365 دن … 365 نظمیں

زاہدہ حنا  اتوار 9 اپريل 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کچھ لوگوں کے خیال میں جمہوریت محض سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ آرائی اور ہنگامہ آرائی، قطار لگاکر ووٹ ڈالنے اور پھر گھر چلے جانے اور اگلے انتخابات کے انتظار کا نام ہے۔ درحقیقت جمہوریت وہ موسم بہار ہے جو آہستہ آہستہ تمام قومی اداروں کو سرسبز کرتی اور ان کے حالات سنوارتی چلی جاتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے اپنے کئی اہم مگر پژمردہ اداروں کو نئے سرے سے جی اٹھتے دیکھا ہے۔ ان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور لوک ورثہ بطور خاص ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

اب سے کئی برس پہلے ہمارے اہم ادیب مظہر الاسلام نے نیشنل بک فاؤنڈیشن میں نئی جان ڈالی اور ان کے بعد ہمارے نمودار شاعر انعام الحق جاوید اسے اگلی منزلوں تک لے کر چلے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں انھوں نے بہت سی نئی کتابیں شایع کیں اور کلاسیک کو زندہ کیا۔ سال بہ سال کتابوں کا جشن مناتے ہیں جس میں شرکت کے لیے دور دراز سے ادیب اور شاعر آتے ہیں۔ اب اسلام آباد، پنڈی اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں کے لیے کتابوں کا یہ جشن، تہوار کے تین دن ہوگئے ہیں۔

گزشتہ سال انھوں نے رنگوں، مصوری کے نمونوں اور شعرا کی تصویروں سے سجا ہوا غزل کلینڈر شایع کیا جسے محبوب ظفر نے مرتب کیا تھا۔ اب اس سال نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اردو کی نظموں سے مزین کلینڈر کا تحفہ ہمیں دیا ہے۔ 2016ء کا غزل کلینڈر ہو یا 2017ء میں 365 نظموں کا انتخاب، یہ مشکل کام بھی محبوب ظفر نے کیا ہے اور اسے مزین منصور احمد اور اصغر عابد نے کیا ہے اور خوب کیا ہے۔

حسب روایت اس کا پیش لفظ انعام الحق جاوید نے لکھا جو این بی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے اردو کے بارہ ماسے اور پنجابی کے باراں ماہ کی صنف میں ایک نظم لکھی ہے جو اس کلینڈر میں شامل ہے، جس کا اختتام یوں ہوا ہے:

وہ سال دوسرا تھا، یہ سال دوسرا ہے

سال گزرتے چلے جاتے ہیں۔ وقت کے دریا میں انسان اور ان کے جذبے بتاشوں کی طرح گھلتے چلے جاتے ہیں لیکن شاعری رہ جاتی ہے۔ شاید اسی لیے ایلس ریڈ نے کہا ہے کہ شاعری بغاوت اور انقلاب کی رگوں میں لہو بن کر بہتی ہے اور انسانی شعور کی پرورش کرتی ہے۔

شعر و شاعری کی تلاش میں ماضی بعید کا سفر ہمیں بتاتا ہے کہ: انسان نے حلق سے آوازیں نکالنی شروع کیں، یہ آوازیں رفتہ رفتہ لفظ بنیں اور پھر شاعری کا آغاز ہوا۔ سینہ بہ سینہ چلنے والی یہ شاعری اب سے لگ بھگ 2000 ہزار قبل مسیح ابھری۔ ان میں اولیت گل گامش کی داستان کو حاصل ہے۔ یہ وہی رزمیہ ہے جس کے بڑے حصے کا ترجمہ ہمارے مارکسی دانشور سبط حسن نے کیا۔ اسی کے بعد یونانی رزمیے ایلیڈ اوڈیسی 820 قبل مسیح میں لکھے جاتے ہیں۔ اسی زمانے کے آس پاس ہندوستان میں ویدیں، رامائین، مہابھارت اور تبت میں شاہ جسار کا رزمیہ لکھا جاتا ہے۔

اس کے بعد سے آج تک دنیا کی تمام زبانوں میں لاکھوں کروڑوں نظمیں لکھی گئیں اور انھوں نے اپنے اپنے لوگوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ مثنوی مولانا روم اور شاہنامہ فردوسی ان عظیم نظموں میں سے ہیں جو فارسی میں لکھی گئیں لیکن جنہوں نے اردو ادب پر گہرا اثر چھوڑا۔

دنیا کی بڑی رزمیہ یا رومانی نظموں کا ذکر سیکڑوں صفحوں میں بھی ممکن نہیں، ایسے میں 1500 لفظوں کی کیا بساط۔ یہاں صرف اس نظم کلینڈر کا تذکرہ ہے جس میں ہمیں اردو کی 365 نظمیں ملتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے گزرے ہوئے دن یاد آجاتے ہیں۔

شاعری کا وفور ہے دنیا کی تمام زبانوں اور تہذیبوں میں لہریں لیتا ہے اور یہی سبب ہے کہ مختلف زمانوں میں لوگوں نے شاعری کا جشن منایا ہے۔ 1950ء میں چند ملکوں نے شاعری کا دن منایا لیکن یہ 1999ء کا سال تھا جب یونیسکو نے 21 مارچ کو دنیا بھر میں شاعری کا دن قرار دیا۔

21 مارچ کو دنیا کے بہت سے ملکوں بطور خاص ایران، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں میں ’نوروز‘ کے نام سے بہت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ موسم بہار کی آمد کا دن ہے۔ اس روز برف سے ڈھکے ہوئے میدانوں میں سبزہ پھوٹتا ہے اور پودوں پر کونپلیں نکلتی ہیں۔ سردیاں گئیں اور موسم بہار نے انسانوں کا دل امید اور خوشی سے بھر دیا۔ شاید یہی سبب ہو کہ یونیسکو نے 21 مارچ کو شاعری کا عالمی دن قرار دیا اور اب یہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں منایا جاتا ہے۔ اس نظم کلینڈر کو 2017ء کے عالمی شاعری کے دن کا تحفہ خیال کیجیے۔

شاعری، گیت، نظمیں ہر انسان کو کبھی نہ کبھی چھو کر گزرتی ہیں اور اس کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔365 نظموں کے اس مجموعے میں لفظوں اور جذبوں کے کیسے خزانے ہیں۔ نادر کاکوری کی نظم ’گزرے زمانے کی یاد‘ جھلملاتی ہے۔ اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے۔ مصطفیٰ زیدی کی مشہور نظم ’آخری بار ملو‘ ہمارا دامن تھام لیتی ہے۔ ’’آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل/ راکھ ہوجائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریں/ چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے/ سانس ہموار رہے، شمع کی لو تک نہ ہلے/ باتیں بس اتنی کہ لمحے انھیں آ کر گن جائیں/ آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں‘‘۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے مصطفیٰ زیدی کی زندگی کا اندوہناک اختتام آنکھوں میں کھنچ جاتا ہے۔ ناصر کاظمی ہمیں ’گجر پھولوں کے‘ سناتے ہیں۔

ایک نظم جسے لکھنے والی جاچکی، جسے اب بہت کم لوگ یاد کرتے ہیں لیکن میں نے اسے بارہا یاد کیا۔ یہ منصورہ احمد تھی جس میں وفورِ تخلیق لہریں لیتا تھا لیکن… اور اس لیکن کے آگے کیا کہا جائے۔ اس کی یہ نظم ’لتا منگیشکر‘ پڑھتے ہوئے میں محبوب ظفر کی ممنون ہوئی کہ اس نے منصورہ کو فراموش نہیں کیا:

’’اسے میں نے نہیں دیکھا / مگر وہ میری محسن، میری رہبر ہے/ مجھے اس نے نہیں جنما/ مگر میرے لیے آغوشِ مادر ہے/ بہت بے خواب راتوں میں مجھے اس نے سلایا ہے/ مَدُھر آواز کا جھولا جھُلایا ہے/ میں جب ماحول کے صحرا میں رستہ بھول کر بھٹکی/ مجھے انگلی سے تھامے/ میرے گھر آنگن تلک رستہ دکھایا ہے/ مرے پیروں کے چھالوں پر/ ہری آشاؤں کا مرہم لگایا ہے/ وہ فن کا اک سمندر ہے/ کسی نے ان سریلے پانیوں کا دوسرا ساحل نہیں دیکھا/ کوئی گہرائیوں میں ڈوب کر واپس نہیں آیا/ میں کب سے بادباں کھولے/ مچلتی موج کے رخ پر کھڑی ہوں/ مجھے اذنِ سفر، اسمِ سفر دے‘‘۔

اس میں ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، نسیم سید، فاطمہ حسن، نجیبہ عارف، یاسمین حمید اور صغریٰ صدف کی نظمیں ہیں۔ نرم اور پر جوش جذبوں کے جواہر بکھیرتی ہوئی۔ عبید اللہ علیم کی ’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘ ہم سے باتیں کرتی ہے۔ معین احسن جذبی کی ’چشم سوال‘ پڑھیے تو یا د آتا ہے کہ ان کی رومانوی شاعری کے ساتھ ہی انھوں نے یہ شعر بھی کہے کہ ’ہاں اے غریب لڑکی تو بھیک مانگتی ہے/ چشم سوال تیری کچھ کہہ کے جھک گئی ہے‘۔ منیر نیازی کی نظم ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘ جو ہمیں قدم قدم پر یاد آتی ہے۔ ثروت حسین ’دن کٹتا ہے‘ لکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے، ’’شاعری کا ساتھ ہے/ اک پری کا ہاتھ ہے/ اس کنارے جاؤں گا/ گیت اور امید لے کر آؤں گا‘‘۔ یہ لکھتے ہوئے وہ ذہن میں خود کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے اور آخرکار اس میں کامیاب ہوئے۔

انور شعور کی نظم ’حرفِ حق‘ خوب ہے۔ ان کی شاعری کے عمومی مزاج سے مختلف۔ اس میں کرنل مجید ملک کی نظم ’مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں‘ ملتی ہے۔ کسی زمانے میں یہ بہت مشہور تھی۔ اس کلینڈر میں ہمیں تلوک چند محروم، جگن ناتھ آزاد، صوفی تبسم، عبدالعزیز خالد، میرا جی، افتخار جالب، منظور حسین شور، وزیر آغا، مختار صدیقی، حبیب جالب، ابن انشا، قمر جمیل، ن م راشد، خورشید رضوی، سحر انصاری، ستیہ پال آنند، جون ایلیا، زبیر رضوی اور وقار انبالوی اور بہت سے دوسرے ملتے ہیں۔

اس خزانے میں اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کی نظم ’آدمی نامہ‘ ہمیں اپنا اسیر کرلیتی ہے۔ ’’دنیا میں بادشاہ ہے، سو ہے وہ بھی آدمی/ اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی/ زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی/ نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی/ ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی/ مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں/ بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں/ پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز، یاں/ اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں/ جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔