پہاڑوں میں آوارہ گردی پسندیدہ مشغلہ ہے، کبھی اپنی خدمات کا صلہ نہیں مانگا

عارف محمود  منگل 31 جولائی 2012
سیاست سے نفرت کرتا ہوں، فقط ایک بار ووٹ کا حق استعمال کیا .

سیاست سے نفرت کرتا ہوں، فقط ایک بار ووٹ کا حق استعمال کیا .

یہ ایک ایسے مصور کا قصّۂ زیست ہے، جس نے کم سنی ہی میں لکیروں میں چُھپے معنی کھوج نکالے، رنگوں میں پوشیدہ کہانی سمجھ لی کہ یہ صلاحیت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ یہی سبب ہے کہ کسی استاد کی راہ نمائی، یا کسی سند کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

یہ ذکر ہے محمود رشی کا، جنھوں نے اپنے طویل سفر میں ہر موضوع، ہر منظر رنگوں کے ذریعے بیان کیا۔ اسمائے الٰہیہ، خصوصا ’’اﷲ‘‘ سے عشق ہے، اِس اسم ذات سے اپنی عقیدت کا اظہار مختلف رنگوں، مختلف طریقوں سے، بڑے ہی حسین پیرائے میں کیا۔

جہاں اسم ’’اﷲ‘‘ سیکڑوں مرتبہ پینٹ کیا، وہیں قرآن پاک کی کئی سورتیں بھی مہارت سے ’’لیدر‘‘ پر منتقل کیں۔ اُن کے بہ قول، قرآنی خطاطی سے اُنھیں روحانی سکون ملتا ہے۔ قرآنی اور اسلامی خطاطی کے علاوہ کیلی گرافی کی دیگر اصناف پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ شمار سینئر مصوروں میں ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر کینوس پر منتقل کرنے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ تنوع پسند ہیں، سو مٹی، پتھر اور دیگر دھاتوں کا بھی بہ خوبی استعمال کیا۔

فن مصوری کے استاد کی حیثیت سے بلوچستان میں اُنھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ گذشتہ کئی برس سے ’’فن کدہ‘‘ کے نام سے فن مصوری کی تربیت کا ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔ اُن کے ذخیرے میں سیکڑوں پینٹنگز اور خطاطی کے فن پارے موجود ہیں، لیکن نہ تو کبھی اُن کی نمایش کی، نہ ہی کبھی فروخت کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ فن سے پیسا کمانے کے قائل نہیں۔

اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’پورٹریٹ تو بک جاتے ہیں، لیکن ہر شخص پینٹنگز کی قیمت نہیں دے سکتا۔ سیکڑوں تصاویر پڑی ہیں، میرا جی نہیں کرتا کہ اُن کی نمایش کروں!‘‘ اپنا فن نئی نسل میں منتقل کرنا اُن کا مشن ہے ، یہی سبب ہے کہ وسائل سے محروم طلبا و طالبات سے کوئی فیس نہیں لیتے۔

محمود رشی کا تعلق ایک متوسط کشمیری خاندان سے ہے۔ وہ بلوچستان کے ضلعے لورالائی میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، سعید احمد رشی کاروبار پیشہ آدمی تھے۔ ابتدائی تعلیم لورالائی ہی سے حاصل کی۔ 1964 میں میٹرک کیا۔ بچپن ہی میں مصوری کی جانب مائل ہوگئے تھے۔ اُن کے گھر کے پیچھے ایک وسیع میدان تھا، جہاں بارش کے بعد جوہڑ سا بن جاتا تھا، وہیں کیچڑ میں لکیریں کھینچ کر، مٹی کرید کر فن پارے بناتے۔

بعد میں کھیتوں سے مٹی لے کر، فرش پر کوئلے سے اور دیوار پر چاک سے فن پارے بنائے۔ قوت مشاہدہ تیز تھی، فطری حسن، قدرتی مناظر اپنی جانب کھینچتے، پہاڑاُنھیں پکارتے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول، لورالائی کے استاد، شوکت صاحب نے جب اُن کا شوق دیکھا، تو سینئر طلبا کے ساتھ بٹھا دیا، وقتاً فوقتاً راہ نمائی کرتے رہے۔ اِس ضمن میں اپنے اساتذہ سر عباس اور سر حنیف کا بھی بہت محبت سے ذکر کرتے ہیں۔ اسکول ہی کے زمانے میں ملکی سطح پر ہونے والے فن مصوری کے ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا۔

گریجویشن کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اسلامیہ کالج، لاہور کا رخ کیا، جہاں سے 1970 میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پھر ادارہ نصابیات بلوچستان کے ساتھ منسلک ہوگئے، جہاں ملازمت کے ساتھ شوق کی تکمیل کا بھرپور موقع ملا۔ ایک مقامی اخبار کے ادبی صفحے سے اُن کے فن کا اظہار ہوتا رہا۔

صوبائی سطح پر فن مصوری اور کیلی گرافی کی ورکشاپس منعقد کروائیں۔ بلوچستان کے متعدد شاعر اور ادیبوں کی کتابوں کے ’’ٹائٹل‘‘ بنائے۔ محکمۂ تعلیم کے لیے کیلینڈرز تیار کیے۔ 1980 میں، ادارہ نصابیات کے ایک کمرے میں اِس فن کی تدریس شروع کر دی، پہلی مرتبہ سینئرڈرائنگ ماسٹر کے کورس میں ’’کارٹون‘‘ اور ’’فن خطاطی‘‘ کے سلسلے شروع کروائے۔

اپنا فن نوجوانوں میں منتقل کرنے کے لیے 1998 میں اُنھوں نے ’’فن کدہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جہاں قرآنی خطاطی، مصوری، اردو اور انگریزی خطاطی کی کلاسیں شروع کیں۔ ادارے کا کرایہ پانچ برس تک اپنی جیب سے ادا کیا۔

اِس عرصے میں محمود رشی کو منسٹری آف ایجوکیشن، اسلام آباد سے پیش کش ہوئی، لاہور اور کراچی کی مختلف درس گاہوں نے بھی دعوت دی، لیکن اُنھوں نے انکار کر دیا۔ کہتے ہیں’’مجھے بلوچستان کی مٹی سے محبت ہے۔ اِس مٹی میں پیدا ہوا ہوں، اور ’فن کدہ‘ کے پلیٹ فورم سے بلوچستان کی مٹی کا قرض چکا رہا ہوں۔ بس، یہی خواہش ہے کہ اِس زمین کے نوجوانوں کو آگے لے کر جائوں۔‘‘

فائن آرٹس میں بہترین کارکردگی کے پیش نظر تین مرتبہ محکمۂ تعلیم کی جانب سے وہ گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے۔ محکمۂ تعلیم ہی نے اُن کا نام دو مرتبہ صدارتی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا۔ کہتے ہیں،’’میں نے کبھی اپنی خدمات کا صلہ نہیں مانگا۔

بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ رہا ہوں۔ سابق گورنر بلوچستان کی اہلیہ، بیگم ثاقبہ رحیم الدین میرے فن کی قدرداں تھیں، اُن کے والد کے پورٹریٹ بھی میں نے ہی بنائے، تاہم میں کبھی اعزازات کے پیچھے نہیں بھاگا۔‘‘ ادارہ نصابیات سے وہ 2005 میں سینئر ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بعد میں خود کو کُلی طور پر ’’فن کدہ‘‘ کے حوالے کر دیا۔

محمود رشی پیدایشی مصور ہیں۔ کہتے ہیں، اُنھوں نے اِس شعبے میں اپنے رب اور اسکول کے مشفق اساتذہ کے سوا ئیکبھی کسی سے راہ نمائی حاصل نہیں کی۔ ’’کیلی گرافی، فیبرک پینٹنگز ، پورٹریٹ بنانا، اِن کاموں میں مجھے کبھی راہ نمائی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کسی ادارے سے فن مصوری کی تربیت حاصل نہیں کی۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی دَین ہے۔‘‘

محمود صاحب کے مطابق فن مصوری کی تربیت حاصل کرنے کے خواہش مند طلبا و طالبات کی تعداد خاصی بڑھ گئی ہے، کام پھیل گیا ہے۔ ’’اِس وقت 70 کے قریب لڑکے، لڑکیاں ’فن کدہ‘ میں تربیت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ پنجگور، لسبیلہ، ژوب، لورالائی، زیارت اور کراچی سے بھی طلبا یہاں آتے اور سیکھتے رہے ہیں۔ افغانستان سے بھی نوجوان آئے۔ میرے بہت سے طلبا نے اپنا نام بنایا۔‘‘

اِس ضمن میں برطانیہ میں مقیم اپنے طالب علم، فیصل اور لاہور سے تعلق رکھنے والے خیام اور آصف کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، گوہر خان اور عابد کا بھی نام لیتے ہیں۔ ’’اِسی طرح میری طالبات نے بھی فن مصوری اور خطاطی میں خود کو منوایا۔ بلوچستان کے کونے کونے میں میرے شاگرد ہیں۔ اگر کسی خاندان کا ایک لڑکا میرے پاس آجائے، تو پھر پورا خاندان کھنچا چلا آتا ہے۔‘‘ بتاتے ہیں، نیشنل کالج آف آرٹس،

لاہور کے لیے بھی اُن کے طلبا منتخب ہوئے۔ اُن کی زندگی کا مقصد غربا کے بچوں کو ’’پرموٹ‘‘ کرنا، بلوچستان میں یہ فن پھیلنا ہے۔ اِسی جذبے کے تحت کئی بچوں کی بلامعاوضہ تربیت کی۔ ’’میرے لگائے ہوئے درخت اب پھل دے رہے ہیں۔ میرے طلبا کے فن پاروں کی نمائش برطانیہ اور دبئی میں ہوئی ہے، اور مجھے اِس بات کی خوشی ہے۔‘‘ اُن سے فیض یاب ہونے والے طلبا جب کبھی کوئٹہ آتے ہیں، تو ’’فن کدہ‘‘ آ کر اُن کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

اپنی پسندیدہ پینٹنگ کے تعلق سے کہتے ہیں، اُنھیں روایتی لباس زیب تن کیے، چائے کے ہوٹل پر بیٹھے اُس بوڑھے شخص کی پینٹنگ بہت پسند ہے، جسے اُنھوں نے خانوزئی کے علاقے میں، چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے، کسی گہری سوچ میں گُم بیٹھے دیکھا تھا۔ اُن کے بہ قول،’’وہ بلوچستان کی اصل تصویر ہے!‘‘

اسمائے الٰہیہ کے عشق میں مبتلا محمود رشی کہتے ہیں کہ کائنات میں بکھرے تمام رنگ اسم ’’اﷲ‘‘ میں موجود ہیں۔ ’’اﷲ کے نام کا اثر، سحر پیدا کردیتا ہے۔ اِسی لیے میں نے پتھر اور مٹی سمیت کئی دھاتوں پر کام کیا ہے۔ کاغذ کو چاک کرکے، چاقو سے تراش کر فن پارے بنائے۔ لیدر پر، کپڑے پر اﷲ کا نام کندہ کیا۔‘‘ اِس وقت محمود رشی رنگوں کی مدد سے قرآن پاک کی کتابت کررہے ہیں۔ تیرہ پارے مکمل ہوچکے ہیں۔

کہتے ہیں، گذشتہ برس رمضان المبارک میں یہ منصوبہ شروع کیا تھا، لیکن اسے مکمل نہیں کرسکے، سو اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دُعا مانگی۔ ’’اﷲ پاک نے مدد کی۔ اب یہ کام کررہا ہوں۔ یہ میرا عشق، میرا مشن ہے۔‘‘ عربی خطاطی کے ماہر، محمود رشی کی ایک شاگردہ فرزانہ، جو تفہیم القرآن اکیڈمی، کوئٹہ کی پرنسپل ہیں، اسلامی خطاطی کی اشاعت میں تعاون کرتی ہیں۔

محمود رشی نے 1976 میں والدین کی پسند سے شادی کی۔ اُن کا ایک بیٹا ہے، جس کی شادی ہوچکی ہے۔ رنگوں کے اِس فسوں گر کو سفید رنگ بہت پسند ہے۔ اُن کے مطابق سفید رنگ، دوسرے رنگوں کا معاون ہوتا ہے۔ اِس میں پاکیزگی ہے، بزرگی ہے، امن ہے۔ ’’اِس رنگ میں محبت ہے، وفا ہے، ترتیب ہے۔

یہ رنگ منظم ہے۔ یہ واحد رنگ ہے، جو دوسرے رنگوں کو روشنی دیتا ہے، تاریکی میں اُمید کی کرن پیدا کرتا ہے، لیکن اِس رنگ کا لباس میں بہت کم پہنتا ہوں۔ اگر اُس پر کوئی داغ لگ جائے، تو بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ سرخ رنگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اِس میں بلندی اور قوت ہے۔ نیلے رنگ کو سکون اور آرام کی علامت تصور کرتے ہیں۔

اُن کے مطابق زمانۂ طالب علمی میں وہ پینٹ شرٹ پہنا کرتے تھے، اب شلوار قمیص پسندیدہ پہناوا ہے۔ پہلے کھانا دوستوں کے ساتھ باہر ہی کھایا کرتے تھے، لیکن شادی کے بعد یہ سلسلہ ترک کردیا، اب اہلیہ کے ہاتھ کے بنے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔ سبزیوں سے بھی رغبت ہے۔

بچپن میں فٹ بال کا کھیل توجہ کا مرکز رہا۔ سٹی الیون کی بھی نمایندگی کی۔ کیرم بورڈ، ٹیبل ٹینس اور بلیئرڈ کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں بہ طور بلے باز اترتے تھے۔ شکار کے بھی شوقین رہے۔ پہاڑوں میں آوارہ گردی اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ شہری زندگی پسند نہیں۔ کہنا ہے کہ شہروں کے باسی مخلص نہیں ہوتے۔ ’’مجبوری کی بنا پر شہر میں رہ رہا ہوں!‘‘

کھلاڑیوں میں عمران خان پسند تھے، لیکن اُن کی سیاست میں آمد کے بعد خیالات بدل گئے کہ محمود صاحب سیاست سے نفرت کرتے ہیں۔ ’’سیاست جھوٹ پر مبنی ہے۔ میں نے آج تک کوئی ایسا لیڈر نہیں دیکھا، جس کی دولت کے ذخائر میں کبھی کمی واقع ہوئی ہو۔‘‘ بتاتے ہیں، اُنھوں نے زندگی میں فقط ایک بار ووٹ کا حق استعمال کیا۔ وہ ووٹ میاں نواز شریف کے حق میں ڈالا تھا۔ استاد اﷲ بخش چغتائی اُن کے پسندیدہ مصور ہیں۔ غزلیں شوق سے سنتے ہیں۔ مہدی حسن، غلام علی اور لتا پسندیدہ گلوکار ہیں۔ جوانی میں دوستوں کے ساتھ سنیما میں باقاعدگی سے فلمیں دیکھا کرتے تھے،

لیکن پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ کہتے ہیں، شام میں بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ ’’سبب یہ ہے کہ میں غیبت سے نفرت کرتا ہوں، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے اس معاشرے میں ’فٹ‘ نہیں بیٹھتا۔‘‘ سیاحت کے شوقین ہیں۔ پورا پاکستان گھوم چکے ہیں۔ لاہور اچھا لگا کہ وہ باغات کا شہر ہے، لوگ ہنس مکھ ہیں، ہر چہرے پر مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ رشتے داروں میں اپنی نانی سے بہت پیار کرتے تھے۔ محبت کے تجربہ سے بھی گزارے، جو پہلا اور آخری ثابت ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔