جب کوئی واردات ہوتی ہے

عبدالقادر حسن  منگل 4 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک عمر گزر گئی لکھتے لکھاتے جو شاید آپ کی عمر کے برابر یا کچھ زیادہ ہی ہو اور میں تو کس قطار شمار میں یہاں تو لاتعداد لکھنے والے نہ جانے کتنے صفحے سیاہ کر گئے وقت نے ان کی تحریریں مدھم کر دیں اور ان کو پڑھنے والے پریشان ہو گئے کہ کسی کاغذ پر درج الفاظ کو کیسے واضح کریں اور ان کو پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیں کہ شاید ان میں سے کوئی ایسا صاحب دل اور روشن دماغ نکل آئے جو اس میں کچھ اضافہ کر سکے اور اس طرح قارئین کی خدمت میں کوئی نئی بات پیش کر سکے۔

جس کی گنجائش ہروقت موجود رہتی ہے اور کئی باتیں لکھنے والے کے ذہن میں رہ جاتی ہیں یا قلم کی زبان سے ادا نہیں ہو پاتیں۔ کسی گھبرائے ہوئے عاشق کی طرح جس کے دل کی کئی باتیں دل ہی میں رہ جاتی ہیں اور جب یاد آتی ہیں تو ان کو سننے والا جا چکا ہوتا ہے اور کہنے والا پچھتاتا رہ جاتا ہے۔ ایسے کتنے ہی بیان کرنے اور کہنے والے پچھتاوے کے بغیر کچھ حاصل نہیں کر پاتے کسی شاعر نے اپنی اس کیفیت کو یوں بیان کیا تھا کہ

کتنے ہی بے شمار سخن ہائے گفتنی

خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے

بلاشبہ کتنے ہی الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے ڈر کے مارے ناگفتہ رہ جاتے ہیں اور دل ہی دل میں واویلا کرتے رہ جاتے ہیں لیکن ان کو زبان نصیب نہیں ہوتی۔ ابھی یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ماسکو سے ایک دھماکے کی خبر آ گئی ٹرین میں دس افراد مر گئے نہ جانے کتنے زخمی ہوئے اور ٹرین کو بند کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں ایسے حادثے ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔

گھروں میں ان کا انتظار ہو رہا ہوتا ہے بزرگ جوان اور بچے سبھی مسافروں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کے منتظر ہوتے ہیں لیکن ایک دھماکا نہ جانے کتنے انسانی دلوں کو توڑ دیتا ہے اور کتنی خواہشوں کا خون کر دیتا ہے اور صرف بچے ہی نہیں بزرگ بھی اپنے تحفوں اور پیاروں کے سامان کا انتظار کررہے ہوتے ہیں کسی ایسے دھماکے کی وجہ کوئی بھی ہو اس کے صدمے زندہ رہتے ہیں اور ان صدموں کی سزا پانے والے اپنی قسمت کو رو رہے ہوتے ہیں، روتے رہتے ہیں۔ دھماکا کرنے والے کا مقصد جو بھی تھا اس کے صدمے میں کتنے ہی انسانوں کا خون ہو جاتا ہے اور وہ قسمت کو روتے رہ جاتے ہیں۔ درست ہے کہ حالات کے اس حد تک بگاڑ میں بہت سے انسانوں کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اس بگاڑ کے نتیجے میں جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ نہ جانے کتنے المیوں کو جنم دیتا ہے اور اس کا بگاڑ دور دور تک آباد انسانوں پر تباہی لے آتا ہے۔ ایک ایسی تباہی جو نسلوں تک چلی جاتی ہے اور آنے والے انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

ایک زمانہ تھا اور اس پر زیادہ مدت نہیں گزری کہ انسان اپنی کسی شدید ناراضگی پر اس کا ردعمل بھی ایک حد کے محفوظ رکھتے تھے لیکن ہمارے اس ترقی یافتہ زمانے میں ایسے تباہ کن آلات اور ہتھیار بن گئے کہ ان کی تباہی انسانوں کی نسلوں تک برباد کر دیتی ہے۔ یہ تباہ کن آلات ہمارے جدید دور کی ایجاد ہیں جو حجم اور وزن میں اتنے کم ہوتے ہیں کہ انھیں آسانی کے ساتھ اپنے پاس جیب میں بھی رکھا جا سکتا ہے اور آسانی کے ساتھ ہی استعمال بھی کیا جا سکتا ہے وہ زمانے گئے جب دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے بندوق اور رائفل جیسی بھاری بھر کم چیز اٹھانی اور چھپانی پڑتی تھی۔

اب تو آپ کی جیب میں سگریٹ کی ڈبی کے برابر کوئی چیز رکھی جاتی ہے جسے استعمال کر کے حیران کن حد تک تباہی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایک دشمن ہی نہیں اس کا پورا خاندان ہی ختم ہو سکتا ہے۔ آج کے زمانے میں ایسے تباہ کن ہتھیار مل سکتے ہیں اور ان کا حصول ایسا مشکل نہیں ہے کہ آپ قانون کی گرفت اور سزا سے بھی بچ سکتے ہیں اور اپنا کام بھی کر جاتے ہیں۔ کہاں کلہاڑی وغیرہ اور کہاں یہ ایک چھوٹا سا پیکٹ۔ بہرکیف انسانوں نے اپنی تباہی کے لیے بہت کچھ ایجاد کر لیا ہے جو آسانی سے دستیاب بھی ہے اور آسانی کے ساتھ استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

صورت حال کچھ یوں ہے کہ آپ کسی سے ناراض ہیں اور یہ آپ کی ناراضگی پر منحصر ہے یا آپ کے مزاج پر کہ آپ اس کا اظہار کس طرح کرتے ہیں اور ضرورت سے بڑھ جاتے ہیں یا اس کے اندر رہ کر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ غصے اور ناراضگی کے اظہار کے کئی طریقے ہیں جو ناراضگی کی کیفیت اور ناراضی کے حوصلے اور مزاج پر منحصر ہے جس میں حالات اور انسانی مزاج کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ میں ایک وارداتی قسم کے دیہات کا باشندہ ہوں اور میں نے کئی وارداتیں دیکھی اور سنی ہیں اس لیے میرے لیے ہر واردات کا ایک پس منظر لازم ہے اور یہ واردات اس پس منظر کے مطابق ہی کی جاتی ہے۔ میں ابھی چھوٹا سا تھا کہ ایک صبح کو کسی گھبرائی ہوئی آواز کا شور سنا اور ساتھ ہی کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ کوئی قتل ہو گیا ہے۔ یہ گرمیوں کے دن تھے اور لوگ گھروں کے باہر سو رہے تھے۔

قاتل ایک دوسرے گاؤں سے آئے ان کا شکار ان دنوں ہمارے گاؤں کے ایک دوست کا مہمان تھا قاتل رات کے پیچھے پہر آئے اور واردات کر کے بھاگ گئے۔ یہ وہ زمانے تھے کہ پولیس سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں تھا۔ کسی بھی واردات کے کل پرزے جائے واردات کے قریب موجود مل جاتے اور پولیس بہت جلد ملزم تک پہنچ جاتی۔ چنانچہ ایسی وارداتیں کم ہی ہوتیں کہ جن کا سرا نہ ملتا اور یہ زمانہ ہماری آزادی کا نہیں برطانیہ کی غلامی کا تھا اور برطانیہ کے ملازمین مثلاً ڈی سی اور ایس پی کی پہلی وفاداری سات سمندر پار ملکہ  برطانیہ سے ہوتی تھی اور ضلع کا ایس پی عموماً انگریز یا کسی برطانوی ادارے کا تربیت یافتہ ہوتا تھا چنانچہ وہ کسی بڑی واردات کے ملزم کی گرفتاری کو ملکہ سے وفاداری کا اظہار سمجھتے۔ خصوصاً قتل کی واردات کو سب سے اہم واردات سمجھا جاتا تھا اور ضلع کا ایس پی اسے ملکہ معظمہ سے وفاداری سمجھتا تھا۔

برطانوی دور حکومت کی جو کہانیاں ہم تک پہنچی ہیں ان کا مرکزی نقطہ ملکہ معظمہ سے وفاداری تھی اور اگر پولیس کے اہلکار ملزم تک نہ پہنچتے تو اسے ان کی ناقابل معافی نالائقی سمجھا جاتا تھا اور جس کی سخت سزا ہوتی تھی جو نوکری سے برطرفی تک بھی ہو سکتی تھی کیونکہ ملکہ کا نمایندہ افسر ملکہ کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں چاہتا تھا۔ قتل جیسی بڑی وارداتوں کی رپورٹ اوپر تک جاتی تھی اور اس کی سزا یا جزا ملتی تھی چنانچہ یہ ممکن نہ تھا کسی واردات کا نتیجہ اور پس منظر معلوم نہ ہو اور اس پر عمل نہ کیا گیا ہو۔ کسی واردات کے ابتدائی وقت سے لے کر اصل ملزم کی گرفتاری تک متعلقہ محکمے کے علم میں ہوتا تھا اور ضلع کا ایس پی اس کے بارے میں اپنی رپورٹ دیا کرتا تھا جو اوپر تک جاتی تھی اور اس کا کوئی نتیجہ نکلتا تھا کیونکہ پولیس کسی سیاستدان کی نہیں حکومت کے ماتحت ہوتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔