اسلام کو صرف تزکیۂ نفس تک محدود نہیں کیا جا سکتا، ڈاکٹر ابصار احمد

حسان خالد / شہباز ملک  جمعرات 6 اپريل 2017
پنجاب یونیورسٹی شعبۂ فلسفہ کے سابق چیئرمین  ڈاکٹر ابصار احمد کے حالات و خیالات۔ فوٹو : فائل

پنجاب یونیورسٹی شعبۂ فلسفہ کے سابق چیئرمین  ڈاکٹر ابصار احمد کے حالات و خیالات۔ فوٹو : فائل

ان کے ہاں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اگر، مگر، چوں کہ، چناں چہ کے بغیر واشگاف انداز میں اپنے نظریات بیان کرتے ہیں۔

دور حاضر میں جب کہ مغرب سے مرعوب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اسلامی نظام کے متعلق بات کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں، ڈاکٹر ابصار احمد برملا پولیٹیکل اسلام اور سود سے پاک معاشی نظام کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دین اسلام انفرادی سطح پر تزکیہ نفس کے ساتھ اجتماعی سطح پر اپنا ایک معاشرتی، سیاسی اور معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے فلسفے کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی، لیکن شاید یہ قرآن و حدیث کی تعلیم اور دین کے بنیادی عقائد سے جڑے رہنے کی برکت تھی کہ جلوۂ دانش فرنگ ان کی نظروں کو خیرہ نہ کر سکا۔ انہوں نے مغربی فکر و فلسفہ سے خوشہ چینی ضرور کی لیکن اس کا ترجمان بننے سے گریز کیا۔

ڈاکٹر ابصار احمد نے 2؍اکتوبر1945ء کو ہسار، مشرقی پنجاب میں آنکھ کھولی، جو اب بھارتی ریاست ہریانہ میں شامل ہے۔ نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ابصار احمد کو گھر میں مذہبی ماحول ملا کیوں کہ والدین دینی ذوق کے حامل اور بھائی فکر اقبال کے شیدائی تھے۔ ان کا خاندان پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل تھا، ایک ماموں صغیر احمد جان اردو اور فارسی کے پروفیسر تھے۔ والدہ کے ایک ماموں ڈاکٹر زبیر احمد نے 1928ء میں برطانیہ سے عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کیا تھا۔ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے قریشی برادران ان کے والد کے ماموں زاد بھائی ہیں۔

خاندان کے اس علمی و دینی پس منظر کے ساتھ ان کی والدہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ ان کے سب سے بڑے بھائی اظہار احمد سول انجینئر تھے، جبکہ ان کے دوسرے بھائی کو دنیا ڈاکٹر اسرار احمد کے نام سے جانتی ہے۔ ڈاکٹر ابصار کہتے ہیں، ’’خاندان میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے مجھے والدین اور بہن بھائیوں کی زیادہ شفقت اور پیار ملا لیکن میں بگڑا نہیں۔‘‘

تقسیم کے وقت یہ دو سال کے تھے جب ان کے خاندان نے بیل گاڑی پر بیٹھ کر ہجرت کی اور سلیمانکی کے راستے سرحد پار کر کے منٹگمری (ساہیوال) آگیا۔ شیخ انوار الحق ہسار کے ڈپٹی کمشنر رہے تھے اور ان کے والد کی صلاحیتوں کے معترف تھے، جو ڈی سی آفس میں ریڈر تھے۔ انہوں نے ان کو منٹگمری میں مکان الاٹ کرانے میں مدد فراہم کی۔ ڈاکٹر ابصار احمد نے منٹگمری میں ہوش سنبھالا اور یہاں سے ہی ان کے تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوا۔

گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج منٹگمری میں 1960ء سے 1963ء تک تعلیم حاصل کی۔ پھر انہیں کراچی جانا پڑا، کیوں کہ خاندان کے کچھ افراد اور بھائی ڈاکٹر اسرار احمد کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ان کو سوشل سائنسز اور فلسفے کی تعلیم کی طرف راغب کرنے میں بھی ڈاکٹر اسرار احمد نے اہم کردار ادا کیا، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان شعبوں میں مغرب کی فکر غالب آ رہی ہے۔

کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے 1965ء میں فلسفہ میں بی اے آنرز اور 1966ء میں ایم اے فلسفہ کی تعلیم مکمل کی۔ پھر ان کا خاندان دوبارہ نقل مکانی کر کے لاہور آ گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انہوں نے ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا، جہاں ڈاکٹر محمد اجمل شعبے کے سربراہ تھے۔ ابھی پہلے سال کی تعلیم حاصل کی تھی کہ انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے برطانیہ میں فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ مل گیا، کیوں کہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔

برطانیہ میں پانچ سال قیام کے دوران انہوں نے ریڈنگ یونیورسٹی سے ایم فل فلاسفی اور کنگز کالج لندن سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے ڈاکٹریٹ میں”Concept of Self and Self Identity in Contemporary  Philiosophy” کے موضوع پر مقالہ لکھا۔

برطانیہ میں گزرے وقت کے بارے میں ڈاکٹر ابصار احمد بتاتے ہیں، ’’وہاں ایک مختلف ماحول اور معاشرہ دیکھنے کو ملا۔ گھر کے مذہبی ماحول اور دینی تعلیم کی وجہ سے میرے اندر ذہنی پختگی تھی۔ وہاں کے رہنے والے بھی ہمیں عزت دیتے تھے، انہیں معلوم تھا کہ ان کا الگ مذہب ہے لیکن وہ اتنا جانتے تھے کہ اہل کتاب میں سے ہیں ہم۔ بعض فورمز پر مجھے بلایا جاتا تو میں اسلام کے حوالے سے گفتگو کرتا تھا۔ اس دور میں کلونیل دور کے کچھ بوڑھے موجود تھے وہاں پر، وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوتے، کیونکہ وہ ہندوستان کے مختلف علاقوں اور وہاں کے رہن سہن سے اچھی طرح واقف تھے۔‘‘ ڈاکٹر ابصار احمد نے 1973ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں پڑھانا شروع کیا، اور 2005ء میں وہاں سے ریٹائر ہوئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ فلسفہ کے سربراہ بھی رہے۔

فلسفے کی تعلیم کتنی ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ابصار کہتے ہیں، ’’میں سمجھتا ہوں کہ صرف فلسفہ ہی نہیں بلکہ سوشل سائنسز کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ سوشل سائنسز میں تاریخ، سماجیات، معاشیات، سیاسیات اور قانون جیسے اہم مضامین شامل ہیں۔ پھر زبانوں کی اپنی اہمیت ہے۔ ان علوم کا پس منظر فلاسفیکل ہوتا ہے۔ چناں چہ آپ نے فلسفہ پڑھا ہو تو ان علوم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

سوشل سائنسز کی تعلیم ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان میں آج کل یک رخی مغربی فکر پڑھنے کو ملتی ہے، ہمارے جو طلبہ اور اساتذہ باہر کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں، انہیں ان مضامین سے متعلق اسلامی فکر و فلسفے کا علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان علوم کو پڑھ کر اسلام کی حقانیت واضح کی جائے۔ جن غیر اسلامی افکار کو فروغ دیا جا رہا ہے ان کا فکری اور علمی سطح پر جواب دینا ضروری ہے، جو کہ ان علوم کی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔‘‘

ڈاکٹر ابصار احمد فلسفے کے عملی اور اطلاقی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسفے کی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر غور و فکر نفوذ کرے۔ اس ضمن میں اخلاقی فلسفے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ کلاسیکل فلاسفی میں افلاطون اور سقراط، مغربی فلسفے میں ہیگل اور لائی بینیز، مسلم فلاسفی میں امام غزالی اور شاہ ولی اللہ کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تصور کہ امام غزالی نے مسلم فلسفے کی روایت کو نقصان پہنچایا بالکل غلط ہے۔

اس ضمن میں بتاتے ہیں، ’’امام غزالی نے انسانی سوچ کی محدودات بیان کرنے کے ساتھ عقیدے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور کہا ہے کہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور انسانی زندگی بھی ایک مقصد رکھتی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ فلسفے کے علم میں مسلمانوں کا اہم کنٹری بیوشن ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں لوگوں کو خدا سے جوڑنے کی کوشش کی، جو ایک طرح سے اسلام کی ہی خدمت ہے۔

جدید اسلامی فکر میں وہ ڈاکٹر فضل الرحمن کے بھی معترف نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’کچھ فقہی مسائل پر ان کی آراء سے اختلاف ہے، لیکن بنیادی اسلامی عقائد کو انہوں نے شاندار انداز سے فلسفیانہ پیرائے میں بیان کیا اور اس وقت کے بڑے فلاسفہ کو اپنی فکر سے متاثر بھی کیا۔ ’’میجر تھیمز ان قرآن‘‘ ان کی معرکتہ الآرا کتاب ہے۔‘‘ مولانا مودودی اور فلسطینی عالم اسمٰعیل راجی الفاروقی کی فکر نے بھی انہیں متاثر کیا۔

ڈاکٹر ابصار احمد موجودہ نظام تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی کارکردگی اور استعداد سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اساتذہ کی اکثریت اپنی ترقی کے چکروں میں رہتی ہے اور انہیں پڑھانے سے کم ہی سروکار رہتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں استاد وقت پر نہیں آتے۔ طالب علموں کی بھی تعلیم سے زیادہ دلچسپی دوسری چیزوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے طالب علموں کی اکثریت اردو یا انگریزی میں ایک پیراگراف بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتی۔ پھر نصاب تعلیم پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پہلے صرف تعلیم نہیں کہا جاتا تھا بلکہ تعلیم و تربیت کا نام ساتھ لیا جاتا تھا۔ یعنی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ اور والدین کے ساتھ اساتذہ کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کی تربیت اور رہنمائی کریں۔ بدقسمتی سے اب تربیت کا یہ کام ہمارے تعلیمی اداروں میں نہیں رہا۔‘‘

ڈاکٹر ابصار احمد اپنے اساتذہ کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔ سکول کے اساتذہ میں عابد صاحب اور مختار احمد بزمی کا نام لیتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے زمانے میں انہیں کئی نامور علمی شخصیات سے پڑھنے کا موقع ملا، کیوں کہ علی گڑھ اور یو پی کے کئی استاد کراچی آ چکے تھے۔ یہ لوگ پاکستان کی تعمیر نو کے جذبے سے سرشار تھے۔ ان اساتذہ میں ڈاکٹر ایم ایم احمد اور اشتیاق حسین قریشی جیسی شخصیات شامل ہیں۔برطانیہ میں ڈاکٹر پارکنسن اور پروفیسر ایچ اے ہاجز ان کے اساتذہ میں شامل تھے۔

پروفیسر ایچ اے ہاجز ان کے مقالے کے نگران بھی تھے، اور مذہبی رجحان رکھنے والے استاد تھے۔ ڈاکٹر ابصار کہتے ہیں، ’’میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر اسرار صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میرے لیے قرآن و حدیث کی تعلیم کا اہتمام کیا اور میرا تعلق دینی تعلیم سے جوڑا۔ جو بھی آپ پر احسان کرے آپ کو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے، چاہے وہ آپ کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اسی طرح وہ اپنے سب سے بڑے بھائی اظہار احمد اور پانچ بھائیوں میں منجھلے بھائی اقتدار احمد کے بھی ممنون نظر آتے ہیں، جنہوں نے برطانیہ میں تعلیم کے دوران ان کی مالی معاونت کی۔

ڈاکٹر ابصار احمد اب پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے علاوہ کچھ نجی یونیورسٹیوں میں بھی وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر اسرار احمد کی قائم کی ہوئی مرکزی انجمن خدام القرآن کے صدر بھی ہیں۔ انجمن کے ایک سہ ماہی مجلے ’’حکمت قرآن‘‘ کے مدیر مسؤل ہیں۔ ان کی شادی خاندان میں ہی 1973ء میں ہوئی۔ کہتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ مجھے بہت ہی اچھی تعلیم یافتہ شریک حیات ملی۔ دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے مشفق والد ہیں۔ دونوں بیٹے ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور والدین کی خدمت کرتے ہیں۔

بڑے بیٹے احمد فاروق انجینئر ہیں، جبکہ چھوٹے بیٹے احمد عمار نے ایم بی اے کیا ہے اور حافظ قرآن بھی ہیں۔ وہ ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں۔ڈاکٹر ابصار کہتے ہیں، ’’ہمیں آزاد ملک میں رہتے ہوئے جو مواقع مل رہے ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے، اور بہت سنجیدگی سے ملک کی بہتری، اپنی بہتری اور آخرت کی کامیابی کی فکر کرنی چاہیے کیوں کہ بحیثیت مسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جو زندگی ہے عارضی اور فانی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس کا اسلامی تشخص قائم ہو اور سماجی انصاف اور مساوات کو حقیقی طور پر نافذ کیا جائے۔‘‘

اقبال کو صرف متکلم کہنا غلط ہے
سید علی عباس جلالپوری نے علامہ اقبال کو علم الکلام کا آدمی کہا ہے، ان کے نزدیک اقبال فلسفی نہیں بلکہ متکلم تھے۔ انہوں نے ’’اقبال کا علم الکلام‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔ اس سے متعلق سوال پر ڈاکٹر ابصار احمد کا کہنا تھا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اگر آپ مغربی فلسفہ پڑھیں تو وہاں کے بھی جو 90 فیصد فلاسفہ ہیں وہ کوئی نہ کوئی مذہبی وابستگی رکھتے تھے۔ عمانویل کانٹ بہت بڑا نام ہے، وہ پائٹسٹ کرسچن تھا۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کا معاملہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغرب کی بھی اپنی ایک روایت ہے۔

ان کی فکر کچھ آزاد ہوتی ہے لیکن ان کا مذہبی پس منظر بھی ہوتا ہے اور یہ ان کی سوچ پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ علامہ اقبال صرف متکلم تھے، یہ مناسب نہیں۔ انہوں نے پورا فلسفہ پڑھا تھا اور پھر بحیثیت انسان غور و فکر کیا اس پر۔ اور پھر ان کا خیال یہ تھا کہ قران کی جو تعلیمات ہیں اس میں پوری انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یا ایھا الناس سے جب کچھ قرانی آیات کا آغاز ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے اس کا پیغام پوری دنیا کے لیے ہے، اس میں صرف مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا۔ بہرحال علامہ اقبال نے فلسفہ جرمنی میں پڑھا، کیمبرج کے پروفیسرز ان کے اساتذہ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت چوٹی کے فلاسفہ تھے۔ ٹھیک ہے اقبال نے اپنے خطبات میں اسلام کو پیش کیا، لیکن یہ سب کچھ انہوں نے اعلیٰ ترین فلسفیانہ محاورے اور عقلی حوالوں کے اندر رہتے ہوئے پیش کیا۔ ‘‘

 مغرب کے تصور انسانیت کی حقیقت
کیا مغرب کا انسانیت (Humanity) کا نظریہ اسلام کے لیے خطرہ بن رہا ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر ابصار احمد نے بتایا، ’’مغرب کا جو انسانیت کا تصور ہے، وہ حیوانیت کا تصور بن چکا ہے۔ وہ انسان کو بالکل حیوان کی سطح پر لے آئے ہیں اور یہ چیز ہمیں نظر بھی آتی ہے۔فرانسس فوکویاما کی جو کتاب ہے “The End of History and the Last Man” ، اس کے مطابق جو آخری آدمی ہے وہ سٹیسفائیڈ پگ یعنی مطمئن سور ہوتا ہے۔ بس کھانے کو مل رہا ہے، جنسی تعلقات کی آزادی ہے۔ لیکن اس کے ہاں کوئی اعلیٰ و ارفع مقاصد کوئی ماورائیت نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے یہ جانوروں والی سطح ہے، جو ہمارے نقطہ نظر سے انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسان صحیح معنوں میں وہی انسان ہے جو اپنے آپ کو رب کا بندہ سمجھے۔‘‘

 پولیٹیکل اسلام
یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام صرف تزکیہ نفس پر زور دیتا ہے، اسلام یقیناً تزکیہ نفس پر زور دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام صرف مذہبی رسومات کا مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ دین ہے اور دین کہتے ہیں ایک مکمل ورلڈ ویو، جس میں سماجی، سیاسی اور معاشی تمام پہلو آ جاتے ہیں۔ تو اس اعتبار سے جب آپ اس کو دین کہیں گے تو یقیناً سیاست بھی اس کے اندر آئے گی، حکومت بھی اس کے اندر آئے گی اور اقتدار بھی اس کے اندر آئے گا۔ آنحضور ﷺ نے اظہار دین حق کے لیے تکالیف برداشت کیں، جنگوں میں حصہ لیا اور جنگی مہمات روانہ کیں۔ اسلام انفرادی سطح پر لوگوں کو حق دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں دین اختیار کریں، لیکن اجتماعی سطح پر باطل نظام کو چیلنج کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتیں رسوم اور عبادات والے اسلام کو تو برداشت کرتی ہیں، لیکن پولیٹیکل اسلام کی سخت مخالف ہیں۔ اگر آپ وہاں سود کے خلاف، پردے کے حق میں، یا مسلمانوں کی حکومت کے ضمن میں کام کریں یا تقریر کریں تو آپ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شبیر اختر موجودہ عہد کے ایک نامور مسلمان فلسفی ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ جب آپ ﷺ نے اعلان نبوت کیا، اس کے ساتھ ہی ایک اسلامی ریاست کا قیام بھی عمل میں آ گیا۔ انہوں نے دین اور ریاست کی جڑواں پیدائش لکھا ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان ہے: “Islam as Political Religion: The Future of an Imperial Faith”  انہوں نے ’’ایمپریل فیتھ‘‘ ان معنوں میں کہا ہے کہ ہم مسلمان اللہ کی بادشاہت کو تسلیم کرتے ہیں اور اللہ کے قانون اور شریعت کو پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 ڈاکٹر اسرار احمد کا تصور خلافت
میرے خیال میں ڈاکٹر اسرار صاحب کا خلافت کا تصور نیا نہیں تھا۔ وہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قائل تھے۔ خلافت راشدہ کو ہم سب مانتے ہیں۔ خلافت کا تصور، سیاسی سطح پر امارت کا تصور ہے۔ اب اس طرح کا قبائلی نظام تو نہیں ہے، جیسے پہلے ہوتا تھا۔ ظاہر ہے اب ہم نے جدید ریاستی اداروں کے اندر اس روح کو رائج کرنا ہے۔ یعنی مغرب سے ہم نے حکومت سازی کے جو ادارے لیے ہیں، وہ تو اسی طرح رہیں گے، لیکن اس میں اسلامی روح کو مدنظر رکھا جائے گا۔ ووٹنگ بھی ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب آخر میں کہتے رہے ہیں کہ حکومت کا صدارتی نظام، خلافت کے زیادہ قریب ہے۔ یہ نظام امریکہ میں بھی رائج ہے اور فرانس میں بھی۔ جس کے اندر حکومت کا ایک سربراہ منتخب ہوتا ہے جسے صدر کہتے ہیں، اور وہ صرف منتخب نمائندوں میں سے ہی وزیر نہیں لیتا، بلکہ جہاں بھی اسے ماہرین نظر آئیں وہاں سے لیتا ہے۔ ترک خلافت عثمانیہ کی علامتی حیثیت تھی، اس کے خاتمے پر علامہ اقبال نے دکھ کا اظہار کیا۔پھر یہ دیکھیں کہ خلافت کی اصطلاح قرآن کی ہے۔ انسان کی تخلیق کو زمین پر اللہ کا خلیفہ یا نائب کہا گیا۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ایک اسلامی بلاک بنے اور اس میں سے چاہے علامتی حیثیت میں ہی ایک خلیفہ بنایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔