شلوار سے اسکرٹ تک

عبدالقادر حسن  منگل 11 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میری طرح کے جو لوگ دیہات کے جم پل ہیں کسی بھی بڑے اور پُررونق شہر میں ٹھکانہ کیوں نہ کر لیں دیہات کے روزو شب ان کے ذہن سے نہیں نکلتے۔ گاؤں کی ناہموار گلیاں انھیں اپنے اندر گھماتی رہتی ہیں اور انھیں گاؤں سے باہر نہیں نکلنے دیتیں جس مٹی کی آپ پیدائش ہوتے ہیں وہ آپ کے وجود کے ساتھ چپک جاتی ہے اس پر حالات کے کتنے طوفان گذر جائیں یہ آپ کو نہیں چھوڑتی کیونکہ اس کا اصل گھر آپ ہوتے ہیں اور انسان کہیں بھی چلا جائے وہ اس مٹی کی چمک دمک اور خوشبو کو نہیںبھولتا جس میں اس نے آنکھ کھولی تھی اور جس میں اس کے بچپن نے پرورش پائی تھی اور جہاں وہ پلا بڑھا تھا ۔

کوئی بد اصل انسان ہی اپنے بچپن کو بھول سکتا ہے ،جن گلیوں میں اس نے اس دنیا کا پہلا نظارہ کیا اور جہاں آنکھ کھولی وہ سب اس کے وجود اور یاد کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہ کہیں بھی چلا جائے اپنے گاؤں سے دور نہیں جاتا اور دنیا کی کوئی جگہ اسے اپنا گھر بھلانے پر مجبور نہیں کر سکتی مثلاً میں اپنی ملازمانہ زندگی میں دنیا بھر میں گھوما پھرا ہوں، اپنے پیدائشی گاؤں سے کہیں زیادہ خوبصورت مقام دیکھے ، ایسے مقام اور مناظر جن کو دیکھنے کیلیے لوگ ملکوں کا طویل سفر کرتے ہیں لیکن اس زمین کا کوئی ٹکڑا مجھے اپنے گاؤں سے زیادہ خوبصورت اور دلفریب دکھائی نہیں دیا ۔ میں نے دنیا کے بے حد پررونق اور خوبصورت شہر دیکھے جو سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں لیکن میں یہاں چند دنوں سے زیادہ قیام نہ کر سکا جس طرح عرب کے مجنوں کو ہر خیمہ لیلیٰ کاخیمہ دکھائی دیتا تھا اور جس طرح وہ قطار اندر قطار قافلوں کے ارد گرد بھٹکتا رہتا تھا کسی چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے اسی طرح میں بھی دنیا کے کسی شہر میں اپنے گاؤں کو دریافت نہ کر سکا۔ اس کی کوئی جھلک مجھے دکھائی نہ دی سوائے اُداسی کے اور کچھ نہ ملا ۔

اب میں آپ سے کیا عر ض کروں کہ ترکی کے انقرہ کے ایک گاؤں میں اپنے گاؤں کی تلاش میں جا نکلا مگر ایک دیہاتی ہونے کے باوجود اس گاؤں کے دیہاتی پرتکلف دکھائی دیئے اور میں یہاں ایک دو راتیں ہی بسر کر سکا ۔ نیم یورپی زندگی دیکھنے کیلیے مجھے یہاں آنے کی ضرورت نہ تھی کہ پورا یورپ کچھ مسافت پرآباد تھا ۔ خواتیں سروں کو ڈھانپ کر مسجد میں آتی تھیں اور نماز پڑھ کر لوٹ جاتیں۔ میں نے انقرہ میں ایک عجیب منظر دیکھا کہ ایک خاتون نومولود بچے کو اٹھا کر مسجد کے قریب لائی اور اسے مسجد کی دیوار کے ساتھ دو تین بار لگایااور کچھ پڑھتی ہوئی واپس چلی گئی ۔ میں نے انقرہ میں اپنے میزبان سے اس کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ مسلمان اپنے نومولود بچوں کو برکت کیلیے مسجد کی کسی دیوار کے ساتھ لگاتے ہیں اور کچھ پڑھتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کسی نومولود کی زندگی میں اس سے برکت ملتی ہے ۔

ترکی اگرچہ ایک تاریخی مسلمان ملک ہے لیکن اس میں اب پڑوسی یورپ کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں ، ترکی تہذیبی لحاظ سے بدل رہا ہے بلکہ ہم پاکستانیوں کیلیے بہت بدل چکا ہے مثلاً ترک خواتین جو شہروں میں رہتی ہیں ان کا لباس اب یورپی ہے اور رہن سہن بھی اب بدل چکا ہے اس میں مشرقیت کم اور یورپی آثار زیادہ دکھائی دیتے ہیں ۔ استنبول میں میری ایک ترک بزرگ سے ملاقات ہوئی انھوں نے پاکستان کے بارے میں بہت سارے سوالات کیے اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس ملک میں ابھی تک اسلامیت باقی ہے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یورپ سے دور ہونے کی وجہ سے پاکستان جدید زمانے کی آلائشوں سے بچا ہوا ہے لیکن ان کے خیال میںیہ عارضی وقفہ ہے اور یورپی تہذیب پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کی طرف بڑھ رہی ہے وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی نئی نسل یورپی کلچر کو زیادہ پسند کرنے لگ جائے گی ۔

مغربی دنیا کے مفکرین ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمان دنیا میں نقب لگا رہے ہیں اصل خطرہ مغربی تہذیب کی چمک دمک سے ہے ۔آج کی دنیا دیکھ لیں مغربی تہذیب مردوں کی حد تک تو مسلمان ملکوں پر قابض ہو چکی ہے البتہ بعض مسلمان ممالک کی خواتین ابھی اپنے پرانے لباس اور روایات کی پابند ہیں مگر کب تک ، بدلتی ہوئی دنیا ان کے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے ۔ مسلمانوں کے ہاں ایک عرصے سے پسپائی کی ہوا چل رہی ہے ۔ افغانستان اور ایران جیسے پرانے اسلامی ملکوں میں ان کے حکمرانوں نے خواتین کے لباس تک بدل دیئے ہیں مگر اب ایسے حکمران نہیں آرہے اور تبدیلی کچھ رک سی گئی ہے لیکن صرف رکی ہے اس میں کسی بھی وقت تیزی آسکتی ہے اور آ بھی رہی ہے۔

مسلمان ملکوں میں مغربی تہذیب نے لباس کے ذر یعے مداخلت کی ہے تعجب ہے کہ ہمارے پڑوس میں قدیم مسلمان ممالک افغانستان اور ایران زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کے اندر مغربیت کا رجحان بڑھ رہا ہے اس سے بعض عرب ممالک تو اب کسی حد تک پہچانے بھی نہیں جاتے جن کا رہن سہن بہت حد تک بدل چکا ہے ۔ خواتین میں اسکرٹ عام ہو رہی ہے جو اسلامی لباس کی ضد ہے، لیکن لباس کی حد تک اب اسلام ااور غیر اسلام کا فرق مٹتا جا رہا ہے ۔ مردوں نے تو بہت پہلے سوٹ ٹائی شروع کر دی تھی اور اس میں وہ یورپ سے بازی لے جانے کی فکر میں تھے لیکن کئی مسلمان ملکوں میں خواتین میں کچھ تامل پایا جاتا تھا اور وہ مغربی لباس کیلیے تیار نہ تھیں لیکن اب ایران اور کئی عرب ملکوں کی طرح تذبذب ختم ہو رہا ہے اور ان مسلمان ملکوں کی خواتین نے اسکرٹ پہننی شروع کر د ی ہے اور اس طرح خواتین کا لباس بدلتا جا رہا ہے ۔

وہ دن دور نہیں جب جب یہ مسلما ن ممالک بھی یورپی رنگ میں دکھائی دیں گے کیونکہ تبدیلی جب ایک بار شروع ہوتی ہے تو وہ رکتی نہیں خصوصاً خواتین کی حد تک اور مرد عورت کو نیم عریاں دیکھ کر اس میں مزاحمت نہیں کرتے ۔ اس طرح لباس میں یہ تبدیلی اب چل نکلی ہے اور اس کی قیادت مردوں کے نہیں خواتین کے پاس ہے اور مرد تو شروع سے ہی خواتین کو آراستہ پیراستہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔

جب ایران اور کسی دوسرے قدیمی مسلمان ممالک میں لباس بدل رہا ہے تو مرد خوش ہیں اور دوسروں کی عورتوں کو نیم آراستہ دیکھنا پسند کرتے ہیں اس طرح لباس میں یہ نمایاں تبدیلی دراصل سماجی روائت میں تبدیلی ہے جس سے پورا معاشرہ بدل سکتا ہے اور لباس کی حد تک اگر قیادت خواتین کے پاس ہو تو پھر اسے کون روک سکتا ہے ۔اب کئی مسلمان ملکوں میں یہ تبدیلی معمول بنتی جا رہی ہے اور پرانی روایات کے پابند عرب مرد خاموش ہو رہے ہیں، وہ یہ سب خاموشی کے ساتھ دیکھتے اور برداشت کرتے جا رہے ہیں ۔ یہ تبدیلی زیادہ دیر کی بات نہیں بہت جلد کئی مسلمان معاشروں میں دکھائی دے گی اور پھر ایک معمول بن جائے گی، یہی ہوتا آیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔