڈیز جامعہ پنجاب)

قوموں کی زندگی میں چند دن اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہی خاص دن قوموں کے نظریات، مقاصد اور منازل کا تعین کرتے ہیں جنہیں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ 23مارچ 2017ء کے حوالے سے بات کریں تو ایک ماہ قبل فروری کے دوران ملک میں بم دھماکے ہوئے اور دشمن نے ہمیں نقصان پہنچانے اور ڈرانے کی کوشش کی لیکن اس کے جواب میں جس طرح عسکری اور سیاسی قیادت نے مل کر نہ صرف پاکستانی عوام کو وحدت کا پیغام دیا بلکہ عالمی برداری کو بھی پیغام دیا کہ ہم جوانمردی سے مسائل کا مقابلہ کررہے ہیں۔

اس پریڈ میں چین، سعودی عرب و ترکی کے فوجی دستوں اور جنوبی افریقا کے چیف کی شرکت سے پاکستان کے تنہا ہونے کا تاثر زائل ہوگیا ۔ دنیا کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیا کی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ 1940ء میںبھرپور قومی وحدت کا پیغام دیا گیا، اس وقت بکھرے ہوئے گروہوں نے قائد اعظم ؒ کی قیادت میں ایک قوم کی شکل اختیار کی جس کے نتیجے میں 7سال کے عرصے میں ہی انگریز کو شکست دے کر ایک آزاد وطن حاصل کر لیا گیا۔ آج بھی یہ قرار داد پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم متحد ہیں اورکسی بھی چیلنج کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قرارداد پاکستان کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم متحد رہیں تو ہم اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس قرارداد میںقومی وحدت کے راز بتائے گئے کہ کس طرح سے ہمارے صوبے ہوں گے، وفاقی اکائیاں ہوں گی ، کس طرح سب کو آپس میں ملانا ہے اور خاص کر اقلیتوں پر بہت زور دیا گیا کہ انہیںا ن کی منشاء کے مطابق قومی وحدت میں لایا جائے گا۔ اس وقت ملک سے تعصب کی سوچ کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مستحکم پاکستان کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہو گا جب ہم اپنے معاشرے سے انتہا پسندانہ سوچ اور تعصب کا خاتمہ کریں گے۔ اس کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، عوام غرض کے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نصاب میں تبدیلیاں لائی جائیں اور سیاسی طور پر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے قومی وحدت پیدا ہو اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہوگی۔ ہمیںسیاسی ، معاشی اور مذہبی وحدت سے دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے اندرونی معاملات کو حل کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔

اس حوالے سے اگر بلوچستان، سندھ ، خیبر پختونخوایا کسی بھی صوبے کے لوگوں کو تحفظات یا محرومیاں ہیں تو سینیٹ، پارلیمنٹ و دیگر فورمز پر مسائل کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت ہم ایک نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے ایک طرف بھارت ،دوسری طرف افغانستان ہے جو بھارت کے تسلط میں ہے جبکہ تیسری طرف ایران ہے۔ 23مارچ کی پریڈ میں دیگر ممالک کی شرکت سے ہم نے اپنی خارجہ پالیسی بھی دنیا کے سامنے رکھ دی کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ہمیں محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہمارا دشمن ملک، ایران کی طرف سے بھی ہمارے لیے مسائل پیدا کردے۔

سعودی عرب اور یمن کا جو مسئلہ چل رہا ہے اس میں پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا، اب بھی ہمیں مسلمان ممالک کے باہمی مسائل کے خاتمے کے لیے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی علاقائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چلنا ہوگا۔پاکستان کو مسلم امہ کے مسائل کے حل کیلئے اسلامی ممالک کے ساتھ اتحاد کو یقینی بناکر بطور لیڈر اپنا کردار اداکرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی ان خطوط پر استوار کرنی ہو گی جس سے ہمارے زیادہ سے زیادہ دوست بنیں اور خطرات کم ہو جائیں۔ ہمیں کسی بھی پارٹی کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی ہمیں ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔

یوم پاکستان کے موقع پر منعقدہ پریڈ میں چین، ترکی، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کے فوجی دستوں اور عسکری سربراہان نے شرکت کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے موقف کی بھرپورتائید کی ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے متحد ہو کرآپریشن ’’ردالفساد‘‘ کی صورت میں بھرپور جواب دیا ہے۔ مستحکم اور خوشحال پاکستان وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بیرسٹر محمد علی گیلانی (چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن)

ایک قرارداد 1940ء میں پیش کی گئی جبکہ دوسری قرارداد 2017ء میں پیش کی گئی ہے۔ 1940ء میںپاکستان بنانے اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کی گئی جو مستقبل کا پیش خیمہ تھی۔ اس قراردار پر عمل کرکے برصغیر کے لوگوں نے پاکستان کی صورت میں اپنی منزل حاصل کی۔اب 77برس بعد 23مارچ کے روز ایک نئی قرار داد پیش کی گئی جس میں ہم نے ایک نئی جہت اور مستقبل کا لائحہ عمل دیا ہے۔ ایک ایسی پریڈ کا ہونا جس میں غیر ملکی افواج نے شرکت کی انتہائی اہم ہے۔ اس پریڈ کے ذریعے ہماری سیاسی و فوجی قیادت نے ایک نیا فیوچر پلان دیا ہے۔

23مارچ 1940ء میں پاکستان بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اب پاکستان کو سپرپاور بنانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ چین، سعودی عرب اور ترکی کی اہمیت کا اندازہ لگائیں تو ان سب کے تعاون سے دس برس کے بعد ہم بہت آگے ہو ں گے۔ جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ مالی وسائل کا حامل چین ہمارا دوست ہے جس کی ٹیکنالوجی سے بھرپور استعفادہ کیا جائے گا ۔جدید اسلحہ کے حوالے سے ہم نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ بھارت ابھی تک جنگی جہاز کا ایک پرزہ نہیں بنا سکا جبکہ ہمارے تیار کردہ جے ایف تھنڈرکا شمار دنیا کے پانچ بہترین جہازوں میں ہوتا ہے۔ ہماری بنائی گئی آبدوز کو امریکا کا حساس ترین ریڈار بھی نہیں پکڑسکتا۔

ہم نے غربت اور بھوک برداشت کرکے جدید ترین چیزیں بنائی ہیں۔ ہم نے ایسے مزائل بنا دیے ہیں جو ہمارا نیوکلیئر بم لیجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسرائیل تک مار کرسکتے ہیں۔ پاکستان اب ایک سپر پاور بننے جارہا ہے اور یہ قرارداد ہماری حالیہ پریڈ نے دی۔ سعودی عرب پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے جو40ممالک کی افواج کا سربراہ ہے جس سے یقیناًپاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چین سے جو ہم جدید ٹیکنالوجی لے رہے ہیں، اس کے لیے یہ چالیس ممالک ہماری مارکیٹ ہیں۔

ہماری اس پریڈ میں براعظم افریقہ کے اہم ترین ملک جنوبی افریقہ نے شرکت کرکے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ افریقہ بھی اب ہماری مارکیٹ ہے ۔ پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات انتہا پسند مودی سرکار کے منہ پر طمانچہ ہے کیونکہ اس نے ایک بہت بڑا بجٹ پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے خرچ کیا ہے اور کررہا ہے جبکہ افغانستان میں بھی اس کا ہی پیسہ بول رہا ہے۔ بھارت نے وقتی طور پر نفرت پیدا کر دی ہے لیکن افغانوں کے دلوں میں ابھی بھی محبت باقی ہے۔

بھارت نے پیسہ پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے لگایا لیکن آج بھارت تنہا ہے جبکہ دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کچھ ماہ قبل مودی نے دبئی کا دورہ کیا اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ دبئی شاید گوادر کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہوگیا ہے اور بھارت سے دوستی بڑھا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے برج الخلیفہ پر پاکستان کا جھنڈا بناکر یہ تاثر ختم کردیا اور پاکستان سے دوستی کا اظہار کیا ہے۔ ایساپہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ملک میں پاکستان کا پرچم لہرایا گیا اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ چین کی فوج نے کسی ملک کی قومی تقریب میں حصہ لیا۔

وہ نسل جس نے 1940ء میں قرارداد پاس کی اور پاکستان بنایا اس میں سے شاید ہی اب کوئی موجود ہو لہٰذاحالیہ 23مارچ کو نئی نسل نے پاکستان کے سپر پاور بننے کی قرارداد پیش کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا، اگر بھارت ہمیں روک سکتا ہے تو روک لے۔ ہم مختلف فرقوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو تقسیم کیا جائے۔ ہمیں مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہونا پڑے گااور ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا ۔ اگر ہم متحد ہوگئے اور ادارے مضبوط ہوگئے تو 30ء کی دہائی میں پاکستان ایک سپر پاور ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔