پاکستان امن چاہتا ہے مگر بھارت؟

تنویر قیصر شاہد  پير 10 اپريل 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستان اور بھارت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے دواہم ترین اور طاقتور فوجی ملک ہیں۔ ایٹمی قوت سے لَیس۔ اس خطے میں تقریباً دو ارب انسان بستے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان اور بھارت کا امن اور ان دونوں ممالک کی خوشحالی دراصل پورے جنوبی ایشیا کی خوشحالی اور امن کی ضمانت ہے۔

پاکستان کی تو ہمیشہ سے کوشش اور خواہش رہی ہے کہ دونوں ممالک میں امن کا پھریرا لہراتا رہے اور جنگ کے سائے عوام سے دُور ہی رہیں لیکن شومئی قسمت سے بھارت کی طرف سے کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔بھارت کے سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، شِو شنکر مینن، کی تازہ ترین کتاب CHOICES: Inside  The  Making  Of  India,s  Foreign  Policyمیں یہ اعلان کہ اب پاک، بھارت جنگ چھِڑی تو بھارت پہلے ایٹم بم چلانے کی کوشش کرے گا، دراصل پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو بے نقاب کر گیا ہے۔

5اپریل 2017ء کو جب اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر(نِکی ہیلے) نے یہ کہا کہ ’’امریکا زیادہ دنوں تک پاک،بھارت کشیدگی جاری نہیں دیکھ سکتا، اس لیے ہم دونوں ممالک میں درمیان داری کرتے ہُوئے بھائی چارہ قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘ تو بھارت کی طرف سے ترنت جواب آیا : ’’ہم کسی کی ثالثی نہیں چاہتے۔‘‘ اِسی طرح 8اپریل2017ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم، حسینہ واجد، کی موجودگی میں مودی نے پھر پاکستان کے خلاف غیر دوستانہ زبان استعمال کی ہے۔

نریندر مودی کی شہ پر حسینہ واجد نے بھی بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کی حمائیت کی تو سُن کر مودی جی کی بانچھیں کِھلتی رہیں۔ اِس کے برعکس امن اور دوستی کی خاطر ہمارے پاکستانی سیاسی منتخب حکمرانوں نے بھارتی شرر فشانیوں کا جواب ہمیشہ متحمل اور ٹھنڈے لہجے میں دیا ہے۔ مثال کے طور پر جناب نواز شریف کا 2017ء کے آغاز میں پاک، بھارت دوستی کی خاطرایک بار پھرجرأت مندانہ اعلان کیا۔

میاں صاحب نے 24فروری 2017ء کو انقرہ (ترکی) کے دورے پر ساتھ گئے پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا:’’ہم بھارت کے خلاف سازشیں نہیں کر رہے۔ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھارت کے خلاف ہماری کوئی بُری خواہش تھی، نہ ہے۔2013ء کے دوران ہماری الیکشن مہم بھارت کے خلاف نہیں تھی،جب کہ بھارت میں انتخابات کے وقت پاکستان کے خلاف الزام تراشی ہوتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کریں۔ہم کوئی ایسا قدم بھی نہیں اُٹھائیں گے جس سے جنوبی ایشیا کے اِس خطے میں انتشار اور بدامنی پیدا ہو۔‘‘

عوامی اور پاپولر سیاست کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو جناب نواز شریف کے اس بیان کے الفاظ ’’خطرناک‘‘ ہیں لیکن وہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے اجتماعی مفاد میں اِس منزل سے گزر گئے۔ اِسی بیان پر بس نہیں۔ پاکستان نے نواز شریف کی قیادت میں پاک، بھارت امن کی خاطر مزید کئی قدم اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر 25فروری2017ء کا واقعہ۔اُس روز پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے دو باسیوں (تیرہ سالہ بلال احمد، چوبیس سالہ افراز احمد)کو عزت و احترام سے بھارت کے حوالے کر دیا۔ چکوٹھی، اُڑی کراسنگ پوائنٹ پر واقع ’’کمان پُل‘‘پر دونوں ممالک کے فوجی اور سویلین حکام کی موجودگی میں حوالگی کی یہ انسانیت نواز تقریب انجام دی گئی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین سال سے بچھڑے ان نوجوانوں کی اپنے پیاروں سے دوبارہ ملاقات کا یہ منظر بڑا ہی جذباتی اور دلکشا تھا۔اِس سے قبل اپریل2016ء میں شکیلہ بی بی کو، جولائی2015ء میں اٹھارہ سالہ امتیاز، سترہ سالہ سلیم کو اور دسمبر 2014ء میں بارہ سالہ نسرین بی بی کو پاکستان نے بھارت کے حوالے کرکے بے مثال انسانی محبت اور اکرام کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ امن کو مستحکم کرنے کے اقدامات ہی تو تھے!!قیام ِ امن کی خاطرپاکستان ایسے اقدامات مسلسل اُٹھاتا چلا آرہا ہے۔ مثال کے طور پر 20جنوری2017ء کا ایک اور شاندار مظاہرہ۔ اُس روز پاکستان نے بھارت کے ایک بھگوڑے فوجی کو عزت اوروقار کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دیا۔

اس بھارتی فوجی کا نام سپاہی چندو بابو لعل چوہان تھا۔ عمر 22سال۔ بھارتی فوج کی 37 راشٹریہ رائفلز سے اُس کا تعلق تھا۔ وہ29ستمبر2016ء کو ایل او سی پار کرکے اپنی مرضی سے پاکستان آگیا تھا۔ چندو بابو لعل اپنے بھارتی فوجی افسروںکی بد سلوکی سے اتنا دلبرداشتہ تھا کہ نالاں اور تنگ ہوکر اُس نے سرحد پارکی اور پاکستانی فوج کے سامنے آکر سرنڈر کر دیا۔ پاکستان نے اُس کے ساتھ کوئی ظلم کیا نہ اُسے تشدد کا نشانہ بنایا۔

پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اُسے بھارت کے حوالے کر دیا جائے؛چنانچہ پانچ ماہ بعد(20جنوری2017ء کو) پاکستان کی عسکری اور سویلین انتظامیہ کی موجودگی میں چندو بابوکو واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

یہ تو تھا امن کی خاطر پاکستانی اقدامات کا تذکرہ۔ اب ذرا دیکھئے کہ اِسی ضمن میں بھارت کا کیا کردار ہے؟ 24فروری2017ء کو پاک بھارت ورکنگ باؤنڈری پر واقع سیالکوٹ کے علاقے(دوارا گاؤں)کی ایک عورت کو بھارتی فوج نے گولیوں سے اڑا دیا ۔ وہ بدقسمت خاتون بھول چوک سے سرحد کے نزدیک چلی گئی تھی لیکن اُس نے ابھی ورکنگ باؤنڈری عبور بھی نہ کی تھی کہ بھارتی فوج(بی ایس ایف)نے اُس نہتی خاتون پر فائر کھول دیا ۔پلک جھپکتے ہی میں وہ چھلنی کر دی گئی۔

اس خونریز سانحہ پر سیالکوٹ میں بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف زبردست مظاہرے ہُوئے لیکن بھارت کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی، اس لیے کہ اُسے امن کی کوئی خواہش ہے نہ وہ اس کی ضرورت ہی سمجھتا ہے۔ جارحیت اُس کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔سیالکوٹ کے علاوہ پاکستان کے ایک اور سرحدی علاقے، شکر گڑھ، میں بھی رواں لمحات میں بھارت ہمارے درجنوں پاکستانی شہریوں کو شہید کر چکا ہے۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، کی ایک رپورٹ کے مطابق:2016ء میں بھارتی فوج نے پاکستان کے 46سویلین شہریوں کو شہید کیا تھا۔ پاکستان کے چار درجن شہریوں کو بِلا وجہ شہید کر کے بھارت نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کتنا امن چاہتا ہے۔کیا وہ پاکستان کے حسنِ سلوک( مثلاً سپاہی بابو چندولعل ایسوں کو احترام سے بھارت کے حوالے کرنا) کو پاکستان کی کمزوری خیال کیے بیٹھا ہے؟

جناب نریندر مودی کا پچھلے سال، 15اگست، کو دہلی کے لال قلعے میں کھڑے ہو کر پاکستان میں کھلی مداخلت کرنے کا اعلان کرنا دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خبثِ باطن کو بھی پوری طرح عیاں کر گیا تھا۔ اس سے قبل ڈھاکا میں جا کر مودی کا پاکستان توڑنے میں واضح کردار ادا کرنے کے اعتراف نے بھی اُن کی امن دشمنی کو ظاہر کر دیاتھا۔ پاکستان نے پھر بھی امن کی خاطر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ اِن سب کے باوجود بھارت مگر پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرنے اور پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزیوں سے باز نہیں آ رہا۔

بھارت میں پچھلے ہی دنوں ٹرین کا ایک خوفناک حادثہ ہُوا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب بھارتی مسافر مارے گئے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوںنے اس ٹرین حادثے کا الزام بھی پاکستان کے سر تھوپ دیا۔ 26فروری2017ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اُترپردیش، جہاں وہ ریاستی انتخابات کے لیے بی جے پی کی الیکشن مہم میں شریک تھے، نے اپنے ایک زہر افشاں خطاب میں جہاں دیگر بہت سے الزام پاکستان پر لگائے، وہاں یہ دریدہ دہنی بھی کر دی کہ حالیہ ٹرین سانحہ میں پاکستان کا ہاتھ تھا۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!

گزشتہ روز،آٹھ اپریل کو اُنہوں حسینہ واجد کی موجودگی میں یہ کہہ کر پھر پاکستان کے زخموں پر نمک پاشی کی کہ یہ ہم بھارت والے ہیں جنہوں نے پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنایا تھا۔اِن بھارتی شرانگیزیوں کی موجودگی میں بھلا کیونکر امن قائم ہو سکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔