پرچی سے مسائل کا حل ڈھونڈیں

نصرت جاوید  جمعرات 17 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

دُنیا چاہے، ان کے نظریات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرے مگر ایک بات پر سب کو اتفاق کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ 1947ء کے ہنگامہ خیزدنوں میں بھارت اور پاکستان کی سیاسی قیادت بہت ایمان دار ،تجربہ کار اور زیرک لوگوں پر مشتمل تھی۔اس حقیقت کے اعتراف کے بعد ہمیں یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ ان میں سے ایک شخصیت بھی وحشت اور بربریت کی ان انتہائوں کا قبل از وقت اندازہ نہ لگاسکی جس کا سامنا ہمارے خطے کے لاکھوں خاندانوں کو تقسیمِ ہندوستان کے عمل سے گزرنے کے دوران کرنا پڑا۔

قائد اعظم کے بارے میں ایسے کئی واقعات مستند ذرایع کی بدولت سامنے آئے ہیں جہاں مہاجرین کی ابتلائوں کو سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو نمایاں ہوجاتے تھے۔اپنے جذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھنے والی ان جیسی آہنی شخصیت کو ایسی کیفیت میں دیکھنا، ان کے ملاقاتیوں کو ششدر کردیتا تھا۔یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ان دنوں دلی کے مسلمان محلوں میں جاکر پنڈت نہرو اپنے حواس پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے اور مہاتما گاندھی کو بھی آئے دن مرن بھرت پر چلے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ان تینوں اور ان کے سیکڑوں پیروکاروں کی مخلص کوششوں کے باوجود ایسے واقعات پھر بھی ہوئے جنہوں نے سعادت حسن منٹو کے تخلیقی ذہن سے ’’کھول دو‘‘ جیسے افسانے تو لکھوائے مگر اس کی بہت ہی حساس طبیعت کو دیوانہ بھی بنادیا۔

میرا پاکستان بھی اس وقت جنون اور ہیجان کی خوفناک کیفیتوں سے گزررہا ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اس ملک میں بجلی ،روزگار ،گیس کچھ بھی نہیں ۔دہشت گردی نے زندگی کو قطعی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ہم سب کو 2008ء میں بڑی اُمید تھی کہ جن لوگوں کو ووٹ دے کر ہم اپنا حکمران بنارہے ہیں، وہ ہماری زندگیوں میں بہتری لائیں گے۔ وہ یہ سب نہیں کرسکے۔ ان کے خلاف ہمارے دلوں میں گزشتہ کئی مہینوں سے پکنے والا غصہ اب چھلک کر سڑکوں پر نظر آرہا ہے تو اس پر حیران ہونے کا کوئی جواز نہیں۔

یہ سب کہنے کے بعد مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیں کہ آج ہم جس عذاب کا سامنا کررہے ہیں، اس کے قطعی ذمے دار صرف ہمارے موجودہ حکمران ہی نہیں۔ان کا ناقابلِ معافی گناہ مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی طرف اس شدت، مستعدی اور خلوص سے نہ بڑھ پائے جس کی ہمیں ان سے توقع تھی ۔مگر ہمارے اس غصے کو اپنے بھرپور اظہار کا موقع دینے کے لیے پاکستان میں ایک تاریخی مرحلہ آنے والا ہے۔آیندہ چند ہفتوں میں انتخابات ہوسکتے ہیں۔ہماری ہر ممکن کوشش ہونا چاہیے کہ یہ انتخاب صاف،شفاف اور غیر جانبدار ہوں اور ان میں حصہ لیتے وقت پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں سے نہ صرف اہل بلکہ ایماندار لوگوں کو آگے لائیں ۔ہم بھی بیلٹ پیپر پر مہر لگانے سے پہلے سو بار سوچیں اور ذاتی،گروہی اور برادری والے تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنا انتخاب کریں اور اچھے کی اُمید رکھیں۔

اس سارے عمل کے ممکنات کی روشنی میں کینیڈا میں گزشتہ پانچ برس سے مقیم قادری کا دسمبر2012ء میں اچانک پاکستان آکر بالآخر اسلام آباد پر لشکر کشی کردینا میری سمجھ میں تو ہرگزنہیں آرہا ۔موصوف دعویٰ تو یہ کررہے ہیں کہ وہ اور ان کا لشکرا نتخابی عمل کو صاف اور شفاف بنانے آیا ہے۔ مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سرسری طورپر جاننے والا شخص بھی جبلی طورپر محسوس کررہا ہے کہ اصل ایجنڈا کچھ اور ہے ۔ذکر کڑے احتساب کا ہے اور دعویٰ ریاست کو بچانے کا ۔آئین سے وفاداری اور آئین کے تحفظ کی قسمیں بھی کھائی گئی ہیں اور نظر بظاہر یہ سارا ڈرامہ اسی آئین کے موثر نفاذ کی خاطر رچایا گیا ۔

پاکستانی سیاست کو تطہیرکے عمل سے گزارنے کے لیے ضرورت مگر عدلیہ اور فوج کی اجاگر کی جارہی ہے اور یہ سب کرتے ہوئے ہمارے معصوم لوگوں کو کوئی نہیں بتارہا کہ 1958ء میں ان ہی دو اداروں نے ہمیں فیلڈ مارشل ایوب خان اور اس کے دس سال دیے تھے جن کے اختتام پر ہم نے مشرقی پاکستان گنوادیا۔ان ہی دو اداروں کے باہمی تعاون سے ضیاء الحق نے میری زندگی کے گیارہ سال چرائے ۔اس نے ’’جہاد‘‘ کے ذریعے افغانستان تو ’’آزاد‘‘ کرالیا مگر پاکستان کو دہشت گردوںکی آماجگاہ بنادیا۔ضیاء الحق نے جنھیں پالا تھا، ان کی بیخ کنی کے نام پر عدلیہ اور فوج کی معاونت سے ایک بار پھر ہمیں جنرل مشرف کے دس سال بھی بھگتنا پڑے ۔اسلام آباد پر کی جانے والی حالیہ لشکر کشی کا اصل مقصد پنجابی والی گدھی کو بالآخر زیرومیٹر پر لاکر رائیگاں کے ایک اور سفر پر ڈال دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ لشکر کشی کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں ۔مگر ان کی کامیابی کا انتظار کرنے سے کہیں پہلے صرف پاکستان کا نقشہ دیکھ لیجیے ۔بس اتنا سوچئے کہ وہ تیل اور گیس جن کی روزبروز بڑھتی گرانی اور کمیابی نے ہماری زندگی اجیرن بنارکھی ہے ،کن راستوں اور ذرایع سے ہمارے شہروں اور گھروں تک پہنچتے ہیں ۔ ان راستوں اور ذرایع کے آس پاس بھی لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں ۔ان پاکستانیوں کو ان کے ووٹ سے بنائے گئے حکمران شاذونادر ہی نصیب ہوئے ہیں ۔آیندہ ہونے والے انتخاب انھیں نہ صرف اس بات کا حق دیں گے بلکہ 18ویں ترمیم کی بدولت وہ تمام اختیارات ووسائل بھی جو یہاں کے منتخب لوگوں کو اسلام آباد کی طرف دیکھنے اور پنجاب کو برابھلا کہنے کے بجائے اپنی صلاحیتیں آزمانے کی طرف راغب کریں گے ۔

میرے ان پاکستانیوں سے اسلام آباد پر لشکر کشی کے ذریعے یہ تمام امکانات چھین لیے گئے تو آیندہ دھرنے عین ان جگہوں پر ہوا کریں گے جو آپ پاکستان کے نقشے کو غور سے دیکھتے ہوئے بڑی آسانی سے دریافت کرسکتے ہیں ۔خدا کے لیے دھرنوں اور لشکر کشی کے ذریعے نہیں پرچی کی طاقت سے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی روایت کو مضبوط وتوانا بنائیے ۔ورنہ جو کچھ ہوگا اسے لکھنے کو سعادت حسن منٹو جیسا ایک بھی تخلیقی اور حساس ذہن ہم میں فی الوقت تو موجود نہیں اور کل کس نے دیکھاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔