نجومیوں کی طرف بھاگتے انسان

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 4 اپريل 2017

کیا آپ نے کبھی جنگل میں کسی طاقتور یا کمزور جانورکو اپنے حال و مستقبل کی معلومات کی خاطر کسی نجومی کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ آپ کا جواب نہ میں ہوگا اور ساتھ ہی آپ یہ بھی کہیں گے کہ جانوروں میں عقل وشعور کب ہوتا ہے اس لیے جنگلوں میں نجومی نہیں ہوتے ہیں چونکہ انسانوں میں عقل و شعور اور علم ہوتا ہے اس لیے نجومی انسانوں میں پائے جاتے ہیں اور نجومی انسانوں میں اس لیے بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ انسان ناقابل بھروسہ، ڈرپوک اور خوفزدہ جانور ہے جو بظاہر تو طاقتور، بہادر، نڈر نظر آنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ بالکل کھوکھلا اور ڈرپوک ہوتا ہے آپ کسی بھی بظاہر طاقتور، بہادر انسان کو بے خیالی میں ڈرا کو دیکھ لیں تو اس کی بہادری، نڈر پن کا پول اسی وقت کھل جائے گا یا پھر اس قسم کے انسان کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد آپ اس کی عیادت کرکے دیکھ لیں۔

جب آپ اس کی عیادت کررہے ہونگے تو وہ صاحب آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ سے خود کے لیے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ دعائیں کرنے کی التجا کررہے ہونگے اورآپ بار بار ان سے کہہ رہے ہونگے کہ محترم ہمت اور حوصلہ رکھیں خدا آپ کو جلد ہی صحت مند کردے گا اورآپ باہر نکل کر اپنے آپ سے یہ ہی کہہ رہے ہونگے کہ انسان کمزور ترین مخلوق ہے اور آپ کو یہ بھی احساس ہو جائے گا کہ یہ غرور و تکبر، بڑھکیں، شان و شوکت ناز و نخرے سب کے سب جھوٹے ہوتے ہیں، دیمک زدہ ہوتے ہیں، کھوکھلے ہوتے ہیں، دھوکہ اور فراڈ ہوتے ہیں جو انسان اپنے آپ کو دیتا آرہا ہوتا ہے۔

انسان اس قدر ڈرپوک اور کمزور واقع ہوا ہے کہ وہ اپنے حال و مستقبل کے لیے ہر وقت خوفزدہ اور ڈرا ڈرا رہتا ہے۔ اس کے لیے ہر وقت فکر مند رہتا ہے جو لوگ محفلوں میں نجومیوں کو فراڈ اور دھوکے باز قرار دے رہے ہوتے ہیں وہ ہی نجومیوں کے حجروں کے سب سے زیادہ چکر لگارہے ہوتے ہیں۔اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے حال اور مستقبل کے لیے ہروقت خوفزدہ ہر وقت فکر مند۔ یہ حال صرف ہم جیسے عام انسانوں کا ہی نہیں ہے، دنیا کے طاقتور ترین انسانوں کا حال بھی ہم سے مختلف نہیں ہے۔

آئیں دنیا کے طاقتور ترین شخص سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن کی کہانی پڑھتے ہیں۔1990ء میں جون کو نگلی کی کتاب What Does Joan say? شایع ہوئی تھی جس میں اس خاتون نے دنیاکو چو نکا دینے والا یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایسی جوتشی ہے جو امریکہ کے مشہور سابق صدر رونالڈ ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن کو مشورے دیا کرتی تھی۔کونگلی نے لکھا ہے کہ ’’نینسی ریگن کے وسیلے سے میرا صدر ریگن سے براہ راست رابطہ تھا۔

صدرکی تمام پریس کانفرنسوں،اکثر تقریروں، قوم کے نام سرکاری خطاب اورصدارتی طیارے کے اڑنے اوراترنے کے اوقات کا تعین میرے حوالے سے ہوتا تھا۔ یہ میں ہی تھی جس نے صدارتی انتخاب کی مہم کے زمانے میں صدارت کے ایک امیدوار جمی کارٹر کے ساتھ ایک اور صدارت کے ایک اور امیدوار واٹر مونڈیل کے ساتھ ریگن کے دو مباحثوں کا وقت طے کیا تھا۔ صدر کے تمام طویل اور مختصر غیر ملکی دوروں کے اوقات کا تعین بھی میرے مشورے سے ہوتا تھا۔ تمام سربراہ کانفرنسوں کے لیے بریفنگ کا وقت بھی میں متعین کرتی تھی۔

تاہم ماسکو میں سوویت یونین کے سربراہ کے ساتھ وقت کا تعین میرے مشورے سے نہ ہوا تھا۔ البتہ صدر کے ماسکو دورے کا وقت میں نے ہی طے کیا تھا۔ کونگلی کادعویٰ ہے کہ وہ سیکنڈ تک کا تعین بھی کرتی تھی۔ اس کی مثال اس نے یہ دی ہے کہ 11 نومبر 1987 ء کو صدر ریگن کو اخباری نمایندوں کے سامنے سپریم کورٹ کے جج انتھونی کینیڈی کے تقرر کا اعلان کرنا تھا۔ کونگلی نے اس اعلان کے لیے 32:10 کے 25 سیکنڈ بعد کا وقت مقرر کیا۔ اس پر اسٹاپ واچ دے کر ایک آدمی کو مقررہ لمحے کا اشارہ دینے کا فرض سونپا گیا۔ جونہی لمحہ آیا صدر صاحب نے متعلقہ شخص کے اشارے پر جج کی تقرری کااعلان کردیا۔ علم نجوم میں مہارت کا دعویٰ کرنے والی جون کونگلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ 1985ء میں جب صدر ریگن کا کینسر کے سلسلے میں آپریشن ہوا تھا تو انھوں نے نینسی ریگن کو تین روز تک یہ آپریشن ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

کونگلی کا کہنا ہے کہ سرکاری امور پر بھی وہ نینسی ریگن پر اثر انداز ہواکرتی تھی اور اس نے سابق سو ویت صدر گوربا چوف کے بارے میں صدر ریگن کی رائے بدلنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا یا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے گور با چوف کا زائچہ بھی تیارکیا تھا۔ اس زائچے سے معلوم ہوا تھا کہ گور باچوف اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے تھے۔اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روسی نژاد ہونے اور روسی تربیت کے باوجود گورباچوف میں انسان نوازی کی جبلت موجود تھی۔صدر ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ’’میری باری‘‘ ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ نجوم دان کونگلی مدد گار ومعاون تھیں۔

ایک قسم کی معالج تاہم ان کا اثر ورسوخ صرف تعین اوقات تک محدود تھا‘‘ ظاہر ہے کہ خاتون اول کی اس شہادت کے بعد اس امر کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ کونگلی صاحبہ کو صدر ریگن کے کام کے کم ازکم بعض پہلوؤں پر اثر و رسوخ حاصل تھا۔ جب سابق امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کا یہ حال تھا تو پھر ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے سے طاقتور اور بااختیار اگر نجومیوں کے حجروں کے چکر کاٹتے پھرتے ہیں تو پھر اس میں حیران ہونے اور پریشان ہونے کی کیا بات ہے، کیونکہ آخر وہ بھی انسان ہی تو ہیں۔ خوفزدہ، ڈرپوک، کھوکھلے انسان۔ اپنے سائیوں سے ڈرنے والے لیکن جب وہ جلسوں،میٹنگوں یا محفلوں میں سلطان راہی بن کر بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہوتے ہیں یا دیمک زدہ پروٹوکول کے لیے عام لوگوں کو ذلیل و خوارکر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اپنے قہقہوں کو قابو میں رکھنا، عام انسانوں کی بس کی بات نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔