جمہوری تسلسل میں رخنہ خطرناک ہوگا

زاہدہ حنا  اتوار 16 اپريل 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

10 اپریل 2017ء کو سینیٹ میں دستور سازی کا جشن منایا گیا۔ یہ جشن جس روز منایا جارہا تھا، اس سے ہفتوں پہلے میں اس کوچۂ دستور کی قدم بہ قدم تعمیر اور تہذیب کا احوال اپنی بیٹی سحینا سے سن رہی تھی، جو نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔ وہ اس ٹیم کا حصہ تھی جس کے سپرد ’دستور گلی‘ کی زیبایش و آرایش تھی۔ پارلیمنٹ کی عمارت میں سانس لینے والا یہ کوچہ پاکستان کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کی داستان سناتا ہے۔

10 اپریل کو مجھے حبیب جالبؔ بے حد و حساب یاد آئے۔ یہ وہی تھے جنھوں نے بہت سے سیاسی، رہنماؤں کارکنوں اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے عوام کو دستور کی فضیلت اور اہمیت کا احساس دلایا تھا۔ یہ وہی تھے کہ پاکستانیوں کے جمہوری حقوق غصب کرنے اور انھیں آئین سے محروم رکھنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والے جنرل ایوب خان کے خلاف ہر ہر قدم پر اپنی آواز بلند کی تھی اور اس کے بدلے جیل کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ ان کی نظم ’دستور‘ ہم لوگوں کے لیے قومی ترانے کی حیثیت رکھتی تھی۔ فوجی آمر کے بنائے ہوئے دستور پر یہ وہ نظم تھی جسے جالبؔ گھن گرج کے ساتھ سناتے تو اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے رجز پڑھا جارہا ہے اور باغیوں کی صفیں، غاصبوں اور ظالموں پر ٹوٹ کر گر رہی ہیں۔

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

ہم یہ جانتے تھے کہ ہندوستان اور ہم ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ وہاں کے سیاسی رہنماؤں نے آزادی کی جنگ لڑنے کے ساتھ ہی نئے ملک کے لیے آئین کی تدوین کا کام آزادی سے پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے رہنماؤں نے اپنے ملک کو مستحکم جمہوری بنیادوں پر تعمیر کرنے کی خاطر سب سے زیادہ توجہ آئین اور دستور کی تدوین پر دی تھی اور اس کے لیے انھوں نے ماہر قانون دان بابا صاحب امبیدکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی مقرر کی تھی جو شب و روز کی محنت کے بعد ایک جمہوری اور انصاف پر مبنی دستور مرتب کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ یہی وجہ تھی کہ آزادی کے صرف 3 برس کے اندر انھوں نے اپنے ملک کو ایک ایسا آئین دیا جس نے بڑے بڑے حوادث کے باوجود ہندوستان کے استحکام پر اثر نہیں ڈالا۔

ہندوستان آزاد ہوا تو 15 اگست 1947ء کو بابا صاحب نے ہندوستان کے پہلے وزیر قانون کا عہدہ سنبھالا اور 29 اگست کو کانگریس حکومت نے انھیں آئین کی ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنادیا۔ ہندوستانی آئین جسے بابا صاحب امبیدکر نے لکھا، اس میں ایک عام آدمی کے شہری حقوق کی بے مثال پاسداری کی گئی۔ آسٹن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی آئین وہ پہلی سماجی دستاویز تھی جو ہندوستان کے ایک عام شہری کو مذہب کی آزادی، اچھوتوں کی حالت زار اور شہریوں کے درمیان ہر طرح کے امتیازات کو ختم کرتی تھی۔

بابا صاحب نے عورتوں کے مساوی سماجی حقوق، سول سروس میں اور اسکولوں اور کالجوں میں اچھوتوں، پسماندہ ذاتوں اور دوسری بچھڑی ہوئی ذاتوں کے لیے کوٹا مختص کیا۔ یہ وہ بات تھی جس پر قانون ساز اسمبلی نے ان کا ساتھ دیا اور یوں بھیم راؤ امبیدکر جو خود ایک اچھوت خاندان میں پیدا ہوئے تھے، اور جو اپنی ذہانت، برطانوی سرپرستی اور مہاراجا گائیکواڑ کے وظیفے کی بدولت انگلستان کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرسکے، ہندوستان کے تمام اچھوتوں، پچھڑی ہوئی ذاتوں اور تمام غریب طبقات کی آزادی کا سبب بن گئے۔

آزادی کے لگ بھگ دو برس بعد 25 نومبر 1949ء کو آئین ساز اسمبلی نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کرلیا اور یوں ہندوستان جو رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان سے کہیں بڑا ملک تھا، جس میں زبانوں اور بولیوں کا ایک جنگل تھا، جہاں مذہبی اور فرقہ وارانہ تناؤ تھا اور نفرتوں کی بارود بچھی تھی، وہ تمام گمبھیر مسائل کے باوجود اس دلدل سے نکلتا چلا گیا۔ وہ یکساں سول کوڈ کے حق میں تھے۔ مفلس و مجبور ہندوستانی انھیں دیوتا کے طور پر پوجتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کو جو آئین دیا، اس کی بنیاد پر وہ ہندوستان کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ وہ تحریک آزادی کے ان سورماؤں میں سے تھے جنھوں نے مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو اور دوسروں کی طرح برطانوی سامراج سے لڑائی میں براہ راست حصہ نہیں لیا لیکن انھوں نے اپنی آئین فہمی اور قانون سازی سے کروڑوں ہندوستانیوں کی زندگیاں بدل دیں۔

2012ء میں ہسٹری ٹی وی 18 اور سی این این آئی بی این نے ’عظیم ترین ہندوستانی‘ کے انتخاب کی آن لائن مہم چلائی۔ بابا صاحب امبیدکر نے لگ بھگ 20 لاکھ ووٹ لیے۔ آپ ہندوستان جائیں تو مختلف شہروں میں بہت سے لوگ ان کے مجسموں کے سامنے سجدہ کرتے نظر آئیں گے۔ ہمیں یہ بات ناگوار گزرتی ہے لیکن ان کے دل سے پوچھئے جنھیں صرف 70 برس پہلے ان کنوؤں سے پانی پینے کی اجازت نہیں تھی جن سے اونچی ذات کے ہندوستانی اپنی پیاس بجھاتے تھے۔

بات حبیب جالبؔ کی نظم ’دستور‘ سے شروع ہوکر 10 اپریل کو پاکستان کے یوم دستور تک پہنچی تھی۔ درمیان میں ہندوستانی آئین اور اس کے لکھنے اور مرتب کرنے والے بابا صاحب امبیدکر کا ذکر نکل آیا۔تاریخ کے ورق الٹئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان 1956ء تک برطانوی ڈومینین میں رہا۔ یہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے 12 مارچ 1949ء کو ’آئین کے مقاصد اور اہداف‘ کا ریزولوشن وزیراعظم لیاقت علی خان نے پیش کیا اور آئین ساز اسمبلی کے اراکین میں منظور کیا جب کہ اقلیتی اراکین اس قرارداد مقاصد کے خلاف تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بانی پاکستان کے تصور کے خلاف ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان کی بات نہیں مانی گئی۔ 9 برس کی جدوجہد کے بعد 29 فروری 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا۔ ہماری ملٹری اور سول بیورو کریسی اس بات سے اتنی خوفزدہ تھی کہ اس نے 7 اکتوبر 1958ء کو نام نہاد جمہوری حکومت کا بستر ہی لپیٹ دیا۔

10 اپریل 2017ء کو یوم دستور مناتے ہوئے وزیراعظم نے بجا کہا کہ ’’بطور قوم، ہم سب کو سمجھنا چاہیے کہ ملک کا اعلیٰ قانون مثبت اور شراکتی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں، میرے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کا آئین بلا امتیاز تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اور اس کی بدولت ایک مضبوط اور متحد وفاق کی بنیاد رکھتا ہے۔

بحیثیت پاکستانی شہری یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آئین کی جمہوری، پارلیمانی اور وفاقی نوعیت کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی کوشش کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیں۔ یوم دستور منانے کی روایت نہ صرف آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کی روح کو ہمارے مابین مستحکم کرے گی بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو جمہوریت اور جمہوری طرزِ حکمرانی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کا باعث بنے گی۔‘‘

1973ء کا آئین ایک متفقہ مقدس دستاویز تھا جس کا مقصد اس دستاویز کے سائے میں تمام پاکستانیوں کو مجتمع کرنا تھا لیکن 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا اور آئین کو 12 صفحوں کا چیتھڑا کہہ کر اس کی توہین کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں نے جمہوری جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا، سزائیں کاٹیں، جیلیں بھگتیں اور جان سے گئے۔ جان دینے والوں کے سرخیل ذوالفقار علی بھٹو ٹھہرے، انھوں نے ایک غاصب اور ایک آمر کے سامنے سر نہ جھکایا اور پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔

ان کی شہادت کے روشن چراغ نے پاکستانیوں کو جدوجہد کا وہ راستہ دکھایا جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم نے 10 اپریل 2017ء کو یوم دستور منایا۔ آپ اگر پارلیمنٹ ہاؤس جائیں تو وہاں آپ کو جمہوری اور آئینی جدوجہد کرنے والے گمنام سورماؤں کی ایک یادگار نظر آئے گی جس کا افتتاح 10 مارچ 2017ء کو ہوا۔

ہمارے یہاں بھی آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا سفر اگر 1950ء سے شروع ہوگیا ہوتا تو آج پاکستان ایک مختلف ملک ہوتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ مشرقی بنگال ہمارے ساتھ ہوتا۔ آمریت، عوام کی حاکمیت سے نفرت کرتی ہے لہٰذا وہ عوام کو نفرت کی بنیاد پر تقسیم رکھتی ہے، جس سے سماج میں محبت، برداشت، تحمل اور رواداری کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس عمل کے نتیجے میں متشدد انتہاپسندی جنم لیتی ہے اور خان عبدالولی خان یونیورسٹی جیسے سانحے جنم لیتے ہیں۔

آئین کی پاسداری اور پارلیمنٹ کی مکمل بالادستی کو یقینی بنا کر ہی انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تقریباً نو برس سے جمہوری تسلسل جاری ہے۔ انتہاپسند قوتیں اس تسلسل کو توڑنے کے درپے ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی بقا غیر جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں جمہوری عمل کے تسلسل میں کسی بھی جانب سے کوئی رخنہ نہ ڈالا جائے۔ پاکستان آج کسی مہم جوئی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔