نہ تم جیتے نہ ہم ہارے

انوار فطرت / غلام محی الدین  جمعـء 18 جنوری 2013
طاہر القادری نے کی قیادت میں ہزاروں افراد نے اسلام آباد میں 4 روز دھرنا دیا۔  فوٹو: ایکسپریس

طاہر القادری نے کی قیادت میں ہزاروں افراد نے اسلام آباد میں 4 روز دھرنا دیا۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام آ باد:  قدم قدم رودادِ سفر

اب اگر یہ کہیں کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے تو ممکن ہے بہت سی چتونوں پر بل پڑ جائیں۔

لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان بانچ دنوں اور راتوں میں قوم اعصابیت کے کیسے کیسے عذاب سے گزری سندھ اور بلوچستان اور خیبرپختون خوا تو خیر اپنے اپنے عذابوں میں مبتلا رہے اور ہیں لیکن ادھر پنجاب کو ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے نے بہ ہرحال اپنی جکڑ میں لیے رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کے طول و عرض میں گھروں میں، ہوٹلوں میں، ریستورانوں میں لوگوں کی آنکھیں ٹی وی سکرینوں سے چپکی رہیں۔

ہر پل ہر ساعت ہر آن شہروں کے شہر دھڑکتے رہے۔ یہ بالکل کسی سسپنس فلم کی طرح تھا جس میں ناظر ایک ایک سین کے ساتھ منسلک رہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ کوئی سین اس کی نظر سے رہ جائے اور فلم کا مزا کرکرا ہو جائے تاہم اس دھرنے کا منظر مزے دار ہرگز نہ تھا بل کہ یہ اعصاب پر طاری ہونے والا تھا کیوں کہ ایک طرف اس دھرنے میں جہاں خواتین، جوان بچیاں اور شیر خوار بچے تک شامل تھے تو اوپر سے موسم بھی ناموافق تھا جوں جوں رات بھیگتی توں توں پنجابیوں کے دل گداز ہوتے چلے جاتے کہ کھلے آسمان تلے یہ لوگ کیسے رات گزاریں گے۔

اس دوران اسلام آباد کا درجہ حرارت 3 سے اوپر نہیں اٹھ پایا جو رات گئے کبھی 2 اور کبھی ایک درجے تک گرتا رہا اور پھر آخری دن تو بادلوں نے وہ تاریکی کی کہ دن کو بھی گاڑیاں بتیاں جلا کر ڈرائیو کرتی دکھائی دیں، پھر یوں بھی ہوا کہ بادل خوب گرجے اور سرما کی یخ کر دینے والی بارش شروع ہو گئی ادھر لانگ مارچ کے شرکاء کھلے آسمان تلے تھے۔ اِدھر اُدھر چند خیمے دکھائی بھی دیے جو بہ ہرحال انتہائی ناکافی تھے۔ یہ لوگ عام حالات میں ہوتے تو شاید مقابلہ نہ کر پاتے لیکن ان کے اندر غالباً جوش و جذبے کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔

اس دوران کئی بار ایسے مقامات آئے جن سے اندیشہ ہو چلا تھا کہ اب بھگدڑ مچی، اب کوئی ہنگامہ ہوا اور اب کوئی بلوہ فساد رونما ہوا لیکن خدا کا شکر ہے کہ اپنی تمام تر ناخوش گواریت کے باوصف کوئی خون خرابہ، سرپھٹول رونما نہیں ہوئی اور اسلام آباد میں سچ مچ اتنے بڑے ہجوم کے باوجود ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کی خبر گرم ہوئی تو دارالحکومت کے ریڈ زون میں سرگرمیاں شروع کر دی گئیں۔ علاقے کے اردگرد کنٹینر رکھ کر خاردار تاروں کا جال بچھا دیا گیا۔ سفارت کاروں اور سفارتی عمارتوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی اور فیصلہ یہ کیا گیا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو ریڈزون میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ڈی چوک بند کر دیا گیا اور رینجرز اور پولیس سے 5 ہزار افسروں اور اہل کاروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، فوج کو سٹینڈ بائی رکھنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ انسپکٹر جنرل اسلام آباد نے تمام تھانوں کو 12 جنوری تک پچاس پچاس کنٹینرز فراہم کرنے کا حکم جاری کیا۔

ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ڈھیر کر دیا گیا۔ الغرض یہ ساری تیاریاں یوں کی گئیں جیسے شہر پر کوئی بہت بڑی ’’ایمرجنسی‘‘ پڑنے والی ہے۔ ادھر ڈاکٹر طاہر القادری نے مارچ کے شرکاء کے لیے کم از کم تین دن کے قیام و طعام کا حکم جاری کر دیا، ملک بھر سے ٹرانسپورٹ کے حصول کے لیے کروڑوں روپے پیشگی ادا کر دیے گئے۔ بم اور بلٹ پروف کنٹینر کی تیاری پر ایک کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے گئے جس میں ڈاکٹر صاحب نے سفر کیا۔ دریں اثناء وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی ممکنہ خدشات کے ازالے کے لیے سکیورٹی ہدایات جاری کیں۔

اسی دوران تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے یہ اندیشے ابھرے کہ وہ طاہر القادری کو نشانہ بنائے گی تاہم اگلے ہی روز تحریک کے ترجمان احسان اللہ احسان کی طرف سے ایسی خبروں کی تردید سامنے آ گئی۔ ادھر ڈاکٹر صاحب کا یہ غیر مبہم بیان آ گیا کہ انہیں نظربند کر دیا جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا بل کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ نے ڈاکٹر قادری کے ان خدشات کو رد کیا بل کہ یہ کہا کہ ڈاکٹر صاحب گرفتاری دینا بھی چاہیں تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

اس سے قبل 7 جنوری کو وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنا مارچ منسوخ کرنے کی درخواست کی تاہم ڈاکٹر صاحب نے کال واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ لانگ مارچ سے حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر صاحب کے مارچ میں شرکت کا عندیہ دیا تھا لیکن بیان اور ردِ بیان کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھاکہ 11 مارچ کو متحدہ قومی موومنٹ کا یہ فیصلہ سامنے آیا کہ وہ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرے گی تاہم اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی جس سے بہ ہرحال مارچ کے شرکاء میں ناگواری کا احساس پایا گیا۔

اس اثناء میں حکومت کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو باز رکھنے کی ایک اور کوشش ہوئی اور چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نے ان سے ملاقات کی تاہم ڈاکٹر صاحب نہیں مانے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس دوران معروف ڈیویلپر ریاض ملک کے بھی خوب لتے لیے جو ان سے ملنے کے لیے آئی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے اور جس سے انہوں نے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کیا۔

13 جنوری کو ماڈل ٹائون لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنے لانگ مارچ کے لیے ’’جمہوریت مارچ‘‘ کا عنوان تجویز کیا۔ انہوں نے پنجاب کو کوفہ اور حکم رانوں کو یزیدیت کے گماشتے قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں ان کے مارچ کو سبوتاژ کرنے کے لیے تیزاب اور گیس کے بھرے ہوئے کنٹینر کھڑے کر دیے گئے ہیں ۔

تاہم الحمد کہ ان کا یہ خدشہ بے بنیاد تھا۔ حکومت پنجاب نے مارچ کا آغاز ہوتے ہی اسے ناکام قرار دے دیا اور لاہور میں موبائل سروس بند کردی۔ بتایا جاتا ہے کہ لانگ مارچ کے آغاز میں شرکاء کی تعداد لگ بھگ 13 ہزار تھی جب کہ ڈاکٹر صاحب کادعویٰ تھا کہ اس مارچ میں 40 لاکھ مرد و زن شریک ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب الزام عاید کرتے ہیں کہ ہزاروں عازمین کو روک لیا گیا ہے اور سیکڑوں گاڑیاں بھی روکی گئی ہیں۔

پیر 14 جنوری کو مارچ ختم ہوا اور شرکاء اسلام آباد کے جناح ایونیو پر پہنچے۔ یہاں تک تو عوام خاص طور پر پنجاب کے عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد سارے مناظر ذوق و شوق سے دیکھا کیے تاہم شرکاء جب جناح ایونیو پر براجمان ہو گئے اور برقی ذرائع ابلاغ نے مناظر دکھانا شروع کیے تو تشویش کی ہلکی ہلکی لہریں اٹھنے لگیں، خاص طور پر جب یہ دیکھا گیا کہ شرکاء میں ایک بڑی تعداد نہ صرف بڑی عمر کی خواتین اور کم سن و نوخیز لڑکیوں پر مشتمل ہے بل کہ اس میں شیر خوار اور چھوٹے بچے بھی شامل ہیں جنہیں پولیس اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد گھیرے میں لیے ہوئے تھی پھر جب یخ بستہ رات نے ان لوگوں کو آ لیا تو بہت سے دل گداز ہونا شروع ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد پہنچتے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو الٹی میٹم جاری کردیا کہ وہ اگلے روز یعنی 15 جنوری کی صبح 11 بجے تک ساری اسمبلیاں ختم کر دیں اور خود بھی سبک دوش ہو جائیں ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کا مارچ دنیا کا سب سے بڑا مارچ ہے اور یہ کہ اب اسے مارچ نہ کہا جائے کیوں کہ اب انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ 10 لاکھ افراد لالہ موسیٰ، گجرات، دینہ، جہلم، گوجر خان اور راول پنڈی کے علاقوں سے پیدل چلے آ رہے ہیں، پیدل اس لیے کہ ان سے ظالم اور جابر حکم رانوں نے گاڑیاں چھین لی ہیں، ’’مجھے ان ہی کا انتظار ہے‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے ان سے ’’جنٹل مین پرامز‘‘ کیا ہے کہ شرکاء کا پڑائو پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک میں ہوگا جہاں وہ عوامی پارلیمنٹ لگائیں گے تاہم ایسا نہیں ہوا اور اسی رات انہوں نے کنٹینر ہٹوا کر ڈی چوک میں اپنے لیے جگہ بنا لی، بعد میں ڈاکٹر صاحب، رحمٰن ملک کو ناگفتہ بہ ناموں سے یاد کرتے رہے۔ انہوں نے انتظامیہ کو اپنے خطاب کے اختتام کے بعد 5 منٹ کے اندر ہر چیز پارلیمنٹ کے سامنے منتقل کرنے کا انتباہ جاری کیا۔ یہاں انہوں نے دھمکی دی کہ حکومت کو صبح تک مہلت دی جاتی ہے بہ صورت دیگر عوام اسے خود تحلیل کر دے گی۔ انہوں نے پولیس افسروں کو بھی پیش گوئی دی کہ پرسوں تک ان کے افسر بدل جائیں گے اور یہ کہ وہ پولیس کو بھی غلامی سے نجات دلا دیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ ان کے سامنے جو شرکاء موجود ہیں ان کی تعداد 40 لاکھ ہی ہے اور یہ کوئی دم جاتا ہے جب ان میں مزید 10 لاکھ افراد آ ملیں گے اس طرح یہ اجتماع نصف کروڑ ہو جائے گا تاہم بعض اوقات وہ اسے دس لاکھ کا اجتماع بھی قرار دیتے رہے۔ اپنے خطاب میں وہ کربلا کے حسینی قافلے کے استعارے استعمال کرتے رہے۔اس موقع پر یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض مقامات پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ سابق آمر جنرل پرویز مشرف کی تصاویر بھی آویزاں ہیں۔

اسلام آباد میں آمد کے بعد راول پنڈی میں بھی کنٹینرلگا دیے گئے جس سے آمد و رفت کے راستے بند ہو گئے۔ دارالحکومت میں زندگی کے معمول سراسر معطل نہیں تو انتہائی سست پڑ گئے، تمام بنک بل کہ اے ٹی ایم مشینیں تک بند کر دی گئیں۔ 15 جنوری کا ڈاکٹر صاحب کا خطاب خاصا جوشیلا تھا۔ اس میں انہوں نے حکومتوں اور اسمبلیوں کو ختم کرنے کے لیے بس ایک ہی دن کی مہلت عطا کی اور اسی خطاب میں انہوں نے صدر اور ان کے تمام وزراء کو سابق قرار دے دیا۔ اگلے روز خبر گرم ہوئی کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور ان کے 15 ساتھیوں کی رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کا حکم جاری کر دیا ہے، اس پر ڈاکٹر صاحب نے فلک شگاف آواز میں شرکاء کو نوید دی کہ آدھے خطاب میں آدھا کام ہو چکا باقی آدھا کام ’’کل‘‘ کے خطاب میں ہو جائے گا۔

یہ کہ کر انہوں نے تقریر ختم کر دی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ کارکنوں کے جذبات ان کی مٹھی میں ہیں اور وہ جب چاہیں ایوان اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں لیکن وہ ایسا کریں گے نہیں کیوں کہ وہ جذباتی لوگ نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے شرکاء کو بھی تنبیہ کی کہ انہیں روز روز طاہرالقادری نہیں ملے گا لہٰذا وہ ڈٹے رہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے شرکاء کو سانحہ کربلا سے مثال دی کہ یوم عاشور سے ایک رات قبل حضرت امام عالی مقام نے چراغ بجھا دیا کہ جو لوگ کرب و بلا سے بچنا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں نکل جائیں تاہم کوئی اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ اس مثال کے بعد انہوں نے ایک بار شرکاء سے کہا کہ ’’میرے ساتھ دھوکا نہ کرنا، وگرنہ ہم ایک دوسرے سے پھر کبھی نہیں ملیں گے، میں عوام کی جنگ لڑتے لڑتے شہید ہو جائوں گا‘‘۔

انہوںنے یہ بھی اطلاع دی کہ گزشتہ رات وفاقی وزیر داخلہ نے مسلح افراد کے ذریعے انہیں اغوا کرانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس خطاب کے دوران وہ بارہا آب دیدہ بھی ہوئے۔ انہوں نے بارہا پاکستانی عوام کو گھروں سے نکل کھڑے ہونے اور شرکاء میں شرکت کے لیے پکارا۔ بدھ کے روز انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے راہ نما عمران خان سے کہا کہ وہ اگر دھرنے میں شریک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں۔ بہ ہرحال یہ سلسلے چلتے رہے۔ 17 جنوری کو ڈاکٹر صاحب نے لگ بھگ ڈیڑھ بجے حکومت کو تین بجے تک کا الٹی میٹم دے دیا کہ اگر حکومت نے نوٹس نہ لیا تو۔۔۔۔۔ اور حکومت نے فوری طور پر کان دھرے اور ان سے پینتالیس منٹ کی مزید مہلت مانگی اور اس کے بعد حکومت کی دس رکنی ٹیم کے مابین ڈاکٹر صاحب کے بم پروف کنٹینر میں مذاکرات شروع ہوئے جو ’’کام یابی‘‘ پر منتج ہوئے۔

 بند گلی سے باہر…

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کاروباری علاقہ بلیو ایریا میں ابر آلود موسم کے دوران، دھرنا دینے کے 84 گھنٹے بعد جب حکومتی اکابرین اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے تو پورے ملک میں ایک امید بندھ گئی کہ فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ہو گی۔ حکومتی زعماء سخت حفاظتی انتظامات میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بنکر نما کمرے میں 3 بج کر 56 منٹ میں داخل ہوئے، جو دی گئی مہلت 45 منٹ سے بہ ہرحال زیادہ تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مذاکراتی ٹیم کا خوش دلی سے استقبال کیا اور ان کے چہرے پر مسرت بھی دکھائی دے رہی تھی۔ 4 بجے مذاکرات شروع ہوئے تو نشریاتی اداروں نے توقعات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر دونوں جانب سے لچک دکھائی گئی تو یہ معاملہ نماز مغرب سے پہلے تک حل ہو جائے گا، اِس نازک مرحلے پر سنجیدہ بات چیت سے متعلق اِس طرح کی توقعات بہ ظاہر تو بھلی معلوم ہو رہی تھیں لیکن عوام کے دلوں میں ایک خوف بہ ہرحال موجود تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟

مذاکرات سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے جب 3 بجے تک کی ’’ڈیڈ لائن‘‘ دی تھی تو عوام کے اعصاب پر بوجھ بڑھ گیا تھا لیکن دوسری جانب سے جب مذاکراتی ٹیم کی بلیو ایریا میں آمد کی خبریں سامنے آنے لگیں تو یہ بوجھ بڑی حد تک کم بھی ہوا تھا، اِس پر ڈاکٹر قادری نے اعلان کیا کہ ’’عوام کی آواز سن لی گئی لیکن یہ مذاکرات وقت بڑھانے یا حاصل کرنے کے لیے ہرگز نہیں ہوں گے۔‘‘

مذاکراتی ٹیم میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو شامل نہ کرنے پر لوگوں نے حکومتی تدبر کی تعریف کی لیکن بعض عوامی حلقوں نے کہا کہ ایسا ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبہ پر ہوا ہے۔ جب دھرنا کے 85 ویں گھنٹے میں جب مذاکرات داخل ہوئے تو پورے ملک نے براہ راست نشریات کے ذریعے دیکھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری تن تنہا 10 گرم و سرد چشیدہ سیاست دانوں کے ساتھ محو گفت گو تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی حفاظت کے لیے تیار کیے جانے والے کمرے کی کھڑکی کے بلٹ پروف شیشے کے پار کے منظر نامے کو کیمرے کی آنکھ دکھا تو رہی تھی۔

مگر وہاں کیا ہو رہا تھا اِس بارے میں پوری قوم بے خبر تھی۔ صرف قیاس کیا جا رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں امیدواروں کی اہلیت ہی بنیادی ایشو ثابت ہو گا جس میں یہ طے پائے گا کہ کون سے لوگ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے؟ اگر یہ ایشو طے پا گیا تو پھر دھرنے کے شرکاء خوشی خوشی گھر جانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اِس موقع پر تاحد نظر بارش میں بھیگتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مذاکرات کی کام یابی کے لیے دعائیں مانگتی نظر آئی تو بعض حلقے یہ استفسار کرتے دکھائی دیے کہ چند قدم کے فاصلے پر قائم عدالت عظمیٰ میں کرایے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی کا جو اہم ترین مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اُس پر عدالت نے کیا کوئی ریمارکس دیے ہیں؟

اس وقت تک عدالت عظمیٰ نے صرف اتنا کہا تھا کہ آج ہر حال میں مقدمہ کا حتمی فیصلہ کر دیا جائے گا، عدالت رات 10 بجے تک کام کرے گی لیکن پھر یہ سماعت 23 جنوری تک ملتوی ہو گئی۔ نماز مغرب کا وقت آیا تو ڈاکٹر طاہر القادری نے نشریاتی اداروں کو بتایا کہ نماز کی ادائی اور کھانے کے بعد مذاکرات شروع ہوں گے، ابھی وقفہ ہوا ہے۔ مذاکرات کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں سے چار میں سے ایک نکتہ پر اتفاق ہو گیا تھا، یہ نکتہ کون سا تھا کسی کے علم میں نہ تھا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے مختلف اوقات میں دی جانے والی ڈیڈ لائنیں جو ہفتوں، دنوں، گھنٹوں میں بدلتی ہوئی منٹوں تک آ گئی تھیں، ابھی تک بار آور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھیں مگر قوم لمحہ لمحہ آگاہی کے لیے بے چین تھی، کیوں نہ ہوتی، ایک طرف دھرنے کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا تو دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران سیٹ اپ سے متعلق صلاح مشورے عروج پر پہنچ چکے تھے۔

اِس دوران وفاقی دارالحکومت میں یہ خدشات بھی سر اٹھا رہے تھے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ قوتیں بھی سرگرم ہیں اور نہیں چاہتیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں… وہ حالات جیسے ہیں ویسے ہی قائم رہیں یا قائم رکھے جانے کی پالیسی پر گام زن ہیں، انہیں ڈر تھا کہ اگر جعلی ڈگری رکھنے والوں، کرپشن میں ملوث اور روایتی سیاست کے مہروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تو مستقبل میں دھرنے کی سیاست، ہماری روایتی سیاست کا حصہ بن جائے گا، اگر ایسا ہو گیا تو پھر ملک چکی کے دو پاٹوں میں پسا ہوا طبقہ بھی ایک نیا شراکت دار بن کر سامنے آ جائے گا۔ اِس صورت حال میں وفاقی دارالحکومت کی فضاء سوالوں سے لبریز دکھائی دے رہی تھی، ہر کوئی قیافہ شناسی کے زور پر سوالوں کے جواب تو دے رہا تھا مگر اپنے ہی لہجے کی کم زوری پر قابو پانے میں ناکام بھی نظر آ رہا تھا۔ پھر رات 8.50 منٹ پرمذاکرات کے نتائج سامنے آ گئے جن کے تحت3 صفحات پر مشتمل چار نکاتی معاہدہ طے پایا اور اُس کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی اور دونوں جانب سے فریقین نے اُس پر دستخط کیے، طے پانے والے معاہدے سے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو اعتماد میں لیا اور ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے معاہدے کی شقوں کی توثیق کر دی اور معاہدے پر وزیراعظم کے دستخطوںکے لیے ان قیمتی صفحات پر مشتمل اعلامیے کو وزیراعظم ہائوس بھجوایا گیا تاکہ وزیراعظم بھی فریق کی حیثیت سے اس پر دستخط کر سکیں۔قریباً 20 منٹ کے بعد وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اعلامیے پر دستخط کر دیے تھے ۔ اُس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنے کے شرکاء کے سامنے اعلامیے کے نکات پڑھ کر سنائے جب ڈاکٹر طاہرالقادری اعلامیے کے نکات پڑھ رہے تھے تو دھرنے میں شامل لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ مذاکرات کے دوران ایم کیو ایم کے رکن بھی لندن میں اپنے قائد الطاف حسین سے رابطے میں رہے اور مذاکرات سے متعلق ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہے تھے۔

معاہدے کے تحت نگران حکومت میں تمام پارٹیوں کے لوگوں کو شامل کیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم پر حکومتی مذاکراتی ٹیم اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اتفاق کیا، الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو بڑھانے پر اتفاق ہوا اور نگران حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات آئندہ چند روز میں شروع ہوں گے۔مذاکرات میں یہ طے بھی پا گیا کہ 16 مارچ سے پہلے اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی، اِس سے قبل حکومت یہ باور کرا رہی تھی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی ، اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتیں تو الیکشن کا انعقاد 60 دنوں کے اندر ضروری تھا لیکن جب اسمبلیاں مقررہ مدت سے پہلے توڑ دی جائیں تو پھر آئندہ الیکشن 90 روز میں منعقد ہوتے ہیں۔

دھرنا ختم کرانے کے لیے کام یاب مذاکرات کا سہرا جہاں ایک طرف پوری حکومتی مذاکراتی ٹیم کو جاتا ہے تو دوسری جانب خاص طور پر چوہدری شجاعت حسین کے سر بھی جاتا ہے، چوہدری شجاعت حسین کے متعلق اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ ملک بھر میں سیاسی بصیرت رکھنے والے سیاست دانوں میں ایک قیمتی ایسا اثاثہ ہیں جو مشکل حالات میں بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ نکال لیتے ہیں۔ لال مسجد کے واقعہ پر بھی انہوں نے راستہ نکال لیا تھا مگر وہ راستہ جس طرح سے بند ہوا اُس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ ماضی میں افہام و تفہیم کے ساتھ قوم کو بند گلی سے نکالنے والے سیاست دانوں میں نواب زادہ نصراللہ اور مولانا احمد شاہ نورانی کا نام ہمیشہ احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ قوم ان کو آج بزرگ سیاست دان کی حیثیت سے جانتی ہے۔ کامیابی کے ساتھ دھرنا ختم کرانے میں چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں حکومتی ٹیم نے آج جو کردار ادا کیا ہے اُس کے بعد اگر چوہدری صاحب کو بھی ملک کے بزرگ، زیرک اور دور اندیش سیاست دانوں میں شمار کر لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے ان مذاکرات میں جو روش اپنائی وہ اِس شعر کے مفہوم پر پورا اترتی ہے۔

اِس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پائوں، ہاروں تو پیا تیری

حکومتی مذاکراتی ٹیم کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کو خوش آئند کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا لیکن جب تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے روّیے میں لچک اور بردباری کی تعریف نہ کی جائے تو بات مکمل نہیں ہو گی جو لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کردار کشی کر رہے تھے، ان کی نقلیں اتار رہے تھے اوران کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے ہر طرح کے القابات سے نواز رہے تھے، وہ حیران رہ گئے تھے کہ یہ کیا ہو گیا لیکن ایسا ہو چکا تھا۔

لانگ مارچ سے دھرنے تک کے سفر نے ڈاکٹر طاہر القادری کو جس بند گلی میں دھکیل دیا تھا اُس سے نکلنے کے لیے حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے جس احسن طریقے سے انہیں راستہ دیا وہ اپنی جگہ بہت خوش آئند ہے۔ اِس اقدام نے ثابت کر دیا کہ دونوں فریقین اپنی اپنی جگہ جیت گئے ہیں، شکست کسی کی بھی نہیں ہوئی۔ یہ فتح دیکھا جائے تو عوام کی فتح ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔