اظہار رائے کی مغربی تفسیر

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 11 اپريل 2017

چند سال قبل جب ڈنمارک اور دیگر ممالک میں گستاخانہ خاکے شایع ہوئے اور مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوئے اور دنیا بھر میں ان خاکوں کی اشاعت اور سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کے خلاف نفرت کے اظہار کے لیے مسلمان تڑپ اٹھے اور مختلف ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ ان خاکوں کو سوشل میڈیا سے ہٹایا جائے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کی تشہیر سے متعلقہ کمپنیوں کو باز رکھا جائے۔

تو یہ برطانیہ ہی تھا جس نے اس وقت مسلمانوں کے ان مظاہروں کو جذباتیت اور سوشل میڈیا پر خاکوں کی اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیا تھا اور مختلف سوشل میڈیا کے کرداروں سے باز پرس سے معذوری اور لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

بات صرف برطانیہ کی نہیں تھی سارے یورپین ممالک اور امریکا اس معاملے میں ہم آواز تھے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور سوشل میڈیا کے مختلف ادارے اس قسم کا مواد شایع کرنے میں حق بجانب ہیں۔

اہل مغرب کی معذوری کو ہم بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ کسی شخصیت کو اتنا اہم نہیں سمجھتے کہ اس کے خلاف حرف گیری نہ کی جاسکے مگر اسی قدر وہ مسلمانوں سے بھی ناآشنا نہیں یا ناآشنا بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہؐ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت رسولؐ ایسی ہستیاں ہیں جن کے خلاف وہ کسی قسم کی لب کشائی کو نہ تو برداشت کرسکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ مسلمان تو خود حضرت عیسیٰ کے خلاف بھی کسی ناخوشگوار بات سے اتنے ہی مشتعل ہوتے ہیں جتنا وہ اپنے رسولؐ کے معاملے میں ہوسکتے ہیں۔ مگر اہل یورپ عیسائی ہوتے ہوئے بھی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے تقدس کی پامالی کو آزادی اظہار کے نام پر برداشت کرسکتے ہیںاور یہ کیفیت انھوں نے سیکولرزم کو اختیار کرنے اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لینے کے بعد، نشاۃ ثانیہ کے نام پر اختیار کی ہے۔

اب ان کے نزدیک خدا، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اتنے محترم نہیں جتنے محترم سیکولرزم، جمہوریت، قومی و جغرافیائی مملکتیں اور اس کے گھڑے ہوئے قوانین ہیں۔

دوسری طرف مسلمانوں کو اس قسم کی کسی نام نہاد نشاۃ ثانیہ سے واسطہ نہیں پڑا ہے اور وہ ہنوز اپنے رسولؐ، آل رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہیں اور ان کی حرمت پر کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس معاملے میں ان کا ردعمل انتہائی شدید ہوتا ہے اور یہی شدید ردعمل اقوام یورپ کے لیے ’’مصنوعی تعجب‘‘ اور ’’واقعی تشویش‘‘ کا باعث بنتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام بھی انھی کی طرح ’’روشن خیال‘‘ ہوجائیں۔

ہوا یہ کہ گزشتہ ہفتے ایک شخص نے برطانوی پارلیمنٹ کے عین سامنے ویسٹ منسٹر پل پر اپنی کرائے کی گاڑی فٹ پاتھ پر کھڑے چند افراد پر چڑھا دی اور انھیں کچل کر ہلاک کردیا۔ وہ ایک پولیس افسر پر بھی حملہ آور ہوا اور جوابی فائرنگ میں ہلاک ہوگیا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ شخص نو مسلم تھا۔ کچھ دن پہلے یہ جیل میں تھا اور وہیں مسلمان ہوگیا تھا۔

مزید تحقیق یوں ضروری تھی کہ آیا یہ جرم اس کا انفرادی فعل تھا یا اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک تھے۔ اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ وہ واٹس ایپ استعمال کرتا تھا۔ اب برطانوی تحقیقی اداروں نے واٹس ایپ کے علاوہ فیس بک، گوگل، یو ٹیوب، ورڈ پریس اور دیگر اداروں سے مشکوک افراد تک رسائی کی خواہش ظاہر کی۔ ان اداروں نے اپنی ’’رازداری‘‘ کی ذمے دارانہ پالیسی کے باعث معذرت کا اظہار کیا۔ اب وہی برطانوی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ جو ڈنمارک میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر ان کے خلاف کسی کارروائی سے نہ صرف گریزاں تھے بلکہ اسے غیر ضروری قرار دے رہے تھے، وہی اب سوشل میڈیا کے اداروں کی رازداری اور اظہار رائے کے حق کو دہشت گردوں کی پشت پناہی قرار دے رہے ہیں۔

برطانوی حکومت اور اس کے وزرا اب یہ کہہ رہے ہیں کہ واٹس ایپ کی طرح دوسرے ادارے مثلاً فیس بک، گوگل، یو ٹیوب وغیرہ کے ذریعے دہشت گرد ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں اور یوں دہشت گردی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کے ٹھکانوں تک رسائی دینا ان اداروں کا فرض ہے اور رازداری کے نام پر اس تک رسائی نہ دینا دہشت گردوں کی پشت پناہی ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دے رہا ہے۔

اب برطانوی وسیع النظری خود اس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ اگر سوشل میڈیا اپنے ذریعے کسی رابطے کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیتا ہے اور اس میں آڑے نہیں آنا چاہتا تو اب آپ بھی ایسی جذباتی کیفیت کو بھگتیں جس پر آپ ہمیشہ مسلم دنیا کو ملامت کرتے رہے ہیں۔

یہ ملامت بظاہر تنگ نظری کا سبب قرار دی جاتی ہے ورنہ اصل معاملہ یہی ہے کہ آپ اظہار رائے کی ’’آزادی‘‘ کے ذریعے دوسروں کے جذبات سے کھیلنے کی آزادی نہیں دے سکتے۔ یہ تو مسلمہ اصول ہے کہ ہر حق کے ساتھ ایک فرض وابستہ ہے مگر مسلمانوں کے معاملے میں آپ بڑے معصوم بن جاتے ہیں اب قدرت آپ کو اس معصومیت کے پھل چکھا رہی ہے۔ اور مطالبہ کر رہی ہے کہ آپ اس اصول کو سمجھ لیں کہ آپ کو جو بھی حق حاصل ہے آپ کی سہولت کے لیے ہے بشرطیکہ وہ دوسرے کی مشکل کا سبب نہ بنے۔

آپ سڑک پر تیز رفتاری سے ڈرائیو کریں مگر یہ خیال رہے کہ آپ کسی کو کچل نہ دیں۔ آپ خوب شراب پئیں مگر نشے میں دھت ہوکر دوسروں کو پریشان کرنا قابل قبول نہیں۔ جب آپ یہ سب باتیں قبول کرتے، جانتے اور مانتے ہیں تو یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اظہار رائے کرتے وقت مسلمانوں کے جذبات اور ان کی نفسیات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔