مردم شماری: امکانات وخدشات

مقتدا منصور  جمعرات 6 اپريل 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چھٹی مردم شماری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، اگلے مرحلے کی تیاریاں جاری ہیں، لیکن جس انداز میں معلومات حاصل کرکے ان کا اندراج کیا جا رہاہے، وہ عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے کا باعث بن رہا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وفاقی حکومت محض عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل کی خاطر بادل ناخواستہ یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔ یہی کچھ حال صوبائی حکومتوں کا ہے، جواس عمل میں غیر سنجیدہ ہونے کے باعث عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔

پہلے مرحلے میںملک کے مختلف شہروں کے ساتھ سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی میں بھی مردم شماری کی گئی، لیکن شہرکے مختلف علاقوںسے یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ مردم شماری کا عملہ ان تک نہیںپہنچ سکا ہے۔اس کے علاوہ معلومات اکٹھاکرنے کا طریقہ کار بھی خاصا غیر اطمینان بخش محسوس ہوا۔خاندان کے سربراہ کو فارم نہیں دیا گیا۔ جو معلومات درج کی گئیں، وہ دکھانے سے گریزکیا گیا۔ خاندان کے جو افراد بیرون ملک بسلسلہ روزگار مقیم ہیں، انھیں شامل نہیں کیا جارہا۔ حالانکہ ایک علیحدہ کالم میں ان کا اندراج ممکن تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ شہرکی مکمل آبادی مردم شماری میں شامل نہیں ہوسکے گی۔

پاکستان میں پہلی مردم شماری(1951)کو چھوڑ کراب تک ہونے والی ہر مردم شماری پرکسی نہ کسی شکل میں انگشت نمائی ہوچکی ہے۔1961میں ہونے والی مردم شماری کے بارے میںبنگالی عوام کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی کہ ان کی آبادی کو دانستہ طورپر کم ظاہر کیا گیا۔جب کہ اس سے قبل پیرٹی کے سفاکانہ فارمولے پر عمل کرتے ہوئے 1955میں ان کی تعداد پر پہلے ہی ڈاکا مارا جا چکا تھا۔ مگر پھر بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ کو خوف تھا کہ کسی بھی وقت بنگالی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر مزید وسائل کا مطالبہ نہ کردیں۔اس لیے ان کی آبادی کو کم ظاہر کرنے کے ہتھکنڈے جاری رہے۔

1972میں تیسری مردم شماری ، سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہوئی۔ اس مردم شماری کے بارے میںسندھ کے شہری علاقوں سے متوشش شہریوں کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن جمع کرائی گئی کہ کراچی، حیدرآباد اورسکھرکی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران اس وقت کے سیکریٹری داخلہ محمدخان جونیجو نے عدالت کے سامنے یہ اعتراف کیا تھاکہ انھوں نے وزیراعظم کے حکم پرکراچی کی آبادی کو 30 لاکھ کم ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں شہری اور دیہی آبادی کے حکومت کی جانب سے طے کردہ تناسب کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا، تاکہ شہری علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں دیہی علاقوں سے زیادہ نہ ہوجائیں۔ حالانکہ سندھ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں اربنائزیشن کا عمل دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ تیزرفتار ہے، اگر سندھ میں شفاف مردم شماری کرائی جائے تو شہری آبادی دیہی آبادی سے زیادہ نکلے گی۔

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن جمع کرائی ہے۔ جس میں انھوں نے بعض اہم نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعاکی ہے کہ وہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے احکامات جاری کرے۔ان کی اس پٹیشن میں کہا گیاہے کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں شرح ولادت 2.64 فیصدسالانہ سامنے آئی تھی ۔جب کہ سندھ میں یہ شرح 2.8فیصد سالانہ تھی۔یوں سندھ میں پیدائش کی شرح کی مناسبت سے آبادی میں اضافے کی شرح لازمی طور پر پنجاب سے زیادہ ہوئی۔چنانچہ جب گزشتہ 19برسوں کے دوران آبادی میں اضافے کی شرح کا تخمینہ لگائیں، سندھ کی آبادی میںہونے والا اضافہ پنجاب  کے مقابلے میں  زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ سندھ پر دیگر صوبوں سے منتقل ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس لیے صوبوں کے درمیان آبادی کا 1998والا تناسب برقرار نہیں رہ سکتا۔

1998کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی ملک کی کل آبادی کا 55.63فیصد تھی، مگر2011میں ہونے والی خانہ شماری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب کی آبادی 47.69فیصد رہ گئی ہے۔ یہ دو حوالوں سے درست معلوم ہوتی ہے۔اول، پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میںپیدائش کی  شرح کم ہے۔ دوئم، پنجاب سے آبادی کا بڑا حصہ اس دوران بیرون ملک اور سندھ منتقل ہوا ہے۔اب اگر پنجاب کی آبادی47.69فیصد کے لگ بھگ رہ جاتی ہے ، تواس کے اثرات قومی اسمبلی میں اس کے حصے پر بھی مرتب ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں پنجاب کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں واضح برتری حاصل ہے۔جو شفاف مردم شماری کے نتیجے میں گھٹ کر48فیصد کے قریب رہ جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت بھی اس ممکنہ صورتحال سے پریشان ہے۔لہٰذا ان کی کوشش ہے کہ مردم شماری کے اعداد وشمار کو اس حد تک تبدیل کیا جائے کہ سابقہ تناسب برقرار رہ سکے۔

جسٹس(ر) وجیہہ نے اپنی پٹیشن میں دوسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ سندھ میں صوبائی حکومت دیہی ووٹ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جس طرح 1972میں کراچی کی آبادی کوکم ظاہر کرکے دیہی آبادی کی برتری کو برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔اسی طرح آج ایک بار پھر سندھ حکومت اپنے اقتدار کے تسلسل کی خاطر شہری آبادی کو کم ظاہر کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1998میں دیہی60فیصد اور شہری آبادی 40 فیصد ظاہر کی گئی تھی، جوکہ قطعی غلط اعداد وشمار تھے۔ مگر اب یہ تناسب واضح طورپر تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لیے شفاف مردم شماری کے نتیجے میں شہری آبادی دیہی آبادی سے یقینی طور پر زیادہ ہوجانے کے قوی امکانات ہیں جس کے اثرات قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تقسیم پر واضح طورپر مرتب ہوں گے۔

جہاں تک پختونخواہ اور بلوچستان کا معاملہ ہے تو ان دونوں صوبوں میں افغان مہاجرین کی وجہ سے قومیتی تناسب خاصی حد تک تبدیل ہوا ہے۔ افغان جنگ سے قبل پشاور،ایبٹ آباد اورکوہاٹ کے شہروں میںہندکوبولنے والوں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ خاص طورپر پشاور میںیہ تناسب تبدیل ہوچکا ہے۔ افغان مہاجرین کے علاوہ شہر کے اطراف اور قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں پشتو بولنے والوں کی شہر کی طرف نقل مکانی کے نتیجے میں ہندکو بولنے والی آبادی کی تعداد کم ہوگئی ہے۔

بلوچستان میں لسانی وقومیتی تقسیم کا معاملہ خاصا حساس ہے۔ شمال مغربی بلوچستان میں پشتون آبادی کی اکثریت ہے، جب کہ بلوچ جنوب اور جنوب مشرق کے علاوہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں، لیکن سندھ کے بلوچ خود کو سندھی اور پنجاب کے بلوچ خود کو پنجاب کا حصہ سمجھتے ہیں۔اس لیے بلوچستان میں دو قومیتی(یا لسانی) مسئلہ مردم شماری کے تناظر میں زیادہ حساس ہے۔ خاص طور پر جب سے محمود خان اچکزئی نے افغانیوں کوپشتون قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بے دخلی کے خلاف ہوں، توسیاسی تناؤ میں اضافہ یقینی ہوجاتا ہے۔ چند روز بیشتر اس سلسلے میں جب برادر عزیز حاصل خان بزنجو سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے مردم شماری کے نتائج کو بلوچستان کے لیے آتش فشاں قرار دیا۔ کم وبیش اسی نوعیت کے خدشات برادرم یوسف مستی خان بھی کررہے ہیں۔

محسوس یہ ہورہا ہے کہ ایک طرف آبادیاتی تناسب کے مسئلے پر چھوٹے صوبوں کے پنجاب کے ساتھ اختلافات گہرے ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف سندھ اور بلوچستان میں قومیتی اورلسانی تفاوت کے متشدد شکل اختیارکرنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں،اگر پنجاب کی اشرافیہ مردم شماری نئے اعدادوشمار کو تسلیم کرتے ہوئے پنجاب کے سابقہ آبادیاتی تناسب میں کمی کو خوش دلی سے قبول کرلیتی ہے، تو یہ احسن اقدام ہوگا ۔لیکن سندھ میں شہری اور دیہی آبادی کے تناسب کا معاملہ موجودہ سیاسی کشمکش کے باعث آسانی کے ساتھ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی معاملات کے احسن طریقے سے حل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارہ شماریات اپنی غیر جانبداری اور مردم شماری کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرے۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کو بھی اس پورے عمل پر نظر رکھنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔