یہ کہانی کب ختم ہوگی؟

زاہدہ حنا  منگل 4 اپريل 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

4 اپریل ایک دن پہلے گزری ہے۔ 1979 کی اس تاریخ کوایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اور رات کے اندھیرے میں دفن کردیا گیا۔ یہ وہ شخص تھا جو ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں کو واپس لایا تھا اور وہ ایٹمی پروگرام جس پر 95 فیصد پاکستانی ناز کرتے ہیں، اس کی بنیاد اسی نے ڈالی تھی۔ اس کی یہ تمام وطن پرستی ایک طرف لیکن مشکل یہ تھی کہ اقتدار پر بالادست ملٹری اور سول بیوروکریسی ملک میں جمہوریت کو پنپنے دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس کے خیال میں یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ یہاں جمہور اور مزدور کی حکومت ہو۔ وہ اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید نے جنرل ایوب کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور یہاں سے سیاست شروع کی۔ وہ ایک ذہین اور زیرک انسان تھے، ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کی نظر تھی۔ وہ برسوں جنرل ایوب کی کابینہ میں شامل رہے لیکن 1965ء کی جنگ کے بعد جب انھیں جنرل ایوب کے چنگل سے نجات اور ملک میں سیاست کو متحرک کرنے کا راستہ نظر آیا تو وہ انقلابی انداز میں الگ ہوئے اور لوگوں کے سینے میں جبرو استبداد کے خلاف غصے کا جو آتش فشاں ابل رہا تھا، وہ پھٹ پڑا اور بھٹو نے اپنی پُر جوش انقلابی سیاست میں اسے راہ دی۔ بھٹو ایک ایسے شعلہ گفتار اور سیماب صفت رہنما تھے جس نے مغربی پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگادی۔ ملک کے مغربی اور مشرقی بازو میں آمریت کے خلاف ابھرنے والی تحریک نے ایوبی آمریت کو ہلا کر رکھ دیا اور انھیں مجبوراً اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا اور ملک میں پہلے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔

دسمبر 70 کے انتخابی نتائج کے مطابق عوامی لیگ کے شیخ مجیب کو ملک کا وزیراعظم ہونا تھا لیکن شیخ مجیب کے برسر اقتدار آجانے کا مطلب یہ تھا کہ پس پردہ حکومت کرتی ہوئی اشرافیہ ہمیشہ کے لیے جمہور کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے وہ تمام طریقے اختیار کیے گئے کہ مشرقی پاکستان کے عوام اپنا راستہ الگ کرلیں اس میں کچھ سیاسی کوتاہی بھٹو صاحب کی بھی تھی جنہوں نے شیخ مجیب کا ساتھ دینے کے بجائے حکمران فوجی آمریت سے نرم رویہ اپنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا برسر اقتدار آنا بھی اس لیے ممکن ہوسکا تھا کہ دسمبر 71 میں آمریت نے خاک چاٹی تھی، ملک دو لخت ہوا تھا، ایک مرتبہ سہی لیکن عوام نے چند منٹ کی وہ فلم بھی دیکھ لی تھی جس میں جنرل نیازی، ہندوستانی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ اس پس منظر میں یہ ممکن نہ تھا کہ فوری طور پر نوزائیدہ جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے۔

اس وقت پاکستانی انتظامیہ کو اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بھٹو صاحب ایک منتخب جمہوری رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کریں، ہندوستانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے مکالمہ کریں، 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو واپس لائیں اور عوام کے اندر جو شکست خوردگی تھی، اسے بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت ایک نئی امید اور نئے ولولے میں بدل دے۔ چار برس کی مدت میں بھٹو صاحب سے جب یہ تمام کام لیے جاچکے اور اس کا امکان پیدا ہوا کہ اگر ایک شہری حکومت ملک میں راسخ ہوگئی تو ملٹری اور سول بیورو کریسی کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، تب وہ کھیل کھیلا گیا جس نے سالہا سال کے لیے ملک میں جمہوریت کے چراغ بجھادیے اور ملک کی سب سے کرشماتی سیاسی شخصیت کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔

اب معاملہ بھٹو صاحب کو نہ صرف منظر سے ہٹانے کا تھا بلکہ انھیں ہدف بنا کر جمہوریت کو ذلیل ورسوا کرنا بھی مقصود تھا۔ 1977ء میں ان کی معزولی سے لے کر 4 اپریل 1979کو ان کی پھانسی تک تمام ’مرحلے‘ خوش اسلوبی سے طے کیے گئے اور ہمارے لیے جمہوریت ایک بار پھر ناقابلِ رسائی خواب بن گئی۔ اس کے بعد سے آج تک عوام اور جمہوریت کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے بیان کرنا اس لیے لاحاصل ہے کہ وہ تمام مرحلے ہر باشعور پاکستانی کو مکمل تفصیل سے یاد ہیں۔

آج یہ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھٹو صاحب جنرل ایوب کی حکومت سے علیحدہ ہوکر اپنی پُرجوش اور انقلابی سیاست کررہے تھے، اس وقت بھی مختلف حلقوں سے یہ بات کہی گئی کہ بھٹو صاحب کو ایک جمہوری رہنما کیسے تسلیم کیا جائے، وہ تو جنرل ایوب خان کے ’پروردہ‘ ہیں، ان کا بھلا جمہوریت سے کیا تعلق۔ وہ ایک ایسا پُر ہنگام زمانہ تھا جب یہ بات آگے نہ چل سکی اور یہ بھی تھا کہ ان کے جوشیلے جیالوں نے مزاحمت کی وہ شاندار تاریخ رقم کی جس کی اس سے پہلے پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ یہاں میں اس کا ذکر نہیں کرتی کہ مشرقی پاکستان میں اپنے جمہوری حقوق کے لیے لڑنے والے بنگالیوں نے اپنے خون سے غسل کیا لیکن ہمارے یہاں ان باتوں کی پروا کسے تھی۔ پروپیگنڈا مشین 24 گھنٹے کام کررہی تھی۔ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والے تمام بنگالی ’غدار‘ اور ’ہندوستانی ایجنٹ‘ تھے۔

بات بہت پیچھے چلی گئی۔ اصل مقصد اس بات کو اجاگر کرنا تھا کہ پاکستان میں آغاز سے ہی سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو ہر ہر قدم پر نا اہل اور ناکارہ ثابت کیا گیا۔ اس زمانے کے اخبارات پر اگر ایک سر سری نظر ڈالی جائے تو ان خبروں کی کمی نہیں جن میں سیاستدانوں کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو بہت بڑا خطرہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور سیاسی کارکنوں سے تھا۔ اسی لیے 9 مارچ 1951ء کو حکومت کی طرف سے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث افراد کے ناموں کا اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی چند فوجی افسر، سیاسی کارکن اور فیض صاحب جیسے ادیب اور شاعر گرفتار کیے گئے اور ان کے خلاف ملک سے غداری کا طویل مقدمہ چلا۔

ابتدا سے پاکستانی انتظامیہ کے ہاتھ کس قدر لمبے اور ان کے عزائم کتنے بلند تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 11 اگست 1947 ء کی جناح صاحب کی تقریر سنسر کردی گئی۔ اطلاعات و نشریات سے وابستہ افسرانِ بالا کا خیال تھا کہ بانی پاکستان کی یہ تقریر ملک کے نظریاتی وجود کو نقصان پہنچائے گی۔ ’’ڈان‘‘ کے بنگالی ایڈیٹر الطاف حسین کو داد دیجیے جنہوں نے جناح صاحب کی تقریر کی کتر بیونت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان افسران کو دھمکی دی کہ وہ فوراً جناح صاحب کے پاس چلے جائیں گے اور تمام معاملات ان کے گوش گزار کردیں گے۔ الطاف صاحب کے جتنے قریبی مراسم بانی پاکستان سے تھے، اس سے افسران بالا واقف تھے، اسی لیے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور وہ تقریر جو بانی پاکستان کی سب سے عمدہ تقریر کہی جاتی ہے، پاکستانی تاریخ میں محفوظ رہ گئی۔

سیاستدانوں کو نااہل اور بدعنوان ثابت کیے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ عوام کے جمہوری حقوق غضب کیے جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر وزیراعظم نااہلی کی بنیاد پر چند مہینوں بعد گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں برخاست ہوتا رہا۔ غلام محمد کا تعلق بیورو کریسی سے تھا، انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دن ایک معذور فرد کے طور پر گزارے اس کے باوجود ان کا حکم سب سے بالا تھا۔

وہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاستدان جو اس صوتحال سے نالاں اور بیزار تھے، جو سمجھ رہے تھے کہ یہ ملک میں سیاسی طاقتوں کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے، ان میں ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ تھی۔ ان جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی طرف سے عوامی حقوق کے لیے آوازیں اٹھتی رہتی تھیں۔

1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کا ایک اہم ہدف یہ متحرک اور با اثر سیاستدان تھے۔جنرل ایوب خان نے اقتدارپر قبضہ کرتے ہی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ وہ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان جو ون یونٹ کے خلاف تھے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا۔ 75 سرکردہ سیاستدانوں پر 8 برس تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی۔ وہ سیاستدان جن پر پابندی عائد ہوئی ان میں سر فہرست جی ایم سید، خان عبدالغفار خان، خان عبدالصمد اچکزئی، ولی خان، حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمن اور متعدد دوسرے رہنما تھے۔ یہی وہ مارشل لاء تھا جس کی نگرانی میں بائیں بازو کی سیاست کو کچلا گیا اور حسن ناصر شہید کیے گئے۔

حسن ناصر سے ذوالفقار علی بھٹو تک ایک ہی کہانی دہرائی گئی ہے جس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ جمہوریت کو کسی بھی صورت مستحکم نہ ہونے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جمہوری رہنماؤں کو ہلاک کیا جائے، انھیں قید میں رکھا جائے یا جلا وطن کیا جائے یا قانون کے ذریعے نا اہل قرار دلوایا جائے۔ یہ کہانی کسی نہ کسی رنگ میں آج بھی جاری ہے۔ یہ کہانی کب ختم ہوگی یہ کسی کو نہیں معلوم لیکن آخری انجام سے ہم باخبر ضرور ہیں جو یہ ہے کہ عوام اور جمہوریت کی حتمی فتح ناگزیر اور یقینی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔