پی سی بی سے اچھا ادارہ کوئی نہیں

سلیم خالق  بدھ 12 اپريل 2017
بورڈ حکام نے غیرملکی دوروں پر کروڑوں روپے کرکٹ کی خدمت کیلیے خرچ کیے، انھیں مفت کی سیاحت کا کوئی شوق نہیں تھا۔ فوٹو: فائل

بورڈ حکام نے غیرملکی دوروں پر کروڑوں روپے کرکٹ کی خدمت کیلیے خرچ کیے، انھیں مفت کی سیاحت کا کوئی شوق نہیں تھا۔ فوٹو: فائل

’’دیکھو میاں ہم نے بھی پوری زندگی لڑائیاں مول لیں مگر تمہیں بھائیوں والا مشورہ ہے،لکھتے ہوئے ذرا ہلکا ہاتھ رکھا کرو، یہ طاقتور اور بااثر لوگ ہیں نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں‘‘ ایک سینئر صحافی نے چند روز قبل مجھے یہ مشورہ دیا۔

’’یار سیٹھی صاحب تم سے بڑے ناراض ہیں،ذرا ان کا خیال رکھا کرو، اچھا اب انھیں ایک فون تو کر لو‘‘ حال ہی میں ایک اور صحافی دوست نے مجھ سے یہ کہا۔

’’ بھائی یہ مصباح کیوں تم سے چڑتا ہے،کل بات ہو رہی تھی تو تمہارے بعض کالمز پر ناراضی کا اظہار کر رہا تھا‘‘ ایک کرم فرما نے یہ بتا کر میری معلومات میں اضافہ کیا۔

مجھے اکثر اس قسم کے فیڈبیک ملتے رہتے ہیں، اس سے بخوبی اندازہ ہو چکا کہ خبریں دینے کے ساتھ جب سے کالمز متواتر لکھنا شروع کیے اور اس میں حقائق عوام کے سامنے لایا تو ’’کرکٹنگ‘‘ دوستوں کی تعداد کم ہونے لگی، چیئرمین بورڈ شہریارخان، نجم سیٹھی، مصباح الحق، انضمام الحق سمیت کئی ایسے بااثر لوگ ہیں جو میری تحریروں کو پسند نہیں کرتے، شاید مجھے بھی تعریفوں کے پل باندھ دینے چاہئیں تو ان کی گڈ بکس میں آجاؤں تو ایسا کر کے دیکھ لیتے ہیں، پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی کئی دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ میں چونکہ پی ایس ایل میں گیا تھا لہٰذا اس کی تعریف میں کچھ لکھوں تو چلیں آغاز اسی سے کرتے ہیں۔

٭پی ایس ایل دنیا کی سب سے بڑی لیگ ہے، اس میں تمام بڑے کرکٹرز کھیلنے آتے ہیں، فکسنگ کا جو واقعہ ہوا اس میں پی سی بی کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ بھارت کی سازش تھی، کھلاڑیوں کو جال میں پھنسایا گیا، وہ بیچارے پیسے کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ دودھ کے دھلے ہیں۔

٭ بورڈ کا اینٹی کرپشن یونٹ دنیا میں سب سے اچھا ہے، عرفان اور شاہ زیب کو بکیز کی پیشکش کا نہ بتانے کے باوجود وطن واپس نہ بھیجنا کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا، ملکی مفاد میں ایف آئی اے کی تحقیقات رکوائی گئیں، اس میں کوئی اور مقصد شامل نہیں تھا۔

٭ پی سی بی میں کوئی غلط کام نہیں ہو رہے، ذاکر خان اور دیگر کو عمران خان کے ڈر سے نہیں بلکہ میرٹ پر بغیر کام لیے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔

٭ بورڈ حکام نے غیرملکی دوروں پر کروڑوں روپے کرکٹ کی خدمت کیلیے خرچ کیے، انھیں مفت کی سیاحت کا کوئی شوق نہیں تھا۔

٭ لاہور میں فائنل سے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھل گئے، جلد ہی آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیمیں بھی پاکستان آنا شروع ہو جائیں گی۔

٭ نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین بگ تھری کی حمایت سے بہت اچھا کام کیا، بھارت نے جو کئی سیریز کھیلنے کے خواب دکھائے تھے وہ اب پورے ہونے والے ہیں۔

٭ شہریارخان ڈمی چیئرمین نہیں بلکہ ان کی موجودگی میں بیچارے نجم سیٹھی کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پاتے ہیں، پی ایس ایل کی کمپنی نجم سیٹھی اپنے لیے نہیں بلکہ کرکٹ کی بھلائی کیلیے بنا رہے ہیں۔

٭ شہریارخان اپنی خوشی سے پی سی بی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، نجم سیٹھی کے چیئرمین بننے کی راہ ہموار نہیں کی جا رہی، اگر کل کو انھوں نے عہدہ سنبھال لیا تو یہ محض ایک اتفاق ہوگا، ویسے بھی ان سے اچھا چیئرمین پاکستان کو مل ہی کہاں سکتا ہے، وزیر اعظم انھیں قابلیت کی بنیاد پر تو بورڈ میں لائے تھے۔

٭ پی سی بی کا گورننگ بورڈ بہت طاقتور ادارہ ہے، اس کے سامنے کوئی غلط فیصلہ منظور کرانے کی جرات نہیں کر سکتا۔

٭ پی سی بی کے تمام آفیشلز کی ڈگریاں بالکل اصلی ہیں، جو بیچارے ان سے محروم ہیں انھیں غلط تنگ کیا گیا، وہ تو میلے میں کھو گئی ہوںگی۔

٭ انضمام الحق بے داغ ماضی کے مالک چیف سلیکٹر ہیں، ان سے اچھی شخصیت کوئی اور مل ہی نہیں سکتی تھی، وہ ہمیشہ میرٹ پر ٹیم منتخب کرتے اور کبھی کسی حقدار سے انصافی نہیں ہونے دیتے، سہیل خان کے حامی تو ایسے ہی شور مچا رہے ہیں، پی ایس ایل میں زیادہ وکٹیں لینا کوئی بڑی بات تھوڑی تھی۔

٭ توصیف احمد، وسیم حیدر اور وجاہت واسطی سے اچھے سلیکٹرز پاکستان کرکٹ کو مل ہی نہیں سکتے تھے، ان کا ویژن بہترین ہے، وہ غلط بات پر انضمام کو فوراً ٹوک دیتے ہیں، کرکٹ میں ان کے کارنامے سنہری الفاظ میں لکھے جانے چاہئیں۔

٭ پی سی بی میں کوئی اقربا پروری نہیں ہوتی، سابق کرکٹرز کو تعریفیں کرنے کیلیے ملازمتوں پر نہیں رکھا گیا، وہ تو سچ کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے، سابق بورڈ چیف کے بیٹے کو ملازمت سو فیصد میرٹ پر دی گئی۔

٭ ہارون رشید کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ورلڈکپ میں رسوا نہیں ہوئی ، ایونٹ تو آتے جاتے رہتے ہیں، اگر ایک اعلیٰ شخصیت انھیں اور معین خان کو بورڈ میں واپس لانا چاہتی ہے تو کیا غلط ہے، جی ہاں مجھے پتا ہے کہ ورلڈکپ کے دوران معین خان کسینو گئے تھے مگر کیا کوئی ڈنر کرنے وہاں نہیں جا سکتا، جوئے کیلیے ہی جانا ضروری ہے کیا۔

٭ یہ الزام بھی غلط ہے کہ شعیب اختر کو کئی سال پہلے کے جرمانے کی رقم یا یوسف کو وکیل کی فیس معاف کرنے میں بورڈ حکام کا کوئی غلط مقصد تھا، دونوں کو جب موقع ملے گا خلاف بات بھی کریں گے، آج کل جب سب کچھ اچھا ہے تو کیوں برائی کریں؟

٭ وسیم اکرم کو پی ایس ایل کا سفیر بنانے کا فیصلہ بہترین ہے، ان سے اچھی ساکھ کا حامل کوئی اور کھلاڑی ہمیں نہیں مل سکتا تھا، یہ بات بالکل غلط ہے کہ انھیں اور رمیز راجہ کو اب بھارت لفٹ نہیں کرا رہا تو ملکی کرکٹ کی محبت کا جذبہ جاگ اٹھا ہے۔

٭ مصباح الحق کو ریٹائرمنٹ پر غلط مجبور کیا گیا، وہ ابھی 7 سال مزید کھیل سکتے تھے، اگر رنز نہیں بنا رہے تو کیا ہوا کپتان تو بہترین ہیں، ایک،دو سیریز ہارنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

٭یہ کہنا کہ مصباح جب کپتان بنے تو ٹیم نمبر پانچ تھی اب 6پر چھوڑ کر جا رہے ہیں بالکل درست نہیں ہے، یہ کیوں بھول گئے کہ چاہے چند دن کیلیے نمبر ون تو بنے تھے، وہ عمران خان سے بھی بڑے کپتان ہیں۔

میرے خیال میں آج کیلیے اتنی ہی تعریفیں کافی ہیں، امید ہے اب مخالفین مجھ سے ناراض نہیں ہوںگے، ہاں اگر قارئین کو یہ باتیں پسند نہ آئیں تو وہ یہ یاد رکھیں کہ اپریل فول تو پورے مہینے ہی بنایا جا سکتا ہے ناں،اگر آپ ٹویٹر پر مجھے فالو کرنا چاہئیں تو @saleemkhaliq پر کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔