ہمارا کسان

عبدالقادر حسن  جمعرات 6 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ملکہ فرانس کا وہ مشہور جملہ تو آپ سب کے حافظے میں محفوظ ہو گا کہ اگر عوام کوڈبل روٹی نہیں مل رہی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے ، کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ساتھ بھی ہر سال کے مختلف مہینوں میں برپا رہتی ہے،  بے چارے عوام اس کا ماتم ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور پھر سے کسی نئی آزمائش کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ آجکل بھی دو محاذوں پر عوام کی دھلائی ہو رہی ہے جس میں پہلے تو ہماری حکومت کو ٹماٹروں کی قیمتوں نے ہی کیاکم پریشان کر رکھا تھا کہ ہمیشہ کی طرح گرمیوں کے آغاز میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے اور وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے کب کہا تھا کہ بجلی کی کمی کو ختم کر دیں گے بلکہ ہم تو یہ کہتے آئے ہیں کہ اس میں کمی کریں گے لیکن اس کے آثار ابھی تک تو نظر نہیں آرہے ، کجا یہ کہ اس سلسلے میں بہتر منصوبہ بندی کی جاتی مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم بجلی چوروں پر قابو پانے سے قاصر ہیں اور ان کی سرکوبی کا حل یہ نکالا ہے ان کی بجلی زیادہ دیر بند کی جائے گی۔ کیا خوبصورت انداز حکمرانی ہے ۔

اس پر سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے پھبتی کسی ہے کہ مودی کو بجلی دینے کے دعوے کرنے والے اپنے شہریوں کو بجلی نہیں دے سکتے۔ عوام الناس کو حکمرانوں کے خوش کن دعوؤں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے اور حکمرانوں سے اس کی امید رکھتے ہیں ۔ پاکستان کے بے بس عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کو مکمل ختم کرنے کے لیے کتنے منصوبے بنائے گئے یا کتنے نئے بجلی گھروں کی تعمیر شروع یا مکمل کی گئی بلکہ وہ تو پچھلے چار سال سے ہر آنے والے سال میںاس انتظار میں رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری کی جائے گی اور ان کے ووٹ کی قیمت بجلی کی مکمل فراہمی کر کے ادا کر دی جائے گی مگر وائے قسمت کہ سیاستدانوں نے نہ صرف اپنی روایت برقرار رکھی بلکہ کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بنیادی وعدے سے ہی انکاری ہو گئے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ لودشیڈنگ ختم ہو جائے گی اور ایک بار پھر ’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘  کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ قوم ابھی تک موجودہ حکومت کی جانب سے ان کمپنیوں کو ادا کیے جانے والے پانچ سو ارب روپوں کے حساب کے چکر میں ہی تھی کہ اس میں بجلی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں سے پچھلے تقریباً چار سالوں کے دوران بجلی کی خریداری کی مد میں قرضہ ایک بار پھر چار سو ارب کو چھو رہا ہے کیونکہ ڈھنڈورا تو یہ پیٹا جاتا تھا کہ جانے والی حکومت قوم پر بوجھ ڈال کر چلی گئی لیکن اس کو ادا ہم کررہے ہیں.

موجودہ صورتحال بھی کچھ پہلے والی یہ بن گئی ہے اور کیا ہم اگلے سال انتخابات کے بعد ایک بار پھر انھیں حالات سے دوچار ہوں گے۔ بات ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہوئی اور کسی بے لگام گھوڑے کی طرح دوسری طرف نکل گئی، ہماری حکومت عوام کے روز مرہ استعمال کی مختلف اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی اس کے اصل اسباب جاننا ہوں گے تاکہ روز روز کی شرمندگی سے بچا جا سکے ، کبھی تو مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں بے بہا اضافہ ہو جاتا ہے اور کبھی اس ملک سے پیڑول ہی ناپید، کبھی آلو کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں تو کبھی چینی کا بحران۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق مارچ کا مہینہ عوام پر بھاری گزرا اور اس دوران روز مرہ کے استعمال کی اشیا  کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور پچھلے سال کی نسبت اس سال مہنگائی میں چار فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

واضح رہے یہ سرکاری اعدادو شمار ہیں ۔ اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے اور بار بار اس طرح کے حالات کیوں بن رہے ہیں، کیا یہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی سازش ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ مشکل کا شکار ہو جائے ۔ کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان کا کاشتکار پچھلے چند برسوں سے کن مشکلات کا شکار ہے اس کی داد رسی کیوں نہیں ہو رہی ، کیا ہم صرف کروڑوں اربوں روپوں کے خوش کن اشتہارات کے ذریعے ہی کاشتکاروں کو خوشیاں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میرے خیال میں تو ان اشتہاروں پر آنے والی لاگت ہی براہ راست کسانوں کو دی جاتی تو ان کی مشکلات میں کسی حد تک کمی کی جا سکتی تھی لیکن فصلوں کی کاشت کے وقت تو کسان کو جن ضروری اشیا کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت ان کی قیمتیں تو اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہیں جب وہ اس پر شور مچاتے ہیں تو کبھی کھاد کی مد میں اور کبھی فصلوں کی تباہی کے بعد فی ایکٹر معاوضے کا اعلان کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔

لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ سارے کام وقت سے پہلے ہی کر لیے جائیں اور اس ناخوشگوار صورتحال کو پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے لیکن کیا کیجیے کہ محلوں میں براجمان ہمارے حکمرانوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افسران مٹی کے ساتھ مٹی ہوتے کسی بھی قسم کے موسمی حالات سے بے پرواہ اپنی جمع پونجی کو اﷲ توکل زمین میں گاڑ کر شکر ادا کرنے والے کسانوں کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں، ان کو کیا پتا کہ ایک کسان کس سرد و گرم کا شکار رہتا ہے اور میرے خیال میں ان سے زیادہ توکل تو اور کوئی نہیں کر سکتا ۔ آئے روز کی اس صورتحال میں اس بات کا بھی عوام الناس کو اندازہ ہو نا چاہیے کہ ایک فصل یا ایک کسی بھی قسم کی اجناس  کی کاشت میں استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کیا ہیں اور جو یہ کاشت کر رہے ہیں ان کو یہ کس قیمت پر مل رہی ہیں اور ان فصل کی برداشت کے بعد وہ آڑھتی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔

کسی بھی فصل کی بوائی سے لے کر برادشت تک ڈیزل بنیادی چیز ہے کیونکہ ٹریکٹر سے لے کر ٹرک کے ذریعے منڈیوں تک سامان پہنچانے میں اس کا کلیدی کردار ہے اور اس کی قیمت کا اندازہ بھی سب کو ہے اس کے علاوہ بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے بل، بازار سے کھادوں ، زرعی ادویات اور بیجوں کے داموں کا ہم شہری بابوؤں کو کیا پتا۔ حکومت کو کسانوں کی سرپرستی کرنا ہو گی کیونکہ ہم ایک زرعی ملک اور ہماری بڑی آمدنی اسی زرعی شعبہ سے ہی حاصل ہوتی ہے، ہمارے صنعتکار حکمرانوں کی اس جانب بھی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ صورتحال یہ ہے ہم کسی فصل کی کاشت کے موقع پر سوئے رہتے ہیں مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو کھیت اجڑ چکا ہوتا ہے اور کاشتکار اور کسان کے پاس فریاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔سزا ساری کی ساری کسان اور عوام کو ملتی ہے جو ایک معمول بن گئی ہے مگر اس طرف کوئی بھی توجہ نہیں دیتا۔ کسان اور کاشتکار جو ہر سال کسی ایسی صورتحال کا عادی ہوتا ہے چپکے سے یہ سب برداشت کر لیتا ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ۔ہماری زراعت ایسی ہی یک طرفہ چل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔