مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کا حشر

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 17 جنوری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

آج دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک مایوس کن صورت حال آتی ہے۔ جنگیں، نفرتیں، عوامی بے چینی، خوف، غیر یقینیت، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری، غرض ایک افراتفری کی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کسی بڑی عالمی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے۔

اس منظرنامے میں مشرق وسطیٰ اضطراب کی انتہا پر کھڑا نظر آتا ہے۔ بڑی عوامی تحریکیں عموماً معاشی ناانصافیوں، طبقاتی استحصال کے خلاف اٹھتی ہیں۔ اگر اس حوالے سے ہم مشرق وسطیٰ کی تحریکوں پر نظر ڈالیں تو یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ یہاں معاشی بدحالی کی وہ کیفیت موجود نہیں جو دوسرے پسماندہ ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ پھر وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر لاکھڑا کیا؟

مشرق وسطیٰ پر صدیوں سے شخصی قبائلی اور شاہانہ آمریتیں مسلط ہیں۔ ان ملکوں میں آزادی فکر و اظہار اس سارے طویل عرصے میں مفقود ہی نہیں بلکہ بدترین جرم بنی رہی۔ حکمرانوں کے تحفظ کے لیے بنائی گئی خفیہ ایجنسیاں ان ملکوں میں شہریوں کے ساتھ سایوں کی طرح لگی رہیں۔ جہاں خفیہ کے اہلکاروں کا خوف اتنا شدید ہے کہ ہر شخص دوسرے پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہونے کا شک کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں زیارت اور عبادت کی بھرپور آزادی ہے، لیکن کسی کو حکمرانوں اور حکومت کے خلاف کچھ کہنے کی بات تو الگ، سوچنے کی بھی آزادی نہیں۔

جب میں اس پس منظر میں مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کو دیکھتا ہوں تو دو عوامل ایسے نظر آتے ہیں جو ممکنہ طور پر ان تحریکوں کے محرک رہے ہوں۔ ایک آزادی فکرواظہار پر کڑے پہرے، دوسرا ان ملکوں کے حکمران طبقات کی بے مہابا کرپشن۔ اگر یہی دو عوامل مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کی بنیاد رہے ہیں تو اب ان دونوں عوامل یا جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے نجات کے بعد بھی مشرق وسطیٰ میں شدید اضطراب، بے چینی اور غیر یقینیت کیوں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے جو تین ملک مصر، لیبا اور تیونس شدید عوامی تحریکوں کی زد میں آئے وہاں جگہ اسلامسٹ حکومتوں نے لی ہے۔ اگر ان ملکوں میں کوئی نظریاتی خلا تھا تو اسے پُر کردیا گیا۔ ویسے بھی مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پوری پوری مذہبی آزادی رہی ہے بلکہ حکمران طبقات بوجوہ عوام کو زیادہ سے زیادہ عباداتی سہولتیں فراہم کرتے رہے لہٰذا یہاں نظریاتی گھٹن کی کوئی صورت حال نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ کیا عوامل ہیں جو انقلابات کے بعد بھی یہاں اضطراب، بے چینی اور غیریقینیت کی فضا کو شدید سے شدید تر بنارہے ہیں؟

اس حوالے سے صرف ایک دن کی کچھ خبریں ملاحظہ کیجیے جس سے آپ کو اس معمولی اضطراب کا اندازہ ہوجائے گا جو اس خطے میں پایا جاتا ہے۔ مصر حسنی مبارک کی چالیس سالہ آمریت کے پنجے سے آزاد ہوگیا، حسنی مبارک ایک لبرل سوچ کے حکمران تھے، اگر مصر کے عوام لبرل حکمرانوں سے بیزار تھے تو پھر انھیں مصر میں مذہبی انتہا پسند جماعت اخوان المسلمین کے برسر اقتدار آنے کے بعد سکون حاصل ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اخوان حکومت کے صدر ڈاکٹر مرسی کے برسراقتدار آنے اور ایک اسلامی آئین نافذ کرنے کے باوجود مصر میں التحریر کا میدان غیر مطمئن مصریوں سے کیوں بھرا ہوا ہے؟ اور مصری حکومت کیوں عدم استحکام کی شکار ہے؟ پچھلے دنوں مرسی کے بعض وزرا نے مرسی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔

خبر کے مطابق مصری صدر مرسی نے ’’عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کابینہ میں ردوبدل کا اعلان کیا ہے‘‘ اور وزیر مالیات اور وزیر داخلہ کو فارغ کردیا ہے۔ ایک اور اخباری خبر کے مطابق عراق کے وزیراعظم نوری المالکی نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرتشدد کارروائیوں سے گریز کریں۔ عراق کے کئی شہروں میں مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہرین نے شہریوں سے امتیاز برتنے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شام اس وقت خود شامیوں کے خون میں نہایا کھڑا ہے۔

شام کے صدر کا کہنا ہے کہ ہنگامہ کرنے والے خدا کے دشمن اور مغربی ملکوں کے ایجنٹ ہیں جو شام کے باغیوں کو بڑے پیمانے پر مالی مدد اور ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ باغی شام کو توڑنا اور اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں ، لیکن حکومت ان کا مقابلہ کرے گی اور شام کو توڑنے نہیں دے گی، شام کے صدر نے اس حوالے سے شام کے بحران کے حل کا ایک روڈ میپ بھی پیش کیا ہے۔ ایک خبرکے مطابق ایرانی حکومت نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ ترک ایران سرحد پر نیٹو نے جو میزائل نصب کیے ہیں اس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتا ہے۔ ان خبروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انقلابات کے بعد بھی مشرق وسطیٰ اضطراب اور غیر یقینیت کا شکار ہے اور عوام یہاں آنے والی تبدیلیوں سے مطمئن نہیں۔

مشرق وسطیٰ کے عوام جن امیدوں، جن خواہشوں کے ساتھ سڑکوں پر آئے تھے لگتا ہے ان کی وہ امیدیں اور خواہشیں پوری نہ ہوئیں، خاص طور پر آمریت نے اظہار رائے اور فکری آزادی کا جس طرح گلا گھونٹا تھا ان آزادیوں کا نئی حکومتیں بھی مختلف بہانوں سے گلا گھونٹ رہی ہیں اور کرپشن کی وہی صورت حال ہے جو آمروں کے زمانے میں رہی ہے۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام مشرق وسطیٰ پر امریکا کی بالادستی سے نفرت کرتے ہیں اور بدقسمتی سے نئی حکومتیں بھی اپنے گلوں میں امریکی غلامی کا طوق ڈال رہی ہیں۔ پھر یہ ایک منطقی بات ہے کہ عوام نے جو قربانیاں دے کر جن مقاصد کے لیے تبدیلیاں لائی تھیں انھیں ایسی قوتوں نے ہائی جیک کرلیا جو فکری حوالے سے ماضی کی حکومتوں سے بھی بدتر ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی تحریکوں میں امریکا نے جو کردار ادا کیا شاید اس وقت کی جذباتی فضا میں اس کے مضمرات پر عوام نے غور نہیں کیا لیکن عوام اب محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو فقہی اختلافات کی بھینٹ چڑھا کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ ہی نہیں کیا جارہا ہے بلکہ عوام کو فقہی حوالے سے ایک دوسرے کے کشت و خون کے راستے پر لگادیا گیا ہے، امریکا نے عراق میں بھی یہی کیا۔ صدام کے دور میں فقہی اختلافات کو ابھرنے نہیں دیا گیا تھا لیکن عراق پر امریکی قبضے کے دوران فقہی اختلافات کو اس طرح ہوا دی گئی کہ عراقی عوام کی جنگ آزادی فقہی جنگ میں بدل گئی اور عراقی عوام قابض فوجوں سے لڑنے کے بجائے آپس ہی میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو مشرق وسطیٰ میں عوامی اضطراب، عوامی بے چینی کا سبب نظر آرہے ہیں۔ نئی حکومتیں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس فقہی جنگ کی فریق بن گئی ہیں۔

اس فقہی جنگ کا موجودہ مرکز شام ہے۔ شام ایران کا دیرینہ دوست رہا ہے اور امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو ہی نہیں بلکہ ایران کے دوستوں کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شام کی جنگ آمریت کی جنگ کے بجائے دو فقہوں کی جنگ میں بدل گئی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں عرب امارات کے حکمران شامی صدر کے خلاف باغیوں کی ہر طرح مدد کر رہے ہیں۔ یعنی امریکی مفادات کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ ایسی کھلی حقیقتیں ہیں جن کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔

سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ لیبیا میں جمہوری قوتوں کی فضائی حملوں کے ذریعے مدد کرنے والا جمہوری چیمپئن امریکا بادشاہوں اور شیوخ کی سرپرستی بھی کر رہا ہے اور ان سے مشرق وسطیٰ کی جمہوری تحریکوں کو فقہی تحریکوں میں بدل کر عربوں کو عربوں کے ذریعے قتل بھی کروا رہا ہے۔ یہ وہ عوامل نظر آرہے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں انقلابات کے بعد بھی بے چینی اور غیر یقینیت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عوام اپنی قربانیوں کا صلہ چاہتے ہیں اور یہ صلہ مشرق وسطیٰ میں پرو امریکا شخصی قبائلی خاندانی اور شاہانہ حکومتوں کے مکمل خاتمے اور عوامی حکومتوں کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔