آدھی حقیقت

جاوید چوہدری  منگل 11 اپريل 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم واپس اگست 2008ء میں جاتے ہیں‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن چکے تھے‘ جنرل پرویز مشرف 58 ٹو بی کے اختیارات کے ساتھ صدر تھے اور ملک میں گو مشرف گو کے نعرے لگ رہے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ن ان نعروں کی موجد بھی تھی اور سرخیل بھی‘ میاں نواز شریف کسی قیمت پر جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر میں برداشت کرنے کیلیے تیار نہیں تھے‘ یہ صدر کا مواخذہ چاہتے تھے ‘ آصف علی زرداری اس صورتحال کا فائدہ اٹھارہے تھے‘ یہ تواتر کے ساتھ میاں نواز شریف کو ’’مکھی دودھ سے نکال دو‘‘ کے پیغام بھجوا رہے تھے‘ آصف علی زرداری نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے میاں نواز شریف کو یہ پیغام بھی بھجوا دیا ’’آپ بے شک اس کے بعد اپنا صدر لے آئیں‘‘ میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کے خلاف مہم تیز کر دی‘ مواخذے کا ڈرافت بھی تیارہو گیا اور دونوں جماعتوں نے جنرل مشرف کے خلاف ووٹ دینے کا خفیہ سمجھوتہ بھی کر لیا‘ یہ سلسلہ چل رہا تھا‘ اگست میں آصف علی زرداری  نے آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقات کی اور انھیں بتایا ’’ہمارے کارکن کہتے ہیں ہم اقتدار میں ہیں تو صدر بھی ہمارا ہونا چاہیے۔

ہم نے اگر کوئی درمیانہ راستہ نہ نکالا تو یہ لوگ ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور یوں جنرل مشرف مواخذے کا شکار بھی ہوں گے اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بھی بن جائے گا‘‘ جنرل کیانی نے اس شام ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا سے ملاقات کی (یہ بعد ازاں ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیئے گئے) اور انھیں بتایا ’’آصف علی زرداری صدر بننا چاہتے ہیں‘ یہ وعدہ کر رہے ہیں یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ سے امیونٹی لے کر دیں گے‘‘ جنرل پاشا نے جواب دیا ’’سر میں کبھی آصف علی زرداری سے نہیں ملا‘ آپ کرنل کے عہدے سے ان کے ساتھ رابطے میں ہیں‘ آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایوان میں صرف 125ایم این اے ہیں‘ آئین میں ترمیم کیلیے دو تہائی اکثریت چاہیے‘ یہ جنرل مشرف کو امیونٹی کیسے لے کر دیں گے‘‘ جنرل کیانی نے جواب دیا ’’میں نے یہ نقطہ زرداری صاحب کے سامنے رکھا تھا‘ ان کا جواب تھا میاں نواز شریف راضی ہیں‘ یہ حکومت کو سپورٹ کریں گے‘‘ جنرل پاشا خاموش ہو گئے۔

جنرل کیانی نے اگلے دن جنرل مشرف سے ملاقات کی‘ جنرل مشرف مستعفی ہونے پر رضا مند ہو گئے‘ صدر نے حکومت سے 14 اگست 2008ء تک مہلت مانگی‘ صدر کی حیثیت سے آخری یوم آزادی منایا اور 18اگست کو قوم کے ساتھ لائیو خطاب کے دوران استعفیٰ دے دیا‘ آصف علی زرداری نے صدارتی الیکشن لڑا اور 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا عہدہ سنبھال لیا‘ آصف علی زرداری صدر بننے کے بعد اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے‘ ان کا کہنا تھا ’’میاں صاحب بیک آؤٹ کر گئے ہیں اور ہمارے پاس ایوان میں عددی برتری نہیں‘ ہم جنرل مشرف کو امیونٹی نہیں دے سکیں گے‘‘ جنرل پاشا اس دوران ڈی جی آئی ایس آئی بن چکے تھے۔

یہ اس وعدہ خلافی پر حیران رہ گئے۔جنرل پاشا نے 2008ء کے آخر میں میاں شہباز شریف سے وعدہ خلافی کا شکوہ کیا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے انکشاف کیا ’’میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان جنرل مشرف کی امیونٹی پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی‘‘ میاں شہباز شریف نے جنرل پاشا کو دعوت دی آپ میرے ساتھ میاں نواز شریف کے پاس چلیں لیکن جنرل پاشا نے میاں نواز شریف سے ملاقات سے انکار کر دیا‘ یہ پوری سروس کے دوران میاں نواز شریف سے نہیں ملے‘ ان کا کہنا تھا ’’میں فوج کے بارے میں خیالات کی وجہ سے میاں نواز شریف سے خوش نہیں تھا‘ میرا خیال تھا میں کوئی گستاخی کر بیٹھوں گا اور یوں ہمارے تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے‘‘۔

یہ پہلا وعدہ تھا‘ دوسرا وعدہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے کیا‘ میاں نواز شریف نے جون 2013ء میں اقتدار سنبھالتے ہی جنرل مشرف کے خلاف کارروائی شروع کر دی‘ فوج اس کارروائی پر خوش نہیں تھی‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار سے ملاقات کی‘ دونوں نے وعدہ کیا حکومت جنرل مشرف کو نہیں چھیڑے گی‘ سابق صدر کے خلاف کارروائی رک جائے گی لیکن وعدے کے چند دن بعد نہ صرف جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی شروع ہو گئی بلکہ ان کا نام ای سی ایل پر بھی ڈال دیا گیا‘ فوج مزید ناراض ہو گئی‘ 2014ء کے شروع میں انقرہ کا واقعہ پیش آ گیا‘ ترک صدر عبداللہ گل نے ثالثی کیلیے افغانستان او رپاکستان کے سربراہوں کو انقرہ بلایا‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ انقرہ  گئے‘ افغان صدر حامد کرزئی نے سرکاری میٹنگ کے دوران آئی ایس آئی کو افغانستان میں خرابی کا ذمے دار قرار دے دیا‘ وہ بار بار آئی ایس آئی پر الزام لگارہے تھے۔

جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام میاں نواز شریف کی طرف دیکھنے لگے لیکن وزیراعظم خاموش بیٹھے رہے‘ جنرل ظہیر الاسلام نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کی اور حامد کرزئی کو جواب دینا شروع کر دیا یوں حامد کرزئی اور ظہیر الاسلام دوبدو ہو گئے‘ ترک صدر درمیان میں آئے اور دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرایا‘ میاں نواز شریف اس دوران خاموش رہے‘ فوج وزیراعظم کے اس رویئے پر مزید برگشتہ ہو گئی‘ انقرہ کا واقعہ اور جنرل مشرف پر وعدہ خلافی یہ دونوں واقعات آگے چل کر 2014ء کے دھرنے کی وجہ بنے‘ میں قطعی یہ دعویٰ نہیں کرتا عمران خان کا دھرنا جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام کا منصوبہ تھا‘ دنیا میں جب تک عمران خان‘ جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام اعتراف نہیں کرتے ہم اس وقت تک ان پر یہ الزام نہیں ڈال سکتے تاہم یہ بات طے ہے یہ منصوبہ اگر فوج کا نہیں تھا تو بھی فوج دھرنے کے دوران غیرجانبدار رہی اور اس غیر جانبداری کا میاں نواز شریف اور حکومت دونوں کو نقصان ہوا اور حکومت مزید نقصان سے بچنے کیلیے بالآخر جنرل مشرف کا شکنجہ ڈھیلا کرنے پر مجبور ہوگئی۔

آصف علی زرداری کو میمواسکینڈل کے دوران وعدہ خلافی کا تاوان ادا کرنا پڑا اور میاں نواز شریف کو دھرنے اور پاناما لیکس کی شکل میں سزا بھگتنی پڑی‘ یہ سزا مزید آگے بھی جائے گی تاہم یہ بھی حقیقت ہے میاں شہبازشریف اور چوہدری نثار نے جنرل مشرف کے ایشو پر جرنیلوں کو میاں نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر ’’کمٹمنٹ‘‘ دی تھی ‘یہ بات جب وزیراعظم کے نوٹس میں آئی تو انھوں نے صاف انکار کر دیا اور یہ انکار بعد ازاں انھیں ٹھیک ٹھاک مہنگا پڑا ‘ یہ فوج کے تقریباً تمام مطالبات ماننے پر مجبور ہو گئے‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں آصف علی زرداری کو 2008ء میں جنرل کیانی سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہیے تھا اور میاں نواز شریف کو 2013ء میں چوہدری نثار اور میاں شہبا زشریف کی کمٹمنٹ ’’آنر‘‘ کرنی چاہیے تھی‘ یہ دونوں جانتے تھے فوج کبھی جنرل مشرف کا ٹرائل نہیں ہونے دے گی لیکن دونوں نے اس کے باوجود تجربہ کیا اور دونوں کو اس تجربے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

ہم اب اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے تازہ ترین بیان کی طرف آتے ہیں‘ خورشید شاہ نے 7 اپریل کو انکشاف کیا‘میاں نواز شریف 2014ء کے دھرنے کے دوران گھٹنے ٹیک چکے تھے‘ یہ مستعفی ہونے والے تھے لیکن آصف علی زرداری نے جمہوریت اور نواز شریف دونوں کو بچایا‘ یہ بات حقیقت ہے لیکن یہ آدھی حقیقت ہے‘ یہ درست ہے پاکستان پیپلز پارٹی 2014ء میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی‘ یہ اگر دھرنے کے دوران عمران خان کے ساتھ شامل ہو جاتی تو بلاشبہ حکومت ختم ہو جاتی‘ آصف علی زرداری نے اس نازک وقت میں حکومت کا ساتھ دے کر میاں نواز شریف پر احسان کیا لیکن جہاں تک حکومت بچانے کا سوال ہے تو اس کا کریڈٹ صرف آصف علی زرداری کو نہیں جاتا‘ یہ چار طاقتوں کا مشترکہ کارنامہ تھا‘ وہ چار طاقتیں کون تھیں؟ پہلی طاقت میاں نواز شریف کی قسمت تھی‘ میاں نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں۔

قسمت نے 2014ء میں بھی یاوری کی اور آخر میں حالات ان کی فیور میں مڑ گئے‘ دوسری طاقت امریکا تھا‘ اگست 2014ء میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن جنرل راحیل شریف سے ملے اور انھیں یہ پیغام دیا ’’ہم کسی قسم کی غیر جمہوری مہم جوئی کو سپورٹ نہیں کریں گے‘ ہم کولیشن سپورٹ فنڈ بھی جاری نہیں رکھ سکیں گے‘‘ تیسری طاقت چین تھا‘ چین نے بھی اپنا سارا وزن میاں نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیا‘ یہ پیغام دیا گیا ’’ہم اگلی مضبوط جمہوری حکومت تک اقتصادی راہدای کا منصوبہ جاری نہیں رکھ سکیں گے‘‘ اور چوتھی طاقت جنرل راحیل شریف تھے‘ یہ عین اس وقت پیچھے ہٹ گئے جب تبدیلی پارلیمنٹ کی راہ داریوں تک پہنچ چکی تھی اور جنرل پاشا نے اس پسپائی کی بہت پہلے پیشن گوئی کر دی تھی‘ انھوں نے جنرل ظہیر الاسلام سے کہہ دیا تھا ’’جنرل راحیل کبھی یہ ہمت نہیں کریں گے‘‘ یہ تمام طاقتیں مل کر جمہوریت کی محسن ہیں‘ ہمیں یہاں یہ بھی ماننا ہو گا آصف علی زرداری‘ امریکا‘ چین اور جنرل راحیل شریف یہ تمام میاں نواز شریف کی مدد نہ کرتے تو بھی یہ استعفیٰ نہ دیتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ فیصلہ کر چکے تھے ’’میں وزیراعظم ہاؤس سے صرف اسٹریچر پر نکلوں گا‘‘ اور دھرنے کے تمام آرکی ٹیکٹ اس حقیقت سے واقف تھے۔

نوٹ: کالم میں تحریر تمام حقائق کے ذمے دار حیات ہیں‘ آپ ان سے ان حقائق کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔