چھوٹی چھوٹی خوشیاں

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعرات 6 اپريل 2017

آج کل پاکستانی مسلمانوں پر نہ جانے کیا افتاد آ پڑی ہے کہ انھیں اپنے تہوارکم پڑنے لگے ہیں۔ اﷲ لگتی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں تہوار ہیں بھی کم۔ عید، بقرعید، محرم اور بڑھا لیجیے تو شب برأت۔ مسلمانوں نے اپنے تہواروں میں کلی پھندے لگائے سو لگائے وہ آج کل دوسروں کے تہواروں کو بھی منا رہے ہیں اور خوب منا رہے ہیں۔ بسنت ہندوؤں کا تہوار ہے مگر ہم اس موسمی تہوارکو جو ہمارے کلچر سے لگا نہیں کھاتا بڑے زور و شور سے مناتے ہیں۔ پتنگ بازی کی دھوم ہوتی ہے اور ہر سال معصوم بچوں اور بوڑھوں کی جانیں ان ڈوروں کی نذر ہو جاتی ہیں جو تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہیں۔

ایک تہوار اور ہے ویلنٹائن ڈے۔ آپ اس روز کسی کو بھی محبت کا پیغام دے سکتے ہیں اگر واسطہ کسی سخت گیر سے پڑ جائے تو دلیل یہ دی جاتی ہے کہ محبت کا مفہوم بڑا وسیع ہے اور اس کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ آخر بچے بھی تو ماں سے محبت کرتے ہیں۔ یہ تہوار ہے ہی ایک پادری ویلنٹائن کے نام پر جو ہر کسی کو محبت کے جال میں پھنسانے کے لیے یہ پیغام رسانی کرتا تھا اور یقین غالب یہ ہے کہ جب واسطہ کسی سخت گیر عورت سے پڑتا ہو گا تو ٹھیک وہی دلیل دیتا ہو گا جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔

اگر ان بے ہودہ تہواروں کے خلاف لب کشائی کی جائے تو ہمارے آزاد خیال لوگ فرماتے ہیں کہ لیجیے یہ لوگ ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کو خوشیاں چند پھول جیسے بچوں کے گلے کاٹنے یا دوسروں کی بہو بیٹیوں کو محبت کے پیغامات ارسال کرنے سے حاصل ہوتی ہیں اور کیا اﷲ کو اس کا علم نہ تھا کہ آپ کو کس چیز سے مسرت ہو گی تا کہ وہ ان تہواروں کو دین کا حصہ بنا دیتا۔ مگر وہاں تو الٹا یہود و ہنود و نصاریٰ کے اتباع سے سختی سے روک دیا گیا ہے۔

ہماری سیکولر سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی وغیرہ کو نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی ہرج محسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے ’’اسلامی‘‘ رواداری قرار دے کر اس کی تائید و حمایت کرتے ہیں مگر ہماری مذہبی جماعتوں اور علمائے دین کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان تہواروں کے مواقعے پر ان کی طرف سے کوئی موثر رد عمل نہیں آتا جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہ ہو۔ حالانکہ یہ ہمارا بنیادی سیاسی مسئلہ بھی ہے۔

اب ایک اور تہوار آ گیا۔ اسے ’’اپریل فول‘‘ کہتے ہیں۔ بظاہر اس دن کسی کو بھی کوئی جھوٹی خبر پہنچا کر اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے حالانکہ بعض اوقات جھوٹی خبریں جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ دلٓازاری کا سبب بنتی ہیں، اس تہوار کی وجہ تسمیہ میں کئی روایات ہیں مگر سب سے زیادہ معتبر روایت وہی ہے جو اسپین سے متعلق ہے۔

اسپین میں آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار کی کشتی جب ڈوبنے لگی اور اسپین کی مسلم حکومت کئی حصوں میں بٹ گئی تو عیسائیوں کی بن آئی۔ انھوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں سے پورا فائدہ اٹھایا اور اٹھانا بھی چاہیے تھا۔ ریشہ دوانیوں کے ذریعے جب مسلمانوں کو انتہائی کمزور اور بے طاقت بنا دیا تو ان پر اسپین کی زمین تنگ ہو گئی۔ ان سے کہا گیا کہ ہم تم کو جان، مال اور عزت و آبرو کی ضمانت دیتے ہیں، تم اپنے گھروں میں محصور رہو البتہ ایک مقررہ دن جہازوں کے ذریعے اسپین سے نکل جاؤ۔ یہ مقررہ دن یکم اپریل تھا۔ مگر ہوا یہ کہ اس دن ان کو جہازوں میں لادنے کے بعد ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور جہازوں میں قتل عام کیا گیا۔ جو اِکا دُکا مسلمان بچ رہے انھوں نے اسلام سے لا تعلقی کے اظہار میں عافیت جانی اور یوں اسپین سے مسلم اقتدار ہی نہیں مسلم وجود بھی ختم ہو گیا۔

وعدہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا اور وہ دور زوال کی سادہ لوحی کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچے۔

اب اس تہوار یا دن کو منانے میں مسلمان بھی پیش پیش ہیں کیونکہ اب یہ دن صرف اس دغا بازانہ جھوٹ کی یادگار ہے مگر اب چونکہ اس کی ضرورت نہیں رہی اس لیے اس کو عام عوام کے لیے وقف کر دیا گیا ہے کہ وہ اس دن دوسروں کو غلط خبریں، اطلاعات و حادثات سے آگاہ کر کے ان کے لیے اذیت کا باعث بنیں۔ یہ اذیت معمولی، غیر معمولی یا اتنی غیر معمولی ہو سکتی ہے کہ باعث موت ثابت ہو۔

تھوڑی دیر کے لیے ہم اس روایت کو غلط جان لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی نے گھڑ لی ہو اور آج ایسے عیسائی مسلم منافرت کا باعث قرار دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں بھی کیا مذاقاً جھوٹ بولنا ضروری ہے کیا اس حد تک مذاق جائز ہے کہ آپ کے جھوٹ سے کسی کو نقصان ہو۔ بعض جھوٹ دغا بازی کی تعریف میں آتے ہیں۔ اس لیے یہ تہوار کم سے کم دروغ گوئی، دھوکہ دہی، دغا بازی کو جواز فراہم کرتا ہے کیا یہ سب اسلام کی رو سے کبیرہ گناہ نہیں اور کیا لوگوں کو خوامخواہ رنج و غم یا مصیبت میں مبتلا کرنا کسی طرح جائز کہا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارے ’’روشن خیالان مغربی‘‘ اسے بھی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محرومی کے مد میں ڈال کر دوسروں کی خدمت کرتے رہیںگے۔

یہ مسئلہ سیاسی نہیں خالص مذہبی بھی ہو جاتا ہے مگر ہم نے کسی دینی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت کو اس قسم کے تہواروں پر کوئی موثر اقدام کرتے یا کم از کم آواز اٹھاتے بھی نہیں سنا۔

کوئی بے چارا خوف زدہ مولوی کسی کونے کھدرے سے نہایت پست آواز میں احتجاج کر بھی لیتا ہو تو ہمارا آزاد میڈیا جو رائے عامہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے اور ریاست کا چوتھا ستون وغیرہ ہے اس آواز کو کسی کے کانوں تک پہنچانے کا روا دار نہیں ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔