سیاسی مداخلت کھیلوں کو تباہی سے دوچار کردیگی، قومی آفیشلز

اسپورٹس رپورٹر  جمعـء 18 جنوری 2013
آاقتدارکی کھینچا تانی جاری رہی تو پاکستان میں اسپورٹس تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی. فوٹو: فائل

آاقتدارکی کھینچا تانی جاری رہی تو پاکستان میں اسپورٹس تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی. فوٹو: فائل

لاہور: سیاسی مداخلت اور عہدوں کیلیے رسہ کشی پاکستان میں کھیلوں کو تباہی سے دوچار کردے گی۔

اسپورٹس سے وابستہ ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو بہتر ہوگا، انٹرنیشنل اولمپک چارٹر کے مطابق پی او اے کی خود مختاری اور طریقہ کار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا،پاکستان اسپورٹس بورڈ کھیلوں کے انعقاد میں رکاوٹ بننے کے بجائے انفرااسٹرکچر کی بہتری کیلیے کردار ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار مختلف اسپورٹس تنظیموں کے عہدیداروں نے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو کے دوران کیا۔ پی او اے کے چیف کوآرڈینیٹر خالد محمود نے کہاکہ دنیا کے ہر ملک میں حکومتی ادارے کھیلوں کی سرپرستی کرتے ہیں، لندن اولمپکس جیسا میگا ایونٹ بھی حکومت کی طرف سے خطیر فنڈز کی فراہمی کے بغیر کرانا ممکن نہیں تھا، سپورٹ کے باوجود لندن اولمپک ایسوسی ایشین کی پالیسیز اور طریقہ کار آئی او سی چارٹر کے تحت درست تھا۔

دوسری طرف پاکستان میں حکومتی ادارے پی او اے کی آزادانہ حیثیت پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں، کھیلوں میں سیاسی مداخلت کے سبب انٹرنیشنل باڈی نے پاکستان پر پابندی لگادی تو کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں ملکی پرچم کے بجائے انٹرنیشنل اولمپک کے بینرتلے شرکت کرینگے جو پاکستانی کھیلوں کیلیے سیاہ دن ہوگا۔پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے صدر ادریس حیدر خواجہ نے کہا کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ میں 2 ڈائریکٹرز کی تقرری کی گئی، کھیلوں کے فروغ سے زیادہ وسائل ذاتی خدمت کیلیے رکھے گئے، رقم ملازمین اور بیرون ملک دوروں پر خرچ کی جا رہی ہے۔

اسپورٹس مقابلوں اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے اختیار کیے جانے لگے، پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن نے لاہور میں نیشنل گیمز کا انعقاد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے وسائل سے کرایا، بیشتر تنظیموں کے کھلاڑیوں نے شرکت کی لیکن حکومتی اداروں کے زیر اثر کئی یونٹس کو روک لیا گیا، اب دوسری بار قومی کھیلوں کے مقابلے اسلام آباد میں کرانے کے اعلانات کیے جارہے ہیں، ایسی کوششوں سے کھیل اور کھلاڑیوں کو الگ کر دیا جائے گا۔ پاکستان بیس بال فیڈریشن کے سیکریٹری خاور شاہ نے کہا کہ اداروں کی محاذ آرائی میں نقصان ملکی اسپورٹس کا ہو رہا ہے، آئی او سی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے، پابندی لگ گئی تو بدنامی ہی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ 2 سے زائد مدت کیلیے عہدیداروں کے انتخاب کو جواز بنانا درست نہیں، اگر کوئی شخص کھیلوں کا حقیقی خادم اور وسیع تجربہ رکھتا ہے تو 5 بار بھی انتخاب پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے، نا اہل لوگوں کو عہدوں پر باربار تبدیل کرنے کے باوجود نتائج حاصل نہ ہوں تو ایسے تجربات کا کوئی فائدہ نہیں، انھوں نے کہا کہ اعتراض کسی کی نااہلیت پر ہونا چاہیے، دوسری تیسری مدت یا عمر پر نہیں۔پاکستان جوجسٹو فیڈریشن کے سیکریٹری خلیل احمد نے کہا کہ اسپورٹس بورڈ کا کام کھیلوں کو فروغ دینے کیلیے فیڈریشنز کو گرانٹ اور معاونت فراہم کرنے کے ساتھ انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے لیکن عہدوں پر قابض افراد من پسند تنظیموں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

ملک کیلیے میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سیر سپاٹے کرنے اور کرانے پر توجہ دی جاتی ہے، کبھی ایڈ ہاک کی تلوار لٹکائی جاتی تو کبھی کھیلوں کے انعقاد میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، یہ سلسلہ جلد ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان کراٹے فیڈریشن کے صدر محمدجہانگیر نے کہا کہ آئی او سی متعدد بار حکام کو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشین کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کیلیے خط لکھ چکی، مگر انتخابات ہارنے والے اب چور دروازے سے کھیلوں کی تنظیموں پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں جو کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتا۔ٹگ آف وار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری رانا جمیل نے کہا کہ پی ایس بی کی طرف سے من پسند تنظیموں کو الحاق اور فنڈز دیے جاتے ہیں۔

رسہ کشی میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کو غیر معروف اسپورٹس کا طعنہ دے کر ٹرخا دیا گیا، یہی سلوک کئی دیگر یونٹس کے ساتھ کیا گیا، حکومتی ادارے نئے کھیلوں کی سرپرستی نہیں کریں گے تو پاکستان انٹرنیشنل سطح پر بڑی کامیابیاں کیسے سمیٹ سکے گا۔ پاکستان ووشو فیڈریشن کے صدر افتخارملک نے کہا کہ پاکستان مارشل آرٹ میں 2 بارایشین چیمپئن بنا لیکن کھلاڑیوں کی کسی نے حوصلہ افزائی نہیں کی، ملکی کھیلوں کے اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کھلاڑیوں کو ہی نقصان ہوا، اقتدارکی کھینچا تانی جاری رہی تو پاکستان میں اسپورٹس تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی، انھوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی ایونٹس میں اپنی مدد آپ کے تحت حصہ لیتے ہیں، اسپورٹس بورڈ نے کبھی مالی مدد نہیں کی اس کے باوجود کئی میڈلز پاکستان کے سینے پر سجائے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔