رئیسانی سے پہلی اور آخری ملاقات

نصرت جاوید  منگل 15 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں نواب اسلم رئیسانی کو اپنی زندگی میں صرف ایک بار ملا ہوں اور اس کے بعد دوبارہ ملنے کی کبھی حسرت نہیں رہی۔ اپریل 2009 کا قصہ ہے۔ تربت شہر میں ایک عدالت کے سامنے پیش ہونے کے بعد اس شہر کے تین سیاسی کارکن اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ انھیں بھری دوپہر میں وہاں کے شاندار چوک سے اغواء کر لیا گیا۔ بہت سارے عینی شاہدین حلفاََ ٹی وی کیمروں اور تفتیشی افسروں کے سامنے دعویٰ کر رہے تھے کہ انھیں اغواء کرنے والوں کا تعلق ایک ریاستی ادارے سے دکھ رہا تھا۔ حقیقت خواہ کچھ اور ہو مگر چند ہی دن بعد ان کی لاشیں ایرانی سرحد کے ایک بہت قریبی قصبے کے ویران صحراء میں پائی گئیں۔ پورے بلوچستان اور خاص کر اس کے ساحلی شہروں میں طوفان برپا ہو گیا۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پر آ کر ان تین افراد کے اغواء کے بعد قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے صاف اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگی۔

19 اپریل کی صبح پی آئی اے کی ایک پرواز کے ذریعے میں کراچی سے تربت پہنچ گیا۔ اس شہر میں میرے جیسے صحافیوں کے قیام کے لیے مناسب صرف ایک ہوٹل ہے۔ اس کی طرف بڑھ رہا تھا تو تربت کے شاندار چوک پر ایک بڑا ہجوم نظر آیا۔ میں ہوٹل جانے کے بجائے وہاں چلا گیا۔ اس چھوٹے قصبے میں پانچ ہزار کے قریب کا ہجوم بہت بڑا دِکھ رہا تھا۔ میرے لیے زیادہ حیران کن بات مگر یہ تھی کہ اس ہجوم کی بے پناہ اکثریت 18 سے 30 سال کے درمیان والی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔

اس سے بھی زیادہ حیرانی مجھے اس بات پر ہوئی کہ نوجوانوں سے کہیں زیادہ متحرک اور مشتعل 300 سے زیادہ کی تعداد میں وہ لڑکیاں تھیں جن میں سے کسی ایک کی عمر بھی 30 سال سے زیادہ نہ دِکھ رہی تھی۔ بلوچستان کی ثقافت کو تھوڑا بہت جانتے ہوئے میں ان بچیوں کی تعداد سے بہت متاثر ہوا۔ اس سے کہیں زیادہ پریشانی مجھے یہ سوچ کر محسوس ہوئی کہ یہ بچیاں کل کو مائیں بن کر اپنے بچوں کو پاکستان، اس کی ریاست اور یہاں کے حکمران طبقات کے بارے میں کیا قصے سنائیں گی۔ یہ سب سوچنے کے بعد میرا دل لرز کر رہ گیا۔ اس سے بھی کہیں زیادہ صدمہ مگر اس وقت ہوا جب بطور ایک رپورٹر کے میں نے ان کی داستان سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جس بچی سے بھی بات کرنا چاہی اس نے سختی سے انکار کر دیا۔

پھر میں ایک اور بچی کے پاس گیا جو اپنے رویے سے ان بچیوں کی رہ نما ٹائپ لگ رہی تھی۔ میں نے اس سے تعارف کرانا چاہا تو ایک زخمی کبوتری کی طرح وہ پھڑک کر بولی کہ وہ جانتی ہے کہ میں کون ہوں اور اسی لیے مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ ’’آپ پنجابی ہو اور پنجابی کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘‘ وہ آواز بلند کیے بغیر بڑبڑاتی رہی۔ اس کے نقاب والے چہرے پر کھلی آنکھوں میں اگرچہ مجھے اپنے لیے تھوڑا احترام بھی نظر آیا۔ اس احترام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اسے یاد دلایا کہ بلوچستانی مسافروں سے شفقت برتا کرتے ہیں اور اپنے بڑوں کا احترام بھی۔

میں اس کے شہر میں اجنبی ہوں۔ میرا اس کے پاس آنا واضح طور پر بتاتا ہے کہ میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کی داستان سننا چاہتا ہوں۔ بطور صحافی میں نے اس سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اور اس کی ساتھی مجھے جو کچھ بتائیں گی، میں اسے پوری دیانت داری سے اپنے پڑھنے اور دیکھنے والوں کو بتا دوں گا۔ اسی طرح کے اور کئی تجربات مجھے تربت اور گوادر میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران سہنا پڑے۔

میں ان سارے تجربات کے ساتھ کوئٹہ ایئرپورٹ اتر کر سیدھا وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچا تھا۔ وہاں اپنے دفتر میں نواب رئیسانی وزیر اعلیٰ کی مخصوص کرسی اور میز پر نہیں بلکہ مہمانوں کے لیے رکھے ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ ان کے ارد گرد تین چار چمچے قسم کے صوبائی وزیر اور افسر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے انگوروں، سیبوں اور مختلف قسم کے میوہ جات سے بھرے طشت رکھے تھے اور وزیر اعلیٰ کے مہمان ان لوازمات سے بہت لطف اندوز ہوتے نظر آ رہے تھے۔ رئیسانی نوابوں کی طرح اپنے صوفے پر نیم دراز تھے۔

ان کے ہاتھ میں موٹے موٹے عقیقوں کی تسبیح تھی۔ وہ اس کے دانوں سے کھیلتے ہوئے مجھ سے میرے سفر کا احوال سنتے رہے۔ پھر وہ چپ ہو گئے۔ انگوروں کا ایک گچھا اٹھا کر میری طرف بڑھایا۔ میں نے تکلفاََ ایک دو دانے لے لیے۔ انھوں نے ایک بڑا سا خوشہ توڑا اور اسی کے دانے دانے کو بڑے سکون اور مزے سے نگلتے رہے۔ پھر انھوں نے اپنی آنکھیں چھت پر ٹکا دیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ میری باتیں سن کر پریشان ہو گئے ہیں یا کسی اور وجہ سے مراقبے کی کیفیت میں چلے گئے۔ تھوڑے انتظار کے بعد ا نہوں نے میری طرف نیم باز آنکھوں سے دیکھ کر بڑی تشویش سے پوچھا: ’’مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ میرا دل بے اختیار چاہا کہ انھیں جھنجھوڑ کر بتائوں کہ جناب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ آپ ہیں۔ میں غریب صحافی تو خود یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ تربت میں پھیلے غصے کو کیسے دور کریں گے۔

خود پر بڑا جبر کر کے لیکن میں نے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے تمام تر غصے کے باوجود بلوچستان کے ساحلی شہروں میں رہنے والی اکثریت اب بھی ہماری آزاد عدلیہ پر تھوڑا بہت اعتماد کرتی ہے۔ وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ ہائیکورٹ کا کوئی جج تربت سے اغواء ہونے والے لوگوں کا معمہ حل کرے۔ میری بات سن کر انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں چھت پر ٹکا دیں۔ پورے ماحول میں مودبانہ خاموشی پھیل گئی۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے مجھے دوبارہ دیکھا اور پوچھا: ’’مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ میں نے پہلی کہی باتوں کو تفصیل سے مگر اس بار ذرا شدت سے دہرایا اور کہا کہ مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ تربت سے اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کے قصے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ میری بات سن کر انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں چھت پر ٹکا دیں اور ایک اور طویل مراقبے میں چلے گئے۔

شاید وہ کچھ دیر اور اپنے ’’دھیان‘‘ میں مسحور رہتے مگر ایک اسٹاف افسر ان کے کمرے میں دبے پائوں داخل ہوا اور انھوں نے غلامانہ دھیمی آواز میں بتلایا کہ تھوڑی دیر پہلے سینیٹ کے ایک اجلاس میں دھواں دار تقریر کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ تربت سے اغواء کرنے کے بعد قتل کر دیے جانے والے لوگ ’’غیر ملکی ایجنٹوں‘‘ کی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے مگر ’’بدقسمتی سے‘‘ بلوچستان کی کچھ سیاسی جماعتیں اس واقعے کو پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ رئیسانی صاحب نے یہ سب سن کر میری طرف دیکھا، میں خاموش رہا۔ نواب صاحب اُٹھے اور کہا کہ وہ اب اس قصے کی بابت کوئی بات نہیں کریں گے۔ ہاں مجھے اپنے کوئٹہ کے قیام کے دوران کوئی تکلیف ہو تو انھیں ضرور آگاہ کروں۔ وہ میری مشکل آسان کرنے کو ہمہ وقت میسر ہوں گے۔ میں نے ان کے اس وعدے کو اس دن کے بعد سے کبھی نہیں آزمایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔