اکثر لوگ کچرا ہوتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 15 اپريل 2017

اکثر لوگ کچرا  ہوتے ہیں’’کیوں!‘‘ آئیں اس ’’کیوں‘‘ کے اندر جھانکتے ہیں۔ امریکی ہر سال نومبر کے آخر ی ہفتے میں Black Friday تہوار مناتے ہیں اس روز چیزوں کی قیمتیں انتہائی کم ترین سطح پر ہوتی ہیں۔ اس لیے لوگ رات ہی سے اسٹورز کے سامنے لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ جب صبح اسٹور کے دروازے کھلیں تو وہ اولین لوگوں میں سے ہوں تاکہ وہ اپنی خواہش، پسند اور مرضی کی چیزیں انتہائی کم قیمتوں پر خرید سکیں۔

ذہن میں رہے کہ پہلے تین اشخاص اپنی پسند کی چیزیں مفت حاصل کر سکتے ہیں اس لیے پورے امریکا میں اس روز ناقابل یقین حد تک لوگوں کی تعداد اسٹورز میں خریداری کرتی ہے اور جیسے ہی اسٹورز کے دروازے لوگوں کے لیے کھلتے ہیں تو لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزوں کی طرف بری طرح سے لپکتے ہیں۔ ہماری زندگی بھی ایک اسٹور کی مانند ہوتی ہے جس میں ایک سے ایک قیمتی اورایک سے ایک سستی چیز موجود ہوتی ہے۔

یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے زندگی کے اسٹور سے کس چیز کے خریدنے کے امیدوار ہیں۔ یاد ر ہے ان قیمتی اور سستی چیزوں کے درمیان ایک ڈسٹ بن بھی ہوتا ہے جس میں زندگی کے اسٹور کا کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی کے اسٹور سے صرف اس کچرے کے خریدنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔

آپ کے ذہن میں یہاں ایک بڑا ہی سیدھا سادا سا سوال پیدا ہورہا ہوگا کہ زندگی کا کچرا کیا ہوتا ہے۔ آئیں! آپ کو بتاتے ہیں کہ زندگی کا کچرا کسے کہتے ہیں۔ نا امیدی، مایوسی، غصہ،لالچ، حسد، جلن، تعصب، نفرت، بغض، غرور و تکبر، عدم برداشت، عدم رواداری یہ سب کے سب زندگی کا کچرا کہلاتے ہیں۔ جب آپ خوشیاں، تحمل، برداشت، مسکراہٹیں، رواداری، لحاظ و مروت ، انسانیت، ایک دوسرے کا خیال، محبت، انکساری جیسی قیمتی چیزیں چھوڑ کر زندگی کے اسٹور سے اپنے لیے کچرا خریدنے لگ جاتے ہیں اور کچرے کو اپنی ذات میں جمع کرتے رہتے ہیں تو پھر ایک دن آپ خود کچرا بن جاتے ہیں۔

کچھ عرصے بعد جمع شدہ کچرا گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے اور اس قدر بدبو دار ہو جاتا ہے کہ دوسرے انسان پھر آپ سے بھاگنے شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ  پھر آپ ایک انسان نہیں رہتے ہیں بلکہ گلاسڑا کچرا  بن چکے ہوتے ہیں۔ پھر آپ اپنے جراثیم پورے سماج میں پھیلانا شروع کردیتے ہیں اور آپ کے جراثیم کی وجہ سے پورا سما ج گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ایک روز پورا سماج بدبودار اور زہریلا ہوجاتا ہے جس میں انسان بیمار اور بدبودار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے آج ہمارا پورا سماج بیماراور بدبودار ہوچکا ہے۔

جب ہندوستان کے شہنشاہ اشوک نے کالنگا پر دو ہزار سے زائد سال پہلے حملہ کرکے اسے تباہ و برباد کردیا اور جب اس نے خود کو خون اور لاشوں اور بین اور گریہ کرتی عورتوں کے درمیان پایا تو وہ خو ف زدہ ہو گیا کہ اس نے یہ کیا کر دیا۔ اس نے بقیہ زندگی اس کی تلا فی کرنے میں بسرکی اس نے زمینوں کو فتح کرنے کی لالچ کو چھوڑا اور خود کو تشدد اور غربت کے خاتمے کے لیے معاشی اور روحانی دونوں لحاظ سے وقف کردیا۔ اس نے سیکڑوں فرمانوں کو پتھروں پرکنندہ کرکے سلطنت کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لگوایا جس میں لوگوں پر امن، فیاضی کے لیے زور دینے کے ساتھ انھیں عزت دار، فرض کی بجا آوری اور خالص رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔

اشوک نے اپنی شاہی سواری کو چھوڑ دیا اور اپنی حکمرانی کے بقیہ اٹھائیس سال اپنی سلطنت میں ایران سے تھائی لینڈ تک بیل گاڑی میں سفر کرتے لوگوں سے ملتے ان کے مسائل کو سمجھتے اور انھیں خود انحصاری اور ایک دوسرے کے لیے رحم کی تلقین کرتے ہوئے گزاری۔

ایچ جی ویلز نے اس کے لیے کہا ’’دسیوں ہزاروں حکمرانوں کے درمیان جو تاریخ کے صفحات میں  مجمع لگاتے ہوئے، شان و شوکت، رحم دلی، متانت اور شاہی شان رکھتے ہیں ان میں اشوک کا نام چمکتا ہے اور تقریباً تنہا ایک ستارے کی طرح چمکتا ہے‘‘ اشوک وہ واحد حکمران ہے جس نے معاشرے کے مسائل کو لالچ اور ظلم کے ذریعے بدتر بنانے کے بجائے حل کرنے کی کوشش کی اس نے دھرماکی تعلیم دینے کی کو شش کی جس سے اپنی ذات اور دوسروں سے محبت کرنا مراد ہے۔

اشوک کا نظریہ دھرما وہ ہے جسے باہمی انحصار کہا جاسکتا ہے۔ دھرما کے دو بڑے رخ خود نظمی اور رحم دلی ہیں جو باہمی انحصار کے ذہنی رویے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ دھرما کی خود نظمی رکھتے ہیں تو آپ مسئلہ کی بجائے مسئلہ کا حل بن سکتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو لامحدود اہلیت کے طورپر وجدان اور باطنی ذرایع معاشرے کو دینے کے لیے دیکھتے ہیں نہ کہ ان سے لینے  کے لیے۔ اگر آپ دھرما کا رحم رکھتے ہیں تو آپ دوسروں کے دلوں میں دیکھتے ہیں اور ان کی برائیاں اور ان کی  خوشیاں آپ کی بن جاتی ہیں۔

یہ عظیم شہنشاہ اشوک کی تعلیم تھی جو ہندوستان میں ہر جگہ ستونوں پر کنندہ کردی گئی تھی۔ اشوک نے کہا تھا ’’وہ جو پہلے اچھا کرتا ہے اس کو کچھ زیادہ سخت کرنا پڑتا ہے‘‘ اگر آپ اپنی بیماریوں، بدبو اور کچرے کے ڈھیر میں خوش ہیں تو پھر خو ش رہیے۔ خدا آپ کی خوشیوں میں اور برکت دے لیکن اگر آپ ان چیزوں کی وجہ سے پریشان اور اذیت میں مبتلا  ہیں تو پھر آپ قریب آیئے میں آپ کو ان عذابوں سے نجات حاصل کرنے کی ترکیب بتانے چلا ہوں۔

مشہورامریکی مفکر اسٹینلے آرنلڈ نے کہا تھا ’’ہر پریشانی اپنے اندر ہی اپنا حل رکھتی ہے‘‘ اس لیے اپنے مسئلے اور پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کرو، اسے وہ حیثیت دو جو کسی عزیز ترین دوست کو دی جاتی ہے عزت، محبت،احترام اس کا حق ہے اگر تم نے ایسانہ کیا تو یا تو وہ تمہاری دشمن ہوجائیں گی یا تم ان کے دشمن ہوجاؤ گے دونوں ہی حالتوں میں ہی سراسر نقصان تمہارا ہی ہونا ہے۔

آپ کی موجودہ حالت آپ ہی کا انتخاب ہے، اس لیے آپ کو مبارک ہو کیونکہ انتخاب کرنے کے فیصلے کی طاقت آج بھی آپ ہی کے پاس ہے تو پھر آئیں جلدی سے اپنے انتخاب کو تبدیل کرلیتے ہیں اور اشوک کے فلسفے دھرما پر آج ہی سے عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اپنی ذات اور دوسروں سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے دل اور دوسروں کے دلوں میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے ہی آپ یہ کر نا شروع کریں گے ویسے ہی آپ زندگی کے اسٹور سے کچرے کے نہیں بلکہ خوبصورت اور قیمتی چیزوں کے خریدار بن جائیں گے اور پھر آپ اپنے اندر جمع کچرے کو باہر نکال کر پھینک دیں گے۔ جیسے ہی آپ کچرے کو نکال باہرکریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ اپنے اندرکتنی خو شگوار اور مسحورکن تبدیلی پائیں گے۔

مشہور بین الاقوامی ادارے کے سابق چیئرمین ٹامس جان والٹن کا یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ’’اچھے مواقعے کبھی آپ کے دروازے پر دستک نہیں دیتے بلکہ آپ کو خود اچھے مواقعے کے دروازوں پر جاکر دستک دینی ہوتی ہے اور اگر آپ بغور دیکھیں تواچھے مواقعے آپ کے چاروں طرف مو جود ہیں۔ ‘‘آئیں! ہم اپنی زندگی کو یکسر بدل دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔