تفہیم المسائل

مفتی منیب الرحمن  جمعـء 18 جنوری 2013
مسجد بنانا یقیناً اجر و ثواب کا باعث ہے لیکن اگر اُس سے پرانی مسجد ویران ہوتی ہو تو ہرگز نہیں بنانی چاہئے .   فوٹو: رائٹرز

مسجد بنانا یقیناً اجر و ثواب کا باعث ہے لیکن اگر اُس سے پرانی مسجد ویران ہوتی ہو تو ہرگز نہیں بنانی چاہئے . فوٹو: رائٹرز

مشترکہ جائیداد کا شرعی حکم

سوال: ہمارے والد کا انتقال1998ء میں اور والدہ کا 1979ء میں ہوا۔

والد صاحب کے ورثاء میں ہم پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ والد صاحب کی سامان سے بھری ایک دوکان تھی، جس میں پانچوں بھائیوں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر کام کیا۔ تین بیٹوں کو والد صاحب نے وقتاً فوقتاً کاروبار چھوڑنے پر اپنے حساب سے پیسہ دے دیا، کہ یہ کاروبار میں تمہارا حصہ ہے۔ انتقال کے وقت سامان اور نقد رقم ملا کر بارہ لاکھ نوے ہزار روپے تھی اور دو بیٹے ساتھ کام کررہے تھے۔

انتقال سے پہلے والد صاحب برملا کہا کرتے تھے کہ دوکان میں موجود تمام سامان میں، میرے دو حصے ہیں، یعنی نصف مال میرا ہے، بیان کردہ صورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقسیم کس طرح ہوگی ؟ سید لیاقت علی، شاہ فیصل کالونی کراچی

جواب:باپ کی زندگی میں جو کاروبار تھا، اور اُس وقت جو بیٹے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، وہ مال میں شریک نہیں ہیں۔ تمام مال باپ کی ملکیت ہوتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد تمام وارثوں کا ہے۔ اُس میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ ورثاء کا ہوگا۔ اگرچہ کاروبار چلانے والے چند افراد ہوں اور باقی ورثاء عملی طورپر کام نہ کررہے ہوں۔ تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے : ترجمہ: ’’اکثر کاشت کار اور دیگر (پیشوں سے وابستہ ) لوگوں میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی فوت ہوجائے، تو اُن کی اولاد ترکے کو تقسیم کیے بغیر اِسی طرح قائم رکھتی ہے۔

وہ اُس زمین میں کھیتی باڑی کرتے ہیں، خریدوفروخت، قرض کا لین دین اور دوسرے اُمور جاری رکھتے ہیں، اور کبھی فوت ہونے والے کا بڑا بیٹا تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے اور چھوٹے اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں، یہ سب ایک طرح سے غیر رسمی تفویض اختیار ہوتاہے (یعنی وہاں کے لوگوں کا عرف یا عادت ہے) ۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں : ترجمہ: ’’ پس جب ان کی سعی ایک ہے، اور ہر ایک کی محنت کی کمائی جدا جدا نہ ہو، تو سب جمع شدہ مال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، اگر چہ ذہنی و فکری عمل کی مقدار ایک جیسی نہ ہو، نہ ہی یہ امتیاز ہوکہ کس کی رائے یا عمل زیادہ نفع بخش ہوا اور کس کا کم، ’’ فتاوی خیریہ‘‘ میں اِسی طرح کا فتویٰ دیاہے۔

اور ان میں سے اگر کسی نے اپنی ذات کے لیے کچھ خریدا تو وہ اُس کا مالک ہوجائے گا اور اگر اُس نے مشترکہ مال سے قیمت دے کر خریدا تھا، تو اس میں شرکاء کا جو حصہ صرف ہوا، اس کا وہ ضامن ہوگا۔‘‘ (جلد6،ص:372) صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم کے ترکے کی شرعی تقسیم (ترجمہ: ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، النساء:11) کے تحت ہوگی، یعنی ہر بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملے گا ۔ یعنی کل بارہ حصے ہوں گے، ان میں سے ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

مسجد کا ویران کرنا حرام ہے
سوال: ہمارا گاؤں میں ایک کچی مسجد قائم ہے، جو گاؤں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ کچھ اصحابِ خیر کے تعاون سے نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن قدیمی مسجد کی جگہ پختہ مسجد تعمیر کرنا ممکن نہیں بلکہ مسجد کے رقبے میں تھوڑے اضافے سے گاؤں میں داخلے کا راستہ بند ہوجائے گا ۔ کیا ہم پرانی مسجد کو ترک کرکے نئی جگہ مسجد بناسکتے ہیں ؟۔ مولوی عبدالحکیم ، ڈیرہ جمالی ، بلوچستان

جواب:جب پہلے سے ایک مسجد موجود ہے تو اُس کے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنا مناسب نہیں ہے ،کیوںکہ یہ سابق مسجد کی ویرانی کا سبب بنے گی اور قرآن مجید میں اس پر وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’ اور اس سے بڑا ظالم اور کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ (البقرہ: 114) فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق وقف مکمل ہوجانے کے بعد واقف (وقف کرنے والا) کو بھی وقف میں تبدیلی کا اختیار نہیں رہتا۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں :ترجمہ: ’’ وقف کی ہیئت کو بدلنا جائز نہیں، ( فتاویٰ عالم گیری جلد 2ص:490)۔‘‘

پرانی مسجد کو کسی دوسرے استعمال میں لانا قطعاً جائز نہیں۔مسجد بنانا یقیناً اجر و ثواب کا باعث ہے لیکن اگر اُس سے پرانی مسجد ویران ہوتی ہو تو ہرگز نہیں بنانی چاہئے کہ مسجد کا ویران کرنا اور اُسے شہید کرنا حرامِ قطعی ہے۔ ایسی صورت میں ہمیشہ یہ تدبیر کرنی چاہئے کہ پہلے سے جو مسجد قائم ہے، حسبِ ضرورت ملحق زمین حاصل کرکے اسی کی توسیع کی جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔