انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے

ایاز خان  جمعرات 6 اپريل 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

مبارک ہو! پانامہ ایک سال کا ہو گیا۔ اس ایک سال میں کافی کچھ بدل گیا ہے۔ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے سے بچ نکلنے والی حکومت پانامہ کیس سپریم کورٹ میں جانے کی وجہ سے پھر مشکلات میں گھر گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف کی اخلاقی برتری بری طرح متاثر ہوئی۔ میاں صاحب اور ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات تو سابق ادوار میں بھی لگتے رہے مگر اسحاق ڈار کے ایک اعترافی بیان کے سوا وہ ہمیشہ الزامات ہی رہے۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو اگرچہ سپریم کورٹ نے شواہد قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ یہ وزیر اعظم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس پر بھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

یہ اعترافی بیان جو وفاقی وزیرخزانہ کے بقول زبردستی ان سے لیا گیا تھا، اس میں ایک کروڑ 40لاکھ ڈالر کی منی لانڈرنگ کا اعتراف یا انکشاف کیا گیا تھا۔ اسحاق ڈار کے بیان کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے۔ ملک سے پیسہ باہر لے جایا گیا ہے۔ یہ پیسہ کب اور کون باہر لے کر گیا اسے ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔ پانامہ کیس کا فیصلہ ابھی چونکہ محفوظ ہے اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جب ’’غیر محفوظ‘‘ ہو جائے گا تو پھر بات ہو سکے گی۔ ساری سیاست البتہ اس ممکنہ فیصلے کے گرد گھوم رہی ہے۔

کپتان کی نئی حکمت عملی اس فیصلے سے مشروط ہے۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ وہ فیصلے کے بعد اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ اب تک پیپلزپارٹی کی جو سرگرمیاں نظر آئی ہیں ان میں ایک بار پھر شہید فیکٹر کو کیش کرانے کی کوششیں سرِ فہرست ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تقریروں سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پیپلزپارٹی پرفارمنس کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگے گی۔ اور جب پرفارمنس نہیں ہے تو پھر شہیدوں کے نام پر ہی ووٹ مانگا جائے گا۔ ن لیگ ترقی کے ایجنڈے پر ووٹ مانگے گی جب کہ کپتان کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اترے گا۔

الیکشن ابھی اگلے سال ہونے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کا آغازہو گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو جو ریلیف 6ماہ پہلے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار سے نہیں مل سکا تھا وہ اب مل چکا ہے۔ اس ریلیف کے نہ ملنے کی وجہ سے ن لیگ اور پی پی پی میں لڑائی کے بجائے چوہدری نثار اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عمران تو دونوں پارٹیوں پر نورا کشتی کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

آصف زرداری نے اگلے دن گڑھی خدا بخش میں شکوہ کیا کہ ملک میں کبھی انصاف نہیں ہوا۔ ایان علی کی رہائی اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام کا اخراج اور ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پر رہائی۔ کیا یہ انصاف نہیںہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل البتہ ایسا المیہ ہے جس کے اثرات آج بھی ہمارے ملک اور معاشرے میں موجود ہیں۔ اس کیس کے دوبارہ ٹرائل کا مطالبہ جائز ہے۔ بھٹو صاحب تو اب واپس نہیں آسکتے مگر ان کے چاہنے والوں کو انصاف ضرور مل سکتا ہے۔ زرداری صاحب کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ’’انصاف‘‘ ملنے کی وجہ سے ہی آزادانہ سیاست کر رہے ہیں۔ ہاں یاد آیا شرجیل میمن بھی تو انصاف ملنے کے بعد ہی وطن واپس آ سکے ہیں ورنہ انھیں کافی عرصہ پہلے واپس آجانا چاہیے تھا۔

آصف زرداری کو نواز شریف کے خلاف فیصلے کی صورت میں انصاف چاہیے تو وہ چند دن اور انتظار کر لیں۔ فیصلہ آجائے گا تو پتہ چل جائے گا کہ کس کو انصاف ملا اور کس کے حصے میں احتجاج آیا۔ کپتان کی ساری امیدیں بھی اسی فیصلے سے وابستہ ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بھی انصاف کے منتظر ہیںاور شیخ رشید بھی انصاف چاہتے ہیں۔ ن لیگ بھی انصاف کے سوا کچھ اور نہیں چاہتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس ایک فیصلے سے سب کو انصاف مل جائے اور پھر کسی زرداری کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ملک میں کبھی انصاف نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے، انھیں بھی تو انصاف چاہیے۔ گویا کیس ایک ہے اور انصاف کے خواہاں کئی ایک ہیں۔

الیکشن اگلے سال ہونے ہیں لیکن زرداری صاحب اور عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اس سال بھی انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ رواں سال الیکشن کپتان اور پیپلزپارٹی کے وارے میں تو ہو سکتے ہیں، ن لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ن لیگ ترقی کے جو دعوے کر رہی ہے اس میں توانائی کی پیداوار کا دعویٰ سب سے اوپر ہے۔ ہفتہ دس دن پہلے تک جو وزیر مشیر اٹھتا تھا یہی اعلان کرتا تھا کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ ان اعلانات کی گونج کے درمیان ہی کہیں بجلی اچانک غائب ہو گئی اور اب تو یہ حالت ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجلی آگئی۔ بجلی جانے کی بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ خواجہ آصف نے کمال مہربانی سے اس کی وجہ بھی بتا دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ گرمی اچانک بڑھ گئی اس لیے طلب میں اضافہ ہو گیا۔ ایک وجہ انھوں نے بجلی چوری بھی بتائی۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی گردشی قرضے اداکرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر اب پھر 385ارب کا قرضہ بقول خواجہ آصف حکومت کے ذمے ہے۔ ہم بڑے شہروں میں رہنے والے 10سے 12گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر چیخ اٹھتے ہیں، ذرا چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جا کر دیکھیں جہاں بجلی صرف جاتی ہے، آنے کا کوئی پتہ نہیں۔ زرداری صاحب کہتے ہیں بجلی پہلے سے کافی مہنگی بھی ہو چکی ہے۔ اب تو سبزیاں بھی مڈل کلاس تک کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں‘ پھل پہلے ہی جنس نایاب کی حیثیت پا چکے ہیں۔ مرغی بھی کافی مہنگی بکتی رہی ہے۔ ابھی تو ماہ رمضان شروع ہونا ہے جس میں منافع کمانے کے لیے یہ ساری چیزیں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ پٹرولیم مصنوعات ہر 15روز کے بعد علیحدہ سے مہنگی ہو رہی ہیں۔

اورنج لائن منصوبہ بھی فیصلے کا منتظر ہے۔ ان حالات میں الیکشن کا اعلان کسی صورت حکومت کے حق میں نہیں جائے گا۔ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں تب ہی ن لیگ بہتر پوزیشن میں ہو گی۔ آیندہ عام انتخابات میں دیگر ایشوز کے ساتھ ساتھ پانامہ بھی ایک اہم ایشو ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کیس میں سارے فریق اور جو فریق نہیں ہیں وہ بھی انصاف چاہتے ہیں۔ نواز شریف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے اب تک خوش قسمت رہے ہیں۔ ایسے کیسز کے فیصلے بھی ان کے حق میں ہو گئے جو زاید المیعاد ہو چکے تھے۔ انھیں اس بار بھی یہی امید ہو گی۔ توقع ہے کہ اپریل کے وسط میں اس کیس کا فیصلہ آ جائے گا۔ اس کے بعد پتہ چلے گا کہ کس کو انصاف ملا اور کون یہ شکوہ کرے گا کہ ہمیں انصاف سے محروم کر دیا گیا۔ سب کو انصاف چاہیے‘ صرف انصاف اور انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔