ٹیکس ڈیوٹی بچانے کیلیے آزاد تجارتی معاہدوں کا استعمال بے نقاب

احتشام مفتی  جمعرات 6 اپريل 2017
پولیسٹر ڈائیڈفیبرک پرسافٹاکے ذریعے3کروڑسے زائد، سنگاپوری کپڑے کوچینی ظاہر کر کے 62.8لاکھ ٹیکسز بچائے گئے،ذرائع۔ فوٹو: فائل

پولیسٹر ڈائیڈفیبرک پرسافٹاکے ذریعے3کروڑسے زائد، سنگاپوری کپڑے کوچینی ظاہر کر کے 62.8لاکھ ٹیکسز بچائے گئے،ذرائع۔ فوٹو: فائل

 کراچی: پاکستان کسٹمز کے ماتحت اداروں نے آزاد تجارتی معاہدے، سافٹا کے ناجائزاستعمال اورجعلی بل آف لیڈنگ پرہونے والی کلیئرنس کوبے نقاب کرتے ہوئے ریونیو کی مد میں قومی خزانے کومجموعی طور پر6 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے نقصانات کی نشاندہی کرتے ہوئے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے درآمدکنندگان کو نوٹسز جاری کردیے۔

ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمزانٹیلی جنس اینڈانویسٹی گیشن  نے بعداز کسٹمز کلیئرنس درآمدات کے ڈیٹاکی جانچ پڑتال کی تو انکشاف ہواکہ درآمدکنندگان میں شامل میسرز پی جی انٹرپرائزز، میسرزدی ٹائمز، میسرز ڈبلیواے ٹریڈنگ، میسرز پرولائن پروڈکٹ، میسرز ایس اے انٹرپرائزز، میسرز کوثر ٹیکسٹائل، میسرز ملک کارپوریشن، میسرز قاس کنٹینرز اور میسرز جوپیٹرٹریڈنگ ودیگر کی جانب سے درآمدکیے گئے پولسیٹر شرٹنگ فیبرک کے متعدد کنسائمنٹس کی کلیئرنس کے عمل میں پاک چائنا فری ٹریڈایگریمنٹ سے استفادے کے لیے پاکستان کسٹمز ٹیرف (پی سی ٹی) نمبر 5407.5200 کواستعمال کیا گیا اورقومی خزانے کو 2 کروڑ 27 لاکھ 35 ہزار 323 روپے کانقصان پہنچایا گیا حالانکہ پولیسٹرشرٹنگ فیبرک کی کلیئرنس کے لیے پی سی ٹی نمبر 5407.4200کا استعمال کیاجاتاہے جس کے تحت پاک چائنا فری ٹریڈ ایگریمنٹ سے استفادہ نہیں کیاجاسکتا۔

ذرائع نے بتایاکہ پولیسٹر شرٹنگ فیبرک کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس پر فری ٹریڈایگریمنٹ کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے  میسرز ازاے جی انٹرپرائززنے 12لاکھ 52ہزار788روپے، میسرز پی جی انٹرپرائزز نے51لاکھ 12 ہزار103روپے، میسرزدی ٹائمز10نے لاکھ 42ہزار898روپے، میسرز ڈبلیواے ٹریڈنگ نے12لاکھ 50ہزار599روپے، میسرز پرولائن پروڈکٹ نے 13 لاکھ 4 ہزار 238 روپے، میسرزایس اے انٹرپرائززنے 16لاکھ 61 ہزار 866 روپے، میسرز کوثر ٹیکسٹائل نے14 لاکھ 52 ہزار 736روپے، میسرز ملک کارپوریشن نے12لاکھ 15 ہزار 787 روپے، میسرز قاس کنٹینرز نے25 لاکھ 29ہزار 501 روپے اور میسرزجوپیٹرٹریڈنگ نے 59لاکھ 11ہزار 717 روپے کا ریونیو نقصان پہنچایا۔

دریں اثناپاکستان کسٹمزپورٹ قاسم کلکٹریٹ سے پولیسٹر ڈائیڈ فیبرک کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس کے لیے ساؤتھ ایشین فری ٹریڈ ایگریمنٹ (سافٹا) کا غلط استعمال کرکے قومی خزانے کو3کروڑسے زائد کے نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے تاہم پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹرساجد علی بلوچ نے پورٹ قاسم کسٹمزکلکٹریٹ سے کلیئر ہونے والے پولیسٹر ڈائیڈفیبرک کے درآمدی کنسائمنٹس کی بعدازکلیئرنس ڈیٹا کا آڈٹ کیا تو نشاندہی ہوئی کہ میسرز ال یوسف انٹرپرائزز، میسرزجی این کے انٹرپرائزز، میسرز ملک کارپوریشن ، میسرز ہوریزون انٹرنیشنل، میسرز ایچ ایس یونیکورن مارٹ، میسرز جی ایم انٹرپرائززنے اگست 2016 تا مارچ2017کے دوران پولیسٹر ڈائیڈ لیڈیز سوٹ، شرٹ فیبرک، پولیسٹر ڈائیڈ فیبرک کے 30 سے زائد کنسائمنٹس کی کلیئرنس کے لیے پی سی ٹی نمبر 5407.4200 کا سہارالے کرسافٹا کی سہولت کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے کسٹمزڈیوٹی کی مدمیں16کے بجائے 5 فیصد ادائیگیاں کیں جس پرپوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے مذکورہ درآمدکنندگان کو آڈٹ آبزرویشنزجاری کی گئیں تاکہ درآمدکنندگان اپنی صفائی میں متعلقہ دستاویزات پیش کرسکیں لیکن درآمدکنندگان کی جانب سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا جس پر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نے مذکورہ درآمدکنندگان کے خلاف مزید کارروائی کے لیے بنائی جانے والی کنٹراونشن رپورٹ متعلقہ کسٹمزایڈجیوڈکیشن کلکٹریٹ کوارسال کردی۔

دوسری جانب ایک اورکیس میں کسٹمزاپریزمنٹ ایسٹ آر اینڈ ڈی نے جعلی بل آف لیڈنگ کے ذریعے کپڑے کے درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس پر62لاکھ روپے سے زائدکی ڈیوٹی وٹیکسوںکی چوری بے نقاب کرتے ہوئے امپورٹرز، کلیئرنگ ایجنٹس وشپنگ کمپنی کیخلاف 13ایف آئی آر درج کرلیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز اپریزمنٹ ایسٹ کلکٹریٹ کے شعبہ آراینڈڈی نے 2011 تا 2015 میں کلیئرہونے والے کپڑے کے کنسائمنٹس کے ڈیٹاکی جانچ پڑتال کی تو نشاندہی ہوئی کہ درآمدکنندگان میسرز شفی ٹریڈرز، میسرز محمد اسحق، میسرز اے ٹی ایس سینتھٹک اورکلیئرنگ ایجنٹس میسرزٹائم کلیئرنگ ایجنسی، میسرز چھورا اینڈ کو اور ایس کے انٹرپرائزز نے سنگاپورسے درآمدکیے گئے کپڑے پرایف ٹی اے کی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کیلیے شپنگ کمپنی میسرز یونائٹیڈ میرین ایجنسی سے مل کربل آف لیڈنگ میں ردبدل کرکے چینی ظاہرکیا جس سے قومی خزانے کو ڈیوٹی وٹیکسز کی مد میں 62لاکھ 79ہزار کا نقصان پہنچایا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔