دنیا بھر میں 32 کروڑ سے زائد افراد ’ڈپریشن‘ کا شکار ہیں

محمد عاطف شیخ  اتوار 9 اپريل 2017
ذہنی صحت کی سہولیات کا یہ ملکی منظر نامہ ہمارے اربابِ اختیار کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ فوٹو : فائل

ذہنی صحت کی سہولیات کا یہ ملکی منظر نامہ ہمارے اربابِ اختیار کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ فوٹو : فائل

کیا آپ مسلسل اُداس اور افسردہ رہتے ہیں؟ کیا آپ کی اپنے پسندیدہ مشاغل میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے؟ کیا آپ اپنے آپ کو بلاوجہ قصوروار تصور کرتے رہتے ہیں؟کیا آپ اپنے آپ کو ناکارہ اور فالتو خیا ل کرتے ہیں؟ کیا آپ کو نیند کی کمی کا سامنا ہے؟ کیا آپ کا ہاضمہ اکثر خراب رہتا ہے اور آپ کا وزن کم ہو رہا ہے؟کیا آپ جلد تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں؟ کیا آپ اکثر ماضی کے پچھتاوے میں مبتلا رہتے ہیں؟ کیا آپ سرد مہری کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں؟ آپ چڑچڑے ہوگئے ہیں؟ یا آپ کو توجہ مرکوز کرنے، یاداشت میں کمی اور فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا ہے؟ آپ جلد نااُمیدی کا شکار ہو جاتے ہیں؟ آپ کو خودکشی کے خیال آتے ہیں یا آپ نے خود کشی کی کوشش کی ہو؟ اگر آپ ان میں سے کم از کم چار یا اس سے زائد مسائل کا دو ہفتہ سے زائد شکار ہیں تو جان لیجئے کہ ہوسکتا ہے آپ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوں ا ور آپ اسے روزمرہ زندگی کی مصروفیات کا کوئی وقتی نتیجہ سمجھ رہے ہوں۔

ذہنی بیماریوں کو عموماً بیماری کے طور پر نہیں لیا جاتا بلکہ پاگل پن یا اثر تصور کیا جاتا ہے لیکن جدید سائنس اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی بیماریاں بھی ہوتی ہیںاور وہ بھی دیگر امراض کی طرح قابل علاج ہیں۔ ان ہی بیماریوں میں ایک ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ بھی ہے جو اس بار 7 اپریل کو دنیا بھر میں منائے جانے والے صحت کے عالمی دن کا عنوان بھی ہے۔

ڈپریشن غربت، بے روزگاری، زندگی کے معمولات میں تبدیلی جس میں موت یا کسی چاہنے والے سے دوری، جسمانی بیماریاں، الکوحل اور منشیات سے پیدا ہونے والے مسائل،دماغ میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں،وراثتی (جینز) اثرات، انسانی رویوں، جذباتی تعلق اور نفسیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کے باعث بھی لاحق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب آپ بہت زیادہ ذہنی دباؤ یا جسمانی تھکن کا شکار ہوں اور بالکل تنہا ہوں تو ایسی صورت میں ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو زندگی کے کسی بھی حصہ میں ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا عموماً آغاز نوجوانی (Young Age) میں ہو تا ہے۔ یہ بیماری آپ کو معاشرے سے کاٹ دیتی ہے اور آپ روزمرہ زندگی کے معمولات سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔ جس سے آپ کی آمدن متاثر ہوتی ہے اور آپ کے معیار زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آپ کو پاگل پن کے طعنہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین اس بیماری کی وضاحت یوں بھی کرتے ہیںکہ یہ بیماری بنیادی طور پر بیالوجیکل اور وراثتی ہے جسے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات بڑھاتے اور برقرار رکھتے ہیں۔

یہ مرض دنیا میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 2005 سے2015 تک دس سالوں میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں18.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اور یہ 32 کروڑ20 لاکھ کی تعداد تک پہنچ چکے ہیں۔ جو دنیا کی آبادی کا4.4 فیصد ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی2017 میں جاری شدہ رپورٹ ڈپریشن اینڈ آدرکامن مینٹل ڈس آرڈرز گلوبل ہیلتھ اسیسمنٹ کے اعدادوشمار کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ دنیا میںسب سے زیادہ ڈپریشن کے مریض بھارت میں موجود ہیں جن کی تعداد 5 کروڑ66 لاکھ 75 ہزار سے زائد ہے۔ دوسرے نمبر پر چین ہے جہاں5 کروڑ48 لاکھ15ہزار سے زائد ڈپریشن کے مریض ہیں۔ امریکہ ایک کروڑ74 لاکھ91 ہزار کی تعداد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس درجہ بندی میں پاکستان 74 لاکھ36 ہزار مریضوں کے ساتھ دنیا بھر میں7 ویں نمبر پر ہے۔

ذہنی امراض کے بارے میں عموماً ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ امیروں کے مسائل ہیں جو کہ بالکل غلط ہے کیونکہ یہ درمیانی آمدن اور کم آمدن کے حامل افراد یا ممالک میں بھی اتنی ہی شدت سے موجود ہیں جتنا کہ امیر افراد یا ممالک میں۔ جس کی تائید ان حقائق سے بھی ہو رہی ہے کہ دنیا کے پہلے دس ممالک جہاں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اُس میں درمیانے درجہ کی آمدن اور کم آمدن کے حامل ممالک کی تعداد 8 ہے۔ یعنی بھارت، چین، برازیل، انڈونیشیا، روس، پاکستان، نائیجیریا اور بنگلہ دیش جبکہ امیر ممالک میں امریکہ اور جاپان پہلے10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس وقت جنوبی ایشیاء کے آٹھ ممالک میں دنیا کے24 فیصد ڈپریشن کے مریض موجود ہیں۔

اگر ہم ڈپریشن کی حامل آبادی کے تناسب کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیں تو 2015 میں 183ممالک جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ان کے تجزیہ کے مطابق یوکرائن کی سب سے زیادہ آبادی کا تناسب اس مرض میں مبتلا ہے۔ جہاں آبادی کا 6.3فیصد ذہنی دباؤ کی بیماری میں جکڑا ہوا ہے۔اس کے بعد بالترتیب آسٹریلیا، اسٹونیا اور امریکہ کا نمبر ہے جہاں کی 5.9 فیصد آبادی اس مرض سے متاثر ہے۔

پاکستان اس درجہ بندی میں دنیا بھر میں116 ویں نمبر پر ہے اورملک کی4.2 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔ مردوں کی نسبت خواتین اس مرض کے زیادہ زیر اثر ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر 5.1 فیصد خواتین اور3.6 فیصد مرد اس مرض کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی اس مرض کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث سے حمل کے دوران اور بعد ازحمل 6 ماہ تک ہر 100 خواتین میں سے ایک خاتون ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔

امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق خواتین میں ڈپریشن کی علامات میں اُداسی کا زیادہ محسوس ہونا، اپنے آپ کو بے کار اور فالتو خیال کرنا، اپنے آپ کو زیادہ قصوروار سمجھنا نمایاں ہیں۔ مردوں میں اس مرض کی علامات تھکاوٹ، چڑچڑاپن، پسندیدہ مشاغل میں دلچسپی کا فقدان اور سونے میں مسائل کا سامنا کرنا وغیرہ ہیں۔ جبکہ بچے ڈپریشن کا شکارہو کر اسکول جانے سے انکار کرتے ہیں۔ والدین سے چمٹے رہتے ہیں اور والدین کے مر جانے کے اندیشہ کا شکار رہتے ہیں۔

بڑے بچوں میں ڈپریشن روٹھ جانا، اسکول میں مسائل کا شکار ہونا، منفی رویہ، چڑچڑاپن اور اپنے آپکو صحیح طور پر سمجھے نہ جانے کی شکایت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ڈپریشن کا شکار ہو کر وہ لڑائی جھگڑوں میں ملوث بھی ہوجاتے ہیں یعنی پرُتشدد ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بزرگ افراد میں تھکاوٹ محسوس کرنا، سونے میں مسائل کا سامنا کرنا، بد مزاجی، چڑچڑاپن، ابہام کا شکار اور توجہ حاصل کرنے کے مسائل کے ساتھ ساتھ رعشہ جیسی علامات ڈپریشن ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

ذہنی دباؤ بعض اوقات کئی ایک دوسری بیماریوں یعنی ذیابیطس، کینسر، دل کی بیماریاں اور رعشہ وغیرہ کا باعث بنتا ہے اور کبھی یہ اور دیگر بیماریاں ڈپریشن کا موجب بھی بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ ادویات کے سائیڈ ایفکٹ بھی اس مرض کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ ڈپریشن کا سب سے زیادہ شدت انگیز نتیجہ خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جو دنیا میں2015 کے دوران رونما ہونے والی ہلاکتوں کی 20 ویں بڑی وجہ کی صورت میں سامنے آئی۔اور مذکورہ سال7 لاکھ88 ہزار اموات کا باعث بنی۔

خود کشی دنیا میں ہونے والی ہلاکتوں کا1.5  فیصد ہے اور15 سے29 سال کے نوجوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ۔ عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ہیلتھ اسٹیمیٹس2016 کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 2015 میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خود کشیاں بھارت میں ہوئیں جن کی تعداد 2 لاکھ6 ہزار سے زائد تھی جبکہ چین دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر رہے، جہاں بالترتیب ایک لاکھ 86 ہزار اور45 ہزار 9 سو سے زائد افراد نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کی۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہی تینوں ممالک دنیا بھر میں موجود ڈپریشن کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد کے حامل ہیں۔

پاکستان خود کشیوں کے کیسز کے اعتبار سے اس درجہ بندی میں33 ویں نمبر پر ہے جہاں2015 میں خودکشی کے3913 کیسز ہوئے۔ خود کشیوں کے حوالے سے جنوب ایشیا کی صورتحال یہ بتاتی ہے کہ مذکورہ سال دنیا کی29 فیصد Self Harm   کے نتیجے میں ہونے والی اموات ( خودکشی) کے کیسزاس خطے میں رونما ہوئے۔

ہر40 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک خود کشی اور اس کے علاوہ اقدام خود کشی کے کیسزبھی ڈپریشن کے مرض کی شدت اور اس کے موثر علاج و معالجے کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔ کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں خودکشی کے ہر ایک کامیاب کیس کے مقابلے میں20 اقدام خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کے مریض کا اپنے سے وابستہ لوگوں کے بارے میںشکوک و شبہات میں مبتلا ہوکر لوگوں کو قتل کرنے تک کی صورتحال کا بنیادی محرک بھی یہ مرض ہے۔ جس کے علاج معالجے کی سہولیات کو اکثر ممالک میںکوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔

ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ کی ڈپریشن اے گلوبل کرائسسز نامی دستاویز کے مطابق دنیا میں25 فیصد سے بھی کم ڈپریشن کے مریضوںکو اس کے علاج کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ذہنی صحت کے شعبے کو بری طرح نظر اندازکیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس حقیقت کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ2014 میں دنیا کی45 فیصد آبادی ایسے ممالک میں رہائش پذیر تھی جہاں فی لاکھ آبادی کے لئے اوسطً ایک سے بھی کم تعداد میں سائیکاٹرسٹ موجود تھا۔ دوسرے الفاظ میں دنیا کے60 ممالک میں فی لاکھ آبادی کے لئے ایک سے بھی کم تعداد میں سائیکاٹرسٹ دستیاب ہے جبکہ دنیا میں اس شعبے میں کام کرنے والی نرسسز کی تعداد 7.7 فی لاکھ آبادی ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول جو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں۔ ڈپریشن کے علاج میں لوگوں کی طرف سے برتے جانے والی غفلت کی وجوہات میں لوگوں میں مرض کے بارے میں کم آگہی، مرض کی علامات سے عدم واقفیت، مناسب معالج کا انتخاب نہ کر پانا، ذہنی امراض کو بیماری نہ ماننا اوران کے علاج معالجے کی سہولیات کی محدود دستیابی اور وہ بھی صرف بڑے شہروں تک محدود ہونے کے ساتھ ساتھ ان امراض کے ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز کا مریض کو اتنا وقت نہ دینا جتنا کہ دینا چاہئے، نمایاں وجوہات قرار دیتے ہیں۔

غلام رسول کا کہنا ہے کہ اِن وجوہات اور دیگر عوامل کی بنا پر ملک میں صرف 2 فیصد ڈپریشن کے مریض علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ کے پاس آتے ہیں جبکہ 98 فیصد دیگر ذرائع اور سہولیات سے رجوع کرتے ہیں جن میں مختلف طرح کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، حکیم، دائی اور مولوی صاحب شامل ہیں۔ انھوں نے مزیدبتایا کہ ڈپریشن کے70 سے80 فیصد مریض منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیہویریل سائنسز کوئٹہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے لئے ملک بھر میں موجود 300 کے قریب ورکنگ سائیکاٹرسٹ کی تعداد انتہائی نا کافی ہے ۔ جسے ہمارے ملک کے تناظر میں9 ہزار ہو نا چاہئے۔ اس کے علاوہ ایک آئیڈیل سائیکاٹری ٹیم کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک سائیکاٹرسٹ کے ساتھ 4 نرسز، 6 سوشل ورکرز اور4 سائیکالوجسٹ پر مشتمل ٹیم ہونی چاہئے۔

اگر ہم پاکستان میں ذہنی صحت کے شعبے میں موجود سہولیات کا جائزہ لیں تو اس میں ہماری کسمپرسی کا اظہار عالمی ادارہ صحت کے 2014 کے یہ اعدادوشمار کرتے ہیں۔کہ ملک میں فی لاکھ آبادی کے لئے سائیکاٹرسٹ کی تعداد اعشاریہ 31 (o.31 ) ہے جبکہ سائیکالوجسٹ کی تعداد فی لاکھ ایک ہے۔ اسی طرح ذہنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی نرسز کی تعداد فی لاکھ آبادی کے مقابلے میں 15.43 ہے اور سوشل ورکرز کی تعداد2.32 ہے۔

یوں پاکستان فی لاکھ سائیکاٹرسٹ کی تعدادکے حوالے سے دنیا بھر میں89 ویں نمبر پراور سائیکالوجسٹ کی تعداد کے اعتبار سے50 ویںنمبر پر ہے جبکہ ذہنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی نرسز اور سوشل ورکرز کے لحاظ سے بالترتیب29 اور 17 ویں نمبر پر ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں ذہنی صحت کے شعبے میں موجود طبی سہولیات کی منظر کشی WHO کا مینٹل ہیلتھ اٹلس 2011 یوں کرتا ہے کہ2010 میں ملک کے جنرل ہسپتالوں میں ذہنی امراض کے مریضوں کے لئے موجود بستروں کی تعداد 3231 تھی یعنی فی لاکھ آبادی کے لئے محض 1.74 بستر جبکہ ملک کے 5 مینٹل ہسپتالوں میں موجود بستروں کی تعداد 1825 تھی جو فی لاکھ افراد کے لئے ایک سے بھی کم یعنی0.98 بنتی تھی۔

ذہنی صحت کی سہولیات کا یہ ملکی منظر نامہ ہمارے اربابِ اختیار کی فوری توجہ کا متقاضی ہے کیونکہ جن حالات میں ہمارے روزوشب گزر رہے ہیں یہ ہمیں مستقل نہیں تو وقتی طور پر ڈپریشن کا شکار ضرور کردیتے ہیں۔ جس کے مضمرات سے یقیناً بچا جا سکتا ہے اس کے علاج کی بدولت، ڈپریشن کے بارے میں زیادہ آگاہی سے، اس سے بچنے اور اس کے علاج کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات سے۔ اور یوں اُس طعنہ سے بھی جو اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کے علاج کی طرف کم ہی مائل ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔