عظیم خوشامدیوں سے زیادہ کچھ نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 8 اپريل 2017

اگر آپ عظیم یونانی مفکر لونجائس کی پہلی صدی میں لکھی گئی تصنیف کا چوالیسواں باب پڑھیں تو آپکی ملاقات خود سے پہلی صدی میں بھی ہوجائیگی۔ وہ لکھتا ہے ’’آج کل ہم بچپن ہی سے غلامی کے سبق سیکھتے اور یاد کرتے ہیں اور پھر جسکے ہم عادی ہوجاتے ہیں، ہمارے دماغ شروع ہی سے غلامی کے رسوم و رواج سے رچ بس جاتے ہیں اور ہم خطابت کے انتہائی بار آور مخرج یعنی آزادی کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس طرح ہم عظیم خوشامدیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوپاتے‘‘۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی غلام مقرر نہیں بن سکا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آزادی اظہار سے محروم ہوتا ہے اور وہ ایک بند تہہ خانے میں زندگی بسر کرتا ہے، اسے کسی وقت بھی پیٹا جاسکتا ہے اور وہ گڑگڑا کر زمین سے اٹھتا ہے۔ جیسا کہ ہومر کہتا ہے کہ ’’ہماری غلامی کا دن ہماری آدھی مردانگی لے جاتا ہے‘‘۔ یہ ہی فلسفی آگے چل کر کہتا ہے کہ ’’جیسے وہ پنجرے، جن میں بالشتیے یا بونے رکھے جاتے ہیں اسی نام سے انھیں موسوم کیا جاتا ہے، نہ صرف ان کی نشوونما کو جو ان میں قید ہیں، روک دیتے ہیں اور اگر یہ بات جو میں سنتا ہوں صحیح ہے بلکہ انھیں ان بیڑیوں اور زنجیروں سے بھی نقصان پہنچتا ہے جو ان کے جسم کے چاروں طرف بندھی ہوئی ہیں۔

اس طرح ہر ایک کی غلامی، خواہ وہ کتنی ہی منصفانہ ہو، روح کے لیے ایک پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے، ایک عام قید خانہ‘‘۔ دولت کی ہوس وہ کبھی نہ ختم ہونے والی آرزو ہے جسکے آج ہم سب شکار ہیں اور عیش طلبی ہمیں اپنا غلام بنائے ہوئے ہے یا یوں کہیے کہ ہماری زندگیوں کو، روح اور جسم دونوں کو گہرے گڑھے میں دھنسا دیتی ہے۔ دولت کی ہوس ایسی بیماری ہے جو ہمیں تنگ دل و تنگ نظر بنا دیتی ہے اور عیش پرستی بالکل ذلیل صفت ہے۔ مزید غور کرنے پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہم بے پناہ دولت حاصل کرنے کی قدر کرتے ہیں یا بات کو سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اسے دیوتا سمجھتے ہیں تو پھر کیسے ہم ان بدیوں کو جودولت سے وابستہ ہیں، اپنی روحوں میں سرائیت کرجانے سے روک سکتے ہیں؟

کیونکہ بیشمار و بے حساب دولت کے ساتھ ساتھ، قدم بہ قدم اصراف بیجا اور فضول خرچی آتی ہے اور جیسے ہی وہ شہروں اور گھروں کے دروازے کھول دیتی ہے، ویسے ہی دوسری برائیاں داخل ہوجاتی ہیں اور وہاں اپنے گھر تعمیر کرلیتی ہیں۔ وقت گزرنے پر، فلسفیوں کے مطابق، وہ ہماری زندگیوں میں گھونسلے بنالیتی ہیں اور جلدی ہی بچے دینے لگتی ہے۔

ظاہرداری، بیجا غرور، آرام طلبی و عیش پسندی اسی کے بچے ہیں اور دولت کے یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں سنگدل آقاؤں کی گستاخی، بدتمیزی، لاقانونیت اور بے حیائی و بے شرمی کو جنم دیتے ہیں پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نہ نظر اٹھا کر دوسروں کو دیکھیں گے اور نہ نیک نامی کا خیال کرینگے۔ ان کی زندگی رفتہ رفتہ برباد ہوجائیگی اور روح کی رفعت اس وقت مرجھا کر ذلت و خواری میں غرق ہوجائیگی جب وہ فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں محو ہوکر لافانی قوتوں کی نشوونما کو بالائے طاق رکھ دینگے۔’’ایک شخص جس نے کسی فیصلے کے سلسلے میں رشوت لی ہو، کسی انصاف اور عزت کے معاملے میں صحیح اور غیر جانبدار جج نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک بے ایمان جج اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ معزز اور منصفانہ سمجھتا ہے اور اب جہاں رشوت ہماری ساری زندگی پر حاوی ہوگئی ہے اور ہم دوسروں کو چن چن کر مار ڈالتے ہیں اور جائیدادوں کے لیے طرح طرح کے مکر و فریب کے جال پھیلاتے ہیں اور اپنی روحوں کو ہر طرح اور ہر صورت سے مفاد کے لیے بیچتے ہیں۔

کیا عیش کے غلام ہوکر ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری زندگی کی اس بربادی میں ان تصانیف کا، جن میں حیات ابدی اور شکوہ موجود ہو، کوئی بھی ایسا غیر جانبدار اور دیانتدار جج ہوگا جو اپنے مفاد و غرض کے جذبے سے پسپا نہ ہوجائیگا؟ ہم جیسے آدمیوں کے لیے یہ بہتر ہے کہ ہم بجائے آزاد کے غلام ہی رہیں۔ اگر ہمیں مکمل آزادی مل جائے تو چھوٹے ہوئے قیدیوں کی طرح، اپنے پڑوسیوں کے مال پر ہماری للچائی ہوئی نظر ساری دنیا میں ہماری برائیوں سے آگ لگا دے گی‘‘۔ لونجائس کی تحریر پڑھ کر یہ بات اب طے ہوگئی ہے کہ پہلی صدی میں بھی ہم موجود تھے، آج بھی ہم موجود ہیں اور آخری صدی میں بھی ہم موجود ہونگے۔

ہاں البتہ پہلی صدی میں ہمارا رنگ و روپ، نسل، زبان، حلیہ، موجودہ رنگ و روپ، نسل، زبان اور حلیے سے مختلف تھا لیکن ہماری نیت، کردار اور کرتوت جوں کے توں تھے، آج بھی جوں کے توں ہیں اور آخری صدی میں بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔ نہ ہم نے کل اپنے جیسے انسانوں کو چین و سکھ سے جینے دیا ہے اور نہ ہی آج جینے دے رہے ہیں اور نہ ہی آخری صدی میں جینے دینگے۔ دنیا بدلتی ہے تو بدلتی رہے لیکن ہم کبھی بھی نہیں بدلیں گے۔ یہ ہمارا اپنے آپ سے وعدہ اور عہد ہے اور جہاں جہاں، جب جب ہمیں موقع ملتا رہے گا ہم خرابیاں اور برائیاں پیدا کرتے رہیں گے۔

ویسے ایک بات راز کی ہے لیکن آپس میں کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں کرپشن، لوٹ مار، غبن، فراڈ، دھوکا دہی ہو رہی ہے، ان کے پیچھے اگر غور سے دیکھیں تو ہم ہی کھڑے مسکرا رہے ہونگے اور ہمارے علاوہ کوئی دوسرا ہو بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ان کاموں کی مہارت صرف اور صرف ہمیں ہی عطا کی گئی ہے۔ یہ خداداد صلاحیتیں ہیں، اس لیے کوئی دوسرے انسان تو یہ کام کرہی نہیں سکتے ہیں لیکن اگر پھر بھی کوئی دوسرے یہ کام کرنے کی ضد کرینگے تو اگلے ہی لمحے خود کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پائینگے۔

اگر آپ کو میری بات پر شک ہے تو آپ ہی بتلادیں کہ 70 سال میں ہم میں سے کبھی کسی کو کرپشن، لوٹ مار پر سزا ہوئی ہے، کوئی کبھی جیل گیا ہے، کبھی کسی نے اپنے کرتوتوں پر قوم سے معافی مانگی ہے، کبھی کوئی اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوا ہے، کبھی کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے، کبھی کسی نے لوٹی ہوئی دولت واپس کی ہے، کبھی کسی نے آج تک دولت کے علاوہ انسانوں کو دیوتاؤں کا درجہ دیا ہے، کبھی کسی نے اپنے جیسے انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہیں؟

اگر نہیں تو پھر کیا بے شرمی اور بے حیائی کی حد نہیں ہوگئی ہے۔ تو پھر کیا ایسے نظام کو آگ نہیں لگا دینی چاہیے جس میں دولت دیو بن چکی ہے اور انسان بونے بن گئے ہیں اور گلی گلی میں دولت کی پوجاکی جارہی ہے لیکن ایک بات ہم سب کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آپ کسی شخص کو کچھ عرصے کے لیے تو ضرور دولت کی خاطر زنجیروں میں قید رکھ سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔ ایک تو یہ کہ کچھ عرصے بعد زنجیریں اتنی زنگ آلود ہوچکی ہوتی ہیں کہ وہ خودبخود ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ لوگ اپنے بڑھتے ہوئے شعور اور ادراک کی وجہ سے ایک روز نہ صرف زنجیریں خود توڑ دیتے ہیں اور وہ ہی زنجیریں پہنانے والوں کو پہنا دیتے ہیں۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں، باربار پڑھ لیں، ہمیشہ ہی سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔