مارکیٹنگ اور شو لگانے کا فن

نصرت جاوید  بدھ 16 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

یہ بات تو 23دسمبر2012ء کو پوری دنیا پر عیاں ہوگئی تھی کہ کینیڈا سے آئے قادری کو اپنی مارکیٹنگ کرنا اور شو لگانا آتا ہے ۔15جنوری 2013ء کی دوپہر سے البتہ اب مجھے یہ شبہ ہونا شروع ہوگیا ہے کہ انھیں کسی نہ کسی طرح کی روحانی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔لاہور سے گزشتہ اتوار کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسلام آباد میں پڑائو ڈالنے کے لیے وہ پیر اور منگل کی درمیانی رات اس شہر پہنچے ۔ارادہ ان کا پارلیمنٹ کے سامنے بنے D۔چوک تک جانے کا تھا۔ مگر ان کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے ان ہی کے ادارے کے ذمے دار لوگوں نے اسلام آباد کی انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا ۔

قادری کے لوگوں نے خود کو بلیوایریا میں بنائے گئے کثیر المنزلہ پاک سعودی ٹاور سے آگے نہ جانے کا پابند بنایا ۔سی ڈی اے اور شہری انتظامیہ کے بھرپور تعاون سے قادری صاحب کا اسٹیج بنوایا اور اس پر وہ بلٹ پروف ریل والا ڈبہ رکھوایا جس کے شیشوں کے پیچھے سے موصوف اپنے جانشینوں اور پرستاروں کو اپنا دیدار کرواتے اور ان سے خطاب بھی فرماتے ہیں ۔اس ڈبے کے ہوتے ہوئے علامہ صاحب کو کسی گھر یا ہوٹل میں رہنے کی ضرورت ہی نہیں۔یہ اچھا خاصہ آرام دہ اور چلتا پھرتا گھر ہے۔سعودی ٹاور پہنچ جانے کے بعد ان صاحب کو اپنے پیروکاروں کی جانب سے کیا معاہدہ پسند نہ آیا۔

انھوں نے کئی گھنٹوں سے انتظار کرنے والے اپنے مریدین سے مختصر سا خطاب کیا اور قومی اسمبلی کو منگل کی صبح تک توڑ دینے کی ڈیڈ لائن دے کر سونے چلے گئے ۔صبح اٹھنے کے بعد ان کا قافلہ D۔چوک کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا ۔چونکہ انتظامیہ کے ساتھ یہ بات طے تھی کہ وہ سعودی ٹاور سے آگے نہیں جائیں گے اس لیے پولیس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی ۔تھوڑی بہت بیدبازی ،پھر آنسو گیس اور بالآخر ہوائی فائرنگ۔ قادری صاحب اس دوران اپنے ’’ضامنوں‘‘سے رابطے کرتے رہے ۔ان ضامنوں کی کوششوں سے وزیر داخلہ نے ان کی راہ میں آئی ساری رکاوٹیں ہٹوا دیں۔

ڈی چوک پہنچنے کے بعد بھی کینیڈا سے آئے قادری اپنے ایجنڈے کا اعلان کرنے میں دیر کرتے رہے ۔یہ بات عیاں تھی کہ وہ مجمعے میں خاطر خواہ اضافے کے منتظر تھے اور لوگوں کی اس طرح کی موجودگی جو ٹی وی اسکرینوں پر ’’لاکھوں کا مجمع‘‘ لگ سکے ۔جب ’’شو‘‘ بنا نظر آیا تو انھوں نے اپنا خطاب شروع کردیا ۔جو کافی مایوسی اور تھکن کا صاف اظہار کررہا تھا ۔پھر انھوں نے بین الاقوامی دنیا سے بزبان انگریزی خطاب شروع کردیا ۔پوری دنیا میں پاکستان کے بارے میں ضروری سمجھی جانے والی باتیں دہرانے کے بعد انھوں نے دوبارہ اپنے لوگوں سے اردو کے ذریعے مکالمہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔بڑی مہارت اور الفاظ کے متاثر کن استعمال کے ساتھ انھوں نے اپنا مشن مکمل نہ ہونے تک اسلام آباد بیٹھے رہنے کا عہد کیا اور اپنے پیروکاروں کو اس عہد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔

میں جمائیاں لے کر سوچنا شروع ہوگیا کہ ان کا شو مزید کتنے دن سہنا ہوگا۔ میرے بچے اسکول جا پائیں گے یا نہیں ۔میرا موبائل کام کرے گا یا نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ میری گاڑی جس کا پٹرول پہلے ہی ریزرو پرجا چکا تھا آیندہ کچھ دن چل بھی پائے گی یا نہیں ؟اتفاق سے یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ کینیڈا سے آئے قادری کے پیچھے کوئی نہ کوئی روحانی قوت بھی سرپرستی فرمانے کو ضرور موجود ہے ۔

ایسی قوت نہ ہوتی تو عین اس وقت جب وہ رقت بھری آواز میں اپنے فدائین سے جیت یا موت کے عہد لے رہے تھے ٹیلی وژن اسکرینوں پر وہ بریکنگ نیوز نہ آتی جس کے ذریعے پوری دنیا کو یہ بتا کر ششدر کر دیا گیا کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو رینٹل پاور کیس میں گرفتار کرکے 24گھنٹوں میں پیش کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے ۔وہ لوگ جنھیں کینیڈاسے آئے قادری کی مارکیٹنگ کرنے کی شاندار صلاحیت اور روحانی وسیلوں سے دور تک پہنچنے والی نظر رکھنے کا اندازہ نہیں بہت دنوں سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ موصوف کسی نہ کسی کے اشارے پر کام کر رہے ہیں ۔

کچھ لوگوں نے الزام ان کے سرتھونپا جنھیں ایک زمانے میں عمران خان کو ’’لانچ‘‘ کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا تھا اور کچھ لوگوں نے ان بیرونی ملکوں کا تذکرہ شروع کردیا جنھیں افغانستان کے حوالے سے ایک بار پھر پاکستان کی اہمیت یاد آنا شروع ہوگئی ہے۔جو خبر بالآخر آئی وہ کسی نے سوچی ہی نہ تھی۔اسی لیے عاصمہ جہانگیر جیسے منہ پھٹ لوگوں نے وہ کچھ کہا جو میں دہرانے کی ہمت ہی نہیں رکھتا۔ میرے لیے اہم بات تو یہ تھی کہ اپنا’’آدھا کام‘‘ ہوجانے پر قادری شادمان ہوگئے ۔اپنے لوگوں کو نماز شکرانہ ادا کرنے کے بعد ایک دن مزید انتظار کرنے کا حکم دیا اور دوبارہ اسٹیج پر رکھے ڈبے میں بنے بیڈ روم میں آرام کے لیے تشریف لے گئے ۔

میرا یہ کالم لکھتے ہوئے وہ تو محوِ آرام ہیں ۔مگر اب عمران خان متحرک ہوگئے ہیں ۔دھرنوں کے ذریعے سونامی تو انھوں نے برپا کرنا تھی مگر بازی کینیڈا سے آئے قادری لے گئے ۔اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ قادری کے دیے ایجنڈے کا باقی’’آدھا کام‘‘ وہ مکمل کریں گے ۔راجہ پرویز اشرف کو جیسے نہ ہونے کے برابر کردینے کے بعد اب باری آصف علی زرداری سے استعفیٰ لینے کی آگئی ہے ۔عمران خان کو اس کے لیے لانگ مارچ کرنا ہوگا تاکہ قادری کو تازہ دم قوتوں کی کمک مل جائے ۔اپنے اپنے ایجنڈے مکمل کرنے کے اس ماحول میں مجھے ان لوگوں پر حیرت ہورہی ہے جو اب بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ چاہے کچھ ہوجائے، پاکستان میں جمہوریت برقرار اور میڈیا مستعد وآزاد رہے گا۔نئے انتخابات ہوں گے ۔جلد اور وہ بھی صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ

خوشی سے مرنہ جاتے گر اعتبار ہوتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔