سی پیک

جاوید قاضی  جمعرات 6 اپريل 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں تو پاک چین اقتصادی راہداری کے کئی زاویے اور پہلو ہوں گے، ہر ایک نے اپنے اپنے نکتۂ نگاہ سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ کسی نے مثبت تو کسی نے منفی طور پر نتائج بیان کیے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کا ایک مظہر ہے، اور یہ ہمیں اسی طرح غلامی کے طوق پہنائے گا۔ دوسری طرف حکومت ہے کہ ترقی کے گیت کچھ اس طرح سے گا رہی ہے کہ جیسے شہد و دودھ کی ندیاں بہنے لگی ہیں۔

سچ تو یہ ہے نہ یہ صحیح ہے، نہ وہ صحیح ہے۔ ہم نے حقیقت کو حقیقت کی نگاہ سے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ محبت کی تو ٹوٹ کر محبت کی اور جب نفرت کرنے پر آئے تو کوئی کسر نہ چھوڑی۔ غلامی در غلامی در غلامی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ برطانیہ سے نکلے تو امریکا پہنچے۔ امریکا کو ہمارے مذہب سے بہت لگاؤ ہوا کہ اس کو ہتھیار بنا کر سوویت یونین کو توڑا جائے۔

اس وقت کے شبِ خوں مارنے والوں کی امریکا کو اشد ضرورت تھی۔ بے چارہ بھٹو پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی دینا چاہتا تھا، اس کی عوام میں جڑیں تھیں اور ساتھ اس کے اشرافیہ تھی۔ ایک ایسی اشرافیہ جو تاریخی اعتبار سے گماشتہ تھی اور ان کے اجداد نے انگریزوں کو ہمارا حاکم صادر کرنے کے لیے مدد فراہم کی تھی۔ اس کے نتیجے میں ان کو ’’رائے بہادر‘‘ ’’سر‘‘ و ’’لارڈ‘‘ کے خطابات عنایت ہوئے۔ جمہوریت ہار گئی اور بھٹو خشک ٹہنی پر وارے گئے۔ ہمیں پھر سعودی عرب نے غلامی کے طوق پہنائے۔ وہ شہنشاہ والا ایران، اس شہنشاہ کی اقربا پروریوں کے نتیجے میں تاراج  ہوا۔ ملاؤں نے وہاں بھی اقتدار پکڑ لیا۔ سردار داؤد اپنا اقتدار گنوا بیٹھے اور یوں افغانستان بحران کی نذر ہوا۔

یہ عالمگیریت تھی اپنے اعتبار سے، جس نے ہماری جمہوریت کو سرد جنگ کے زمانوں میں یرغمال بنا لیا۔ یہ 1970ء میں پاکستان کا بکھرنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے مجبوراً جمہوریت کو جگہ دی۔ بھٹو کی خوامخواہ کی خود اعتمادی نے جمہوریت کی داغ بیل کو نقصان پہنچایا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے، جو کہ شاعر کے ان الفاظ میں ہے۔

حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ

یہ تو ارتقا کی مسافتیں تھی۔ بھٹو کے درباریوں نے بھٹو کو مروا دیا۔ مختصراً یہ چین بھٹو کی دریافت تھی۔ اسے پتہ تھا کہ اس خطے میں توازن پاکستان کے لیے تب ہوگا جب چین سے ہمارے اسٹرٹیجک مفادات گہرے ہوں گے۔ ہم نے چین کو ہندوستان کے تناظر میں دیکھا۔ کلدیپ نیئر لکھتے ہیں کہ جناح کی یہ خواہش تھی کہ ہندوستان، پاکستان کنفیڈریشن کی شکل میں آگے آئیں اور متحد خارجہ پالیسی بنائیں۔

جناح کے جانے کے بعد لیاقت علی خان احساس کمتری میں رہے کہ اس خطے پر جہاں پاکستان معرض وجود میں آیا کہ کس طرح سے اقتدار کو بچا پائیں گے۔ آتے ہی شہید سہروردی اور فضل الحق کے بنگال کو نچوڑ دیا اور پھر یوں آئی قراداد مقاصد۔ موصوف آئین دینے کے لیے تیار تھے، نہ انتخابات کروانے کے لیے۔ مشرقی پاکستان میں احساس محرومی کے ایسے بیج بوئے گئے کہ جب ریاستی انتخابات ہوئے، تو مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان میں شکست فاش ہوئی۔ میں نے کہا نا ہم غلام در غلام تھے۔ لیاقت علی خان امریکا کی یاترا پر چلے گئے۔ انگریز سامراج کا کشمیر کا بٹوارہ جوں کا توں چھوڑنے کی وجہ سے ادھر بھی انتہاپسند پھلے پھولے اور ادھر بھی ان کی چاندی ہوگئی۔ مارے کون گئے؟ عوام۔ جو اسکول مانگتے تھے، اسپتال مانگتے تھے، ذریعہ معاش مانگتے تھے اور روٹی، کپڑا، مکان مانگتے تھے۔ بے چارے عوام۔

سچ یہ نہیںہے کہ خواب آور باتیں کی جائیں، ایسی باتیں جن کو پانا ممکن نہ ہو، وہ سچ تو ہوں مگر ہونا، ممکن نا ہو۔ مثال کے طور پر ہندوستان اور پاکستان کی دوستی، ایک ایسی دوستی، جس میں سرحدوں کا ہونا کچھ یوں ہے جس طرح برطانیہ اور فرانس ہیں۔ یا برصغیر کچھ یوں ہوجائے جس طرح یورپی یونین ہے۔ ن م راشد کی طرح ’’گماں کا ممکن‘‘ یا یوں کہیے کہ جس طرح فیض کہتے اس نظم کی طرح جس کا عنوان ہے ’’ڈھاکا سے واپسی‘‘۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

ہم بہت دور نکل آئے ایک بھنور کے پاتال میں، اس طرف مودی ہے اور مودی کا ہندوستان۔ اس کی روٹی پانی، پاکستان دشمنی ہے۔ لگ بھگ ایک ڈیڑھ مہینے پہلے اور سب سے پہلے پاک چین اقتصادی راہداری کا زاویہ میں نے ہی بنایا تھا کہ مذہبی انتہاپسندی کی جڑیں اس راہداری کے لیے رکاوٹ ہیں۔ یہ چین کی اولین شرط رہے گی کہ اسے ختم کیا جائے۔ چین اپنے مشرقی خطے کو، اقتصادی طور پر آگے لانے کے لیے پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس راہداری پر صرف کر رہا ہے، وہ علاقہ ’’قاشگر‘‘ ہے، جس میں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں۔ وہ باقی چین سے پسماندہ ہیں۔ مشرقی چین Land Locked ہے۔ چین کا ترقی یافتہ علاقہ سمندر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اب یہ تو کوئی ریسرچ اسکالر ہی بتائے، کیا وجہ ہے کہ Land Locked خطے دنیا بھر میں پسماندہ کیوں ہیں افغانستان کی طرح؟

پسماندگی اور انتہاپسندی کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مختصر یہ کہ چین راہداری لایا ہے اپنے Land Locked خطے کی، جہاں زیادہ تر مسلمان آبادی ہے، سمندر سے جوڑنے کے لیے۔ اس لیے نہیں کہ آپ وہاں جاکر مذہبی نفرتوں کے بیج بوئیں، بلکہ اس لیے کہ بھلا ان کا بھی ہو اور ہمارا بھی۔

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ہم آزاد ہی کب تھے کہ غلام بن رہے ہیں۔ یہ سوال بے معنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی ترقی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے، راستے بن رہے ہیں، توانائی کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، روزگار کے مواقع نکلیں گے، ادارے بنیں گے، خواندگی کی شرح بڑھے گی اور ایک دن ہندوستان، ایران، افغانستان بھی اسی راہداری سے مستفید ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔