مردم شماری کے نتائج سے متعلق سائنسی پیش گوئیاں

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 8 اپريل 2017
51 ملین کی آبادی کے ساتھ ہم سندھ کو باآسانی دو صوبوں میں اور 119 ملین کی آبادی کے ساتھ پنجاب کو 3 صوبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

51 ملین کی آبادی کے ساتھ ہم سندھ کو باآسانی دو صوبوں میں اور 119 ملین کی آبادی کے ساتھ پنجاب کو 3 صوبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

Census کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ Censere سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب تخمینہ لگانا ہے۔ اردو میں ہم اِسے مردم شماری کہتے ہیں۔ مردم شماری کے بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً آپ کو پتہ لگتا ہے کہ آپ کے ملک میں کل کتنے نفوس رہائش پذیر ہیں؟ آپ کو اُن کے نظام کیلئے کتنے سرکاری ادارے و افسران تعینات کرنے ہیں۔ بجلی کہاں سے آئے گی؟ پانی کہاں سے آئے گا؟ غذائی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ الیکشن میں کتنے پولنگ اسٹیشنز اور ووٹر ہوں گے؟ اور انتظامی امور ٹھیک سے چلانے کے لیے ملک کو کتنے صوبوں اور تحصیلوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے؟ صوبوں میں لوگوں کی آبادی کے تناسب سے صحت، تعلیم، معیشت، پانی اور دیگر قدرتی و غیر قدرتی ذرائع کی تقسیم بھی اسی شماریاتی مہم جوئی کی مرہون منت ہے۔

مردم شماری کا آغاز دنیا میں غالباً اہلِ یونان اور چینیوں نے کیا۔ جب اُن کے بادشاہ جنگوں کیلئے بالغ افرادی قوت کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں یہ تخمینہ ٹیکس اور اِس طرح کے حکومتی  واجبات کی ادائیگی اور بجٹ کیلئے لگایا جانے لگا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عیسائی اکاؤنٹینٹ جنرل کو بلوایا تھا کہ اُمت مسلمہ کے خرچوں کا حساب کتاب بناسکے۔

پاکستان میں آج تک 5 مرتبہ یہ فرض ادا ہوچکا ہے۔ پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی تھی جس میں آج کے پاکستان (بنگلہ دیش کو نہیں گِنا جا رہا) کی آبادی 33 ملین یعنی 3 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ دوسری مردم شماری 1961ء میں ہوئی جس میں آبادی بڑھ کر 42 ملین یعنی 4 کروڑ 20 لاکھ ہوگئی۔ تیسری مردم شماری ایک سال کی تاخیر سے 1972ء میں ہوئی جس میں آبادی بڑھ کر 65 ملین یعنی 6 کروڑ 50 لاکھ ہوگئی۔

پاکستانی آئین کے مطابق حکومت کو ہر 10 سال میں ایک مردم شماری کروانی چاہئے مگر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے باعث ہم ایک سال کی تاخیر کا شکار ہوگئے۔ اِس تیسری مردم شماری میں ملک کی آبادی میں اجتماعی اضافہ 4.7 فیصد نظر آیا جو کہ پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ ایسٹ پاکستان سے لوگوں کی نقل مکانی تھی۔ بنگلہ دیش سے سب سے زیادہ لوگ صوبہ سندھ میں منتقل ہوئے اور سندھ کی آبادی میں اِن سالوں میں 6.2 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا۔ چوتھی مردم شماری 1981ء میں ہوئی جس میں پاکستان کی آبادی 84 ملین 8 کروڑ اور 40 لاکھ تھی۔ یہ وہ واحد وقفہ تھا جس میں فاٹا کی آبادی منفی 1.3 فیصد سالانہ کے حساب سے کم ہوگئی کہ بہت سے لوگ افغان جہاد میں چلے گئے۔

پانچویں مردم شماری 1991ء میں ہونی تھی مگر سیاسی حالات اور فوجی مارشل لاء نے اِسے دھکیل دھکیل کر 7 سال لیٹ کردیا اور پھر یہ 1998ء میں منعقد ہوئی یعنی 17 سال بعد۔ اِس مردم شماری میں پاکستان کی آبادی بڑھ کر 132 ملین یعنی 13 کروڑ 20 لاکھ ہوگئی۔ آج آپ کو وسائل کی جو تقسیم اور الیکشن کی جو تُک بندی نظر آتی ہے، اُس کی اساس کم و بیش یہی 13 کروڑ کی آبادی ہے۔ وقتاً فوقتاً کچھ پیش رفت ہوئی مگر آبادی کے تناسب سے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

چھٹی مردم شماری 2008ء میں ہونی تھی مگر پھر وہی سیاسی حالات، تاخیر سے 2010ء میں منتقل ہوئی اور اب بالآخر سپریم کورٹ کے حکم سے 2017ء میں 19 سال بعد ہورہی ہے۔

پچھلی مردم شماری بھی نوازشریف کی حکومت نے کروائی اور اِس بار بھی یہ کام اُنہی کی حکومت کررہی ہے۔ اِس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) وہ واحد جماعت ہے جس  نے دو بار مردم شماری کرانے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

چھٹی مردم شماری آج کل جاری و ساری ہے۔ یہ 15 مارچ سے شروع ہوئی ہے اور دو مراحل سے گزرتی ہوئی 25 مئی کو ختم ہوجائے گی۔

یہ مردم شماری کئی لحاظ سے اہم ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ملک میں پہلی مرتبہ مردم شماری میں خواجہ سراؤں کو الگ جنس کے طور شمار کیا جا رہا ہے۔ معذور افراد کا تفصیلی ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے اور پہلی  بار غیر ملکی رہائش پذیر ہنر مند و طالب علم حضرات اور بے گھر لوگوں کو شمار کیا جارہا ہے۔

اِس مردم شماری پر قوم کے 80 ارب روپے لگیں گے اور اِسے پورا کرنے کیلئے آرمی کے دو لاکھ جوان اور 90 ہزار سرکاری ملازمین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ایک ملازم عموماً 2 بلاکس پر محیط علاقے پر کام کرتا ہے۔ ایک بلاک میں 175 سے 250 گھر یا 1200 سے 2000 لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ہر ایک بلاک پر ڈیٹا جمع کرنے والے کو 17 ہزار روپے مشاہرہ ملتا ہے۔

اِس مردم شماری کے موٹے موٹے نتائج تو جولائی 2017ء تک متوقع ہیں مگر مکمل ڈیٹا اور رپورٹ {اگر بادشاہ وقت کی مرضی ہوئی تو} دسمبر 2018ء تک عوام کے سامنے آجائیں گے۔

گزشتہ 19 سالوں میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی آمد، 11/9، افغان و عراق کی جنگیں، مہاجرین کی نقل مکانی اور 40 لاکھ سے زائد مہاجرین کی پاکستان آمد، افغان مہاجرین کا انخلا، خود کش حملے، ڈرون حملے، آرمی کے آپریشن اور اِن جیسے سینکڑوں واقعات نے ملکی آبادی کو اِدھر سے اُدھر منتقل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پنجاب میں سرائیکی لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو سندھ میں پٹھان اور بلوچوں نے امان پائی۔ اردو زبان بولنے والے پنجاب اور بیرون ملک پہنچے تو فاٹا کی عوام نے خیبر پختون خواہ میں پناہ لی۔ آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان نے حکومتی پذیرائی پائی تو بہت سی نئی تحصیلوں کا قیام عمل میں آیا۔

اب جبکہ پانامہ لیکس کا فیصلہ آنا ہی چاہتا ہے اور الیکشن اگلے سال ہیں، ملک میں لوڈ شیڈنگ کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے اور پاکستان چائنہ کی مدد سے 46 بلین ڈالر کی CPEC میں سرمایہ کاری کررہا ہے تو ہم بھلا ڈیٹا دیکھنے کیلئے 21 مہینوں کا انتظار کیوں کر کرسکتے ہیں؟ اور انتظار کے بعد ڈیٹا بھی پاکستانی ادارہ شماریات (PBS) نے دینا ہے تو ہم اپنے نصیبوں پر ایڈوانس میں رو لیتے ہیں۔ جس ادارے میں مہینہ بھر کوئی ای میل کا جواب نہ دے، جس کے پاس اپنے ملک کی گزشتہ مردم شماری کا کوئی ڈیجیٹل ریکارڈ موجود نہ ہو، جو 19 سال ’فارغ‘ رہنے کے بعد آج بھی ’فارغ‘ ہی ہیں، اُن سے کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے؟ تو ہم نے سوچا کہ اپنی ڈیٹا سائنس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چھٹی مردم شماری کی خود ہی سائنٹیفک  بنیادوں پر پیش گوئی کریں۔

ہم نے اپنے الگورتھم میں 300 سے زائد ویری ایبلز کا استعمال کیا ہے، ہم اپنی پیش گوئی میں کتنے فیصد کامیاب ہوئے، اِس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر سر دست ہمارے چیدہ چیدہ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ PBS سے سسپنس ختم کرنے پر پیشگی معذرت کے ساتھ ۔

ہمارے سافٹ ویئر کے اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی آج 216 ملین ہے یعنی 21 کروڑ 60 لاکھ۔ اِس مردم شماری میں ہم لگ بھگ کوئی 45 ملین یعنی ساڑھے چار کروڑ افراد پنجاب میں، 21 ملین یعنی دو کروڑ 10 لاکھ سندھ میں، 4 ملین یعنی 40 لاکھ بلوچستان میں اور 13 ملین یعنی 1 کروڑ 30 لاکھ خیبر پختون خواہ میں شامل کریں گے۔ پاکستان میں اوسطاً ہر 1 ملین نفوس پر ایک ڈسٹرکٹ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مردم شماری کے بعد نگراں / عبوری حکومت میں ہم کوئی 54 نئے ڈسٹرکٹ شامل کرسکتے ہیں۔ پنجاب میں 22، سندھ میں 15، بلوچستان میں 14 اور خیبر پختون خواہ میں 16۔ کل 204 یا اِس سے زائد ڈسٹرکٹ بنا سکیں گے۔

51 ملین کی آبادی کے ساتھ ہم سندھ کو باآسانی دو صوبوں میں اور 119 ملین کی آبادی کے ساتھ پنجاب کو 3 صوبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

ہمارے اندازے کے مطابق اسلام آباد میں آبادی بڑھنے کا تناسب ملک میں سب سے زیادہ ہوگا۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 8 لاکھ 5 ہزار 235 نفوس پر مشتمل دار الحکومت اب کم از کم ساڑھے 21 لاکھ لوگوں کا شہر بن چکا ہے۔

اگر ہم واقعی 216 ملین نکلے {جیسا کہ ہمارے سافٹ ویئر نے بتایا ہے} تو ہم دنیا کے چھٹے کے بدلے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک بن جائیں گے۔ برازیل 207 ملین آبادی کے ساتھ چھٹے نمبر پر آجائے گا اور اگر ہماری بڑھنے کی رفتار یہی رہی تو ہم 2025ء میں 275 ملین اور 2050ء میں 510 ملین ہوں گے۔ یعنی چین اور انڈیا کے بعد دنیا کے تیسرے بڑے ملک۔ اِس فہرست میں امریکہ کا نمبر چوتھا ہوگا۔ 216 ملین کے ساتھ  بھی ہم آبادی کے لحاظ سے کینیڈا سے 6 گنا بڑے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے سب سے چھوٹے ملک ویٹی کن سٹی کی آبادی 451 ہے؟ اور دنیا کے 84 ملکوں کی آبادی ایک ملین سے کم ہے؟ 2025ء تک ہم انڈونیشیا سے بھی آبادی میں آگے نکل جائیں گے۔

216 ملین کیلئے قدرتی و غیر قدرتی وسائل کا انتظام ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم کو سائنٹیفک بنیادوں پر ڈیٹا سائنس کے ذریعے اِسے حل کرنا ہوگا۔ ہمیں لائیو اسٹاک census، خانہ شماری اور اِس جیسے بہت سے ڈیٹا سیٹس کو آپس میں ملانا ہوگا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں مویشیوں کی تعداد لوگوں سے بھی زیادہ ہے؟ ملک کے ہر چوتھے شخص کے بدلے ایک گائے، ایک بھینس، ایک دنبہ، 2 بکری اور 23 مرغیاں دستیاب ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ مویشیوں کا تناسب پنجاب میں، سندھ کے مقابلے میں دو گنا ہے اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب میں ایک تحصیل میں اوسطاً 22 لاکھ، سندھ میں 14 لاکھ، خیبر پختون خواہ میں 7 لاکھ اور بلوچستان میں صرف 2 لاکھ افراد ہیں۔

آئیے ڈیٹا سائنس سیکھتے ہیں تاکہ حکمرانوں کو بتا سکیں کہ اُن کے زیرِ سایہ سانس لینے والے اور نہ لے سکنے والے کتنے ہیں اور کس حال میں ہیں۔

آپ اِس مردم شماری کے ڈیٹا کو اپنے بزنس کیلئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے ایک نیا ہائی کلاس برانڈڈ برقعہ لانچ کرنا ہے اور آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی ٹوٹل مارکیٹ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنے آئیڈیل گاہک کی تعریف کریں مثلاً مسلمان لڑکی/عورت، کوئی بھی فرقہ، عمر 15 سے 35 سال، تعلیم کم از کم گریجویٹ، آمدنی کم ازکم ایک لاکھ ماہانہ، شہری اور سوشل میڈیا استعمال کرتی ہو {ویسے اِس سے ملتی جلتی تعریف PTI ووٹر کی بھی ہوسکتی ہے، آپ ناراض نہ ہوں، میں نے تو ویسے ہی کہہ دیا، عقلمند کو اشارہ کافی}۔

اب اگر پاکستان کی آبادی 200 ملین فرض کرلیں تو ہمیں پتہ ہے کہ

  • اِس میں 32 فیصد اربن یعنی شہری ہیں، یہ ہوئی 64 ملین۔
  • 95 فیصد مسلمان ہیں تو یہ ہوئے 60.8 ملین۔
  • 48 فیصد خواتین ہیں تو 29.18 ملین۔
  • 53 فیصد پڑھی لکھی خواتین ہیں تو 15.46 ملین۔
  • 51 فیصد کی عمر 65-15 سال کے درمیان تو 7.88 ملین۔
  • 30 فیصد برقعہ کا ذوق رکھتی ہیں تو یہ ہوئیں 2.36 ملین۔
  • 6.8 فیصد کے پاس گریجویٹ کی ڈگری ہے تو بچیں 5 لاکھ 36 ہزار 414
  • اور 15 فیصد آبادی کی تنخواہ ایک لاکھ ماہانہ سے زیادہ ہے تو وطن عزیز میں 80 ہزار 462 خواتین ہیں جنہیں آپ اپنا منجن (معاف کیجئے گا برقعہ) بیچ سکتے ہیں۔

ویسے کتنا ہی اچھا ہوتا کہ مردم شماری کے بدلے، انسان شماری کرلیتے، جلدی ہی نمٹ جاتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔