بہت دیر ہوچکی

جاوید قاضی  ہفتہ 15 اپريل 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب تک پاناما آئے، تب تک پاناما ہوجائے گا۔ بقول شاعر

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

سیاست بہت تیز ہوگئی ہے اور ریاست ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتی۔ کلبھوشن، عذیر بلوچ، جاسوسوں کے انبار لگ گئے، تہمتوں کے بازار لگ گئے ہیں۔ یہ ریاست کلاسیکل نہ سہی، نیم کلاسیکل ضرور ہے اور دور تک اس کے ماڈرن ہونے کی کوئی خبر نہیں۔ ’’کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک یاد نہ آؤ گے‘‘ کب تک یونہی چلتا رہے گا۔ آدمی ہیں کہ مردم شماری میں بیس سے بائیس کروڑ ہوجائیں گے اور ریاست ہے کہ جاسوسوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پورے خطے کو نظر لگ گئی ہے۔ ہم کیا کریں، ہمیں مودی نے دیوار سے لگا دیا ہے۔ یہ ہے وہ انتہاپرست ہندوستان، گاندھی کے قاتلوں کا راج، پاکستان کا نام سن کر ان کی آنکھوں میں خون سا آ جاتا ہے۔

یہ کل ہم تھے، مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے وجود کی خاطر خطے میں توازن ڈھونڈ رہے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ کچھ یوں ہوا کہ کوئی ہمیں اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا، ہمیں دشمن نے نہیں مارا، اپنی سوچ، رویے نے مارا۔ آج ہندوستان جس سمت راغب ہوا ہے اس کی کہیں انتہا نہیں، بھنور در بھنور، پاتال در پاتال۔ یوں تو ان کے ریاستی ادارے بہت مضبوط ہیں، پھر بھی نجانے کیوں مجھے ڈر ہے کہ شاید ہندوستان کے اس انتہا پرستی کے طوفان میں ریاستی ادارے بھی نہ ڈوب جائیں۔

گجرات کی اسمبلی نے قانون پاس کیا ہے کہ جو گائے کاٹے گا اس کو سزائے موت ہو گی۔ یوں کہیے جو انسان کو مارے گا اس کی سزا موت ہو نہ ہو، گائے کے ذبح ہونے کی ہوگی۔ ہمارے پاس جن لوگوں نے مذہب کو ہتھیار بنایا، انتہا در انتہا کے چھکے چھڑا دیے۔ لوگوں نے انھیں کبھی ووٹ نہیںدیا کہ سادہ اکثریت سے ہی سہی وہ حکومت بنا سکیں۔ وہ کبھی بھی جمہوریت کے سائے تلے نہیں پھولے پھلے۔ ان کا آمریتوں سے ہمیشہ گٹھ جوڑ رہا۔ مگر جو خارجہ پالیسی ہم نے بنائی، اس میں ہم اِس خطے میں کہیں بھی نہیں تھے اور خطے کے باہر ہم بہت تھے۔

چلو CPEC کی صورت میں ہم چین سے جڑے، اور یوں ایک توازن بن آیا۔ ہمارے اندر بھی توازن باقی نہیں۔ یہ توازن اداروں سے بنتا ہے۔ کہتے ہیں پاناما میں کسی کو جزا سزا ہو نہ ہو مگر ایک ایسا قانون بننے جا رہا ہے جس کی بازگشت صدیوں تک سنائی دے گی۔ یوں تو ہمارے ملک کو بنے ایک صدی بھی نہیں گزری، ہمیں صوبوں سے کیا لینا دینا، ہمیں آج اس کی حرکت چاہیے۔ جو آج حرکت نہیں دے گا تو آگے بھی کیا گل کھلائے گا۔

یہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ماں اپنے بچے کو سلانے کے لیے لوریاں سناتی ہے، پریوں کی کہانی سے اس کا دل بہلاتی ہے۔ اب اگر غور سے سیاستدانوں کی تقریر سنو، جو اہل اقتدار ایوانوں میں بیٹھے ہیں، ایسے لوگ جب میڈیا سے مخاطب ہوتے ہیں، ایک لفظ وہ بار بار دہراتے ہیں ’’دیں گے‘‘، ’’کریں گے‘‘، ’’ہوگا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پاناما باز ہیں، سب آگے کی باتیں کرتے ہیں، ہمیں پریوں کی کہانیاں اور لوریاں سناتے ہیں۔

عہدِ وفا یا ترکِ محبت
جو چاہو سو آپ کرو

اپنے بس کی بات ہی کیا ہے
ہم سے کیا منواؤ گے

یہ ہوگا، دیں گے، کریں گے، ہمارے ستر سال گزر گئے، مگر نہ ہوا، نہ کیا، نہ دیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ لوگوں کو نیند سی آگئی ہے۔ ان پر غنودگی سی طاری ہے اور الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ پھر سے ووٹوں کی بارش ہوگی اور انھیں کی نذر ہوگا سب کچھ۔ جو ’’کریں گے‘‘، ’’دیں گے‘‘ اور جو ’’ہو گا‘‘ کی باتیں کرتے ہیں۔ بیچارے عوام! اپنی بے چارگی کی نذر ہوگئے، مگر یہ ووٹر ان کے ووٹر سے زیادہ باشعور ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی مذہب کے دعویداروں کو اکثریت نہ دی۔

ہم اگر نواز شریف کو ہی پیمانہ بنائیں، لوگوں کے زیادہ ووٹ لینے کے حوالے سے، وہ دائیں بازو کے سیاستدان تو ہوں گے، مگر مودی نہیں۔ ہماری تاریخ میں ہمارے لوگوں نے ایسا بھیانک انتہاپسند چن کر وزیراعظم نہیں بنایا۔ بھلے چاہے ضیاء الحق جیسے آمر ہم نے دیے ہوں۔ رہا آج کی پیپلز پارٹی کا سوال، تاریخی اعتبار سے اپنی بناوٹ میں لِبرل لوگوں کی پارٹی ہے۔ پچھلے انتخابات میں مذہبی انتہاپرستوں نے ان کو کھل کر جلسے نہیں کرنے دیے تھے۔

بے نظیر ایک فرد کا نام نہیں تھا، ایک سوچ و فکر کا عکس تھا۔ انھوں نے اس کو اپنی راہ سے ہٹادیا۔ وہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، طرح طرح کے فتوے اور فیصلے سناتے ہیں، کبھی اسے کافر، کبھی اسے کافر قرار دیتے ہیں اور یوں وہ Encroch کرتے جاتے، حد سے بے حد ہوتے جاتے۔ اب ہماری ایکسپورٹ کیسے بڑھے؟ مدرسے تو بڑھتے جا رہے ہیں، سب دینی کام ہو رہے ہیں، دنیاوی کوئی نہیں۔ ضرورت اس میں توازن کی تھی، ہم اس عدم توازن کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ اس سال رقم ہونے جارہا ہے۔ چلو حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس عدم توازن کی ایک وجہ بھاری مشینری کی درآمد ہے، جس سے شرح نمو بڑھے گی۔ مگر ہماری برآمدات پانچ سال پرانی سطح تک گرگئی ہے۔ یا تو ان مدرسوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ہنر بھی اپنے طلبا کو سکھائیں۔ ہندوستان جو ہو، سو ہو، مگر اس کے ساتھ ایسا کوئی ماجرا نہیں ہے۔ وہ انتہاپسندی کے بلند زینوں کو چھو تو رہا ہے لیکن ان کے لوگ ہنر سے آراستہ ہیں۔

پچاس سال ہونے کو ہیں، سندھی لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ یہ ماجرا اس طرح نہیں ہے۔ ستر سال ہوگئے اس ملک کو، سندھی لوگ وڈیروں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ بھٹو نے وڈیروں کو عوامی بنایا۔ ’’بھٹوز‘‘ کے جانے کے بعد یہ پارٹی عوامی تو نہیں رہی، مگر وڈیروں سے تر ہوگئی۔ اتنے وڈیرے، اتنے وڈیرے کہ اس سے پہلے اس پارٹی میں کبھی نہ تھے۔ یاخدا یہ ماجرا کیا ہے۔

سندھ میں معاشی تعلقات Economic relations وہی ہیں جو انگریز نے بنائے تھے، حالانکہ اتنے بڑے سکھر بیراج کی صورت میں سندھ میں انفرااسٹرکچر آیا، سندھ کی کایا تبدیل ہوئی، نہ بدلے اگر تو وہ ہیں معاشی تعلقات۔ وہی دہقان وہی وڈیرہ۔ یہاں سے بظاہر ہندو تو چلا گیا لیکن جو کہ اپنی ماہیت میں سندھ کی مڈل کلاس تھی، وہ خلا سندھیوں نے پر نہ کیا، تو وقت کیسے انتظار کرے۔ ایک دم سے سندھ کے خالی شہر ہجرت کرنیوالوں سے بھر گئے اور بس دونوں ایک دوسرے کو اجنبی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ ثقافتوں، زبانوں کے، خیالوں کے تضاد تھے اور اب صدیوں کے بعد شاید یہ پیداواری تعلقات CPEC توڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔